90 کی دہائی بمقابلہ اکیسویں صدی : تحریر محمود شام


خبریں اسلام آباد میں جنم لیتی ہیں لیکن دردِ زہ میں مبتلا پورا پاکستان رہتا ہے۔

کرب کا عالم واہگہ سے گوادر تک ہے۔ صرف موٹر وے اور بڑی شاہراہوں پر ہی نہیں۔ شہر برائے شہر سڑکوں پر۔ کچے راستوں پر آرزوئیں تڑپ رہی ہیں۔ موٹر وے پولیس کو یہ تربیت نہیں دی گئی کہ وہ مسافروں کی تمنّاؤں اور اُمنگوں کی دھند کا بھی جائزہ لے کر سڑکیں کھولے اور بند کرلے۔ خواہشات اور عزائم کا راستہ بلاک کرنے والوں کے چالان کرے۔

چنگاریاں ہر ناکے پر سلگ رہی ہیں۔ کہیں کہیں شعلہ بن کر بھڑکتی ہیں۔کچھ لوگ اسے اندھیرے میں اُمید کی کرن سمجھ کر دل ہی دل میں خوش ہوتے ہیں۔ پھر قبیلوں کے سربراہ ملتے ہیں۔ بزرگوں کی کمیٹی بناکر بھڑکتے شعلے کو پھر چنگاری میں منتقل کردیتے ہیں۔ ان برسوں سے سلگتی چنگاریوں کو مستقل راکھ کرنے کی اہلیت کسی کے پاس نہیں ۔

تاریخ کو غور سے پڑھنے والے۔ پس دیوار دیکھنے کی صلاحیت سے بھی نواز دیے جاتے ہیں۔ سرکاری مورخ تو فی الحال اعزازات کے حصول کے بعد مبارکباد وصول کرنے میں مصروف ہیں۔ تاریخ کے قاری دیکھ رہے ہیں کہ تاریخ کے پہیے کو پیچھے دھکیلنے کی کوشش پورے زوروں پر ہیں۔ ججز اپنے اختیار استعمال نہیں کررہے ہیں۔ بلکہ انکو استعمال کرنے کیلئے خط لکھ کر اجازت مانگ رہے ہیں۔ سسٹم غیر تحریری طور پر ایسا تشکیل دے دیا گیا ہے کہ بڑے بڑے عہدوں پر فائز ارباب اختیار اپنا قلم، اپنا ذہن، اپنی اپج بروئے کار لانے کی بجائے نامعلوم نمبروں سے فون کے منتظر رہتے ہیں۔ Unknown سے خوف بھی ہے ۔ رومان بھی۔ توہین عدالت کے قوانین کا تجربہ وزرائے اعظم پر وکیلوں پر، ایڈیٹرز پر، کالم نویسوں پر ہوتا ہے۔ باقی مقامات پر پر جلتے ہیں۔

تاریخ کے پہیے کو پیچھے دھکیلنے کی مزاحمت نئے ہزاریے کی نسل کررہی ہے۔ اسے قدرت نے یہ جبلت عطا کی ہے۔ وہ بائیں اور دائیں کے۔ سرخ اور سبز کے نعروں میں مبتلا نہیں ہورہی ہے۔ جو کرنے والا کام ہے کررہی ہے۔

بین السطور پڑھنے والے ذرا سا ذہن استعمال کریں تو صاف صاف نظر آئے گا کہ اصل معرکہ 80کی دہائی کے بوڑھے نو دو لتیوں اور نئے ہزاریے کے پر عزم ’’اسٹارٹس اپ‘‘ کے درمیان ہے۔ راز یہ آشکار ہورہا ہے کہ 80کی دہائی کے پیران تسمہ پا ابھی تک غلاموں کی خرید و فروخت کو ہی کامیاب حکمرانی سمجھتے ہیں حالانکہ زمانے کے انداز بدلے گئے ہیں۔ خرد غلامی سے آزاد ہورہی ہے۔ مشرق و مغرب میں نئے دَور کا آغاز ہے۔ مغرب اور مشرق میں سوچ کا فرق کتنا ہے۔ ہم کہتے ہیں۔ جس کی لاٹھی اس کی بھینس۔ مغرب کہتا ہے Survival of the Fittest ۔ الفاظ پر غور کریں۔ دونوں کے الفاظ جو منظر نامہ لے کر آتے ہیں۔ اس میں زمانوں کا کتنا تفاوت ہے۔ ایک ہمارے سامنے ماحول لے کر آتا ہے۔ جس کی لاٹھی اس کی بھینس۔ ہم شاہراہ پر اڑتی گرد اور ہوا میں لہراتی لاٹھیاں دیکھ کر اپنی بھینس خود ہی لاٹھی برداروں کے حوالے کر دیتے ہیں اور جس کی لاٹھی اس کی بھینس پکارتے ہوئے اپنے کچے گھر کو لوٹتے ہیں۔ گھر والے بھی یہ کہہ کر استقبال کرتے ہیں۔ ’جان بچی سو لاکھوں پائے‘۔

مغرب کا محاورہ کہتا ہے کہ بچے گا وہی جو زمانے کے تقاضوں کے مطابق موزوں ترین ہے۔ جس کے پاس صلاحیت ہے۔ تربیت ہے۔ مقامی، علاقائی اور عالمی مارکیٹوں کی اتار چڑھاؤ سے واقف ہے۔ اقبال نے کہا تھا۔ ہے جرم ضعیفی کی سزا مرگ مفاجات۔ ظلم یہ ہے کہ ہم اپنے آپ کو صرف انفرادی طور پر نہیں۔ قومی طور پر بھی ضعیف سمجھنے لگتے ہیں۔ 50 سے زیادہ ریاستیں مسلمان ہیں لیکن وہ سب اپنے آپ کو ضعیف سمجھ رہی ہیں اور مرگ مفاجات کی منتظر ہیں۔ بستر علالت پر لیٹ گئی ہیں۔

آج اتوار ہے، اپنے بیٹوں بیٹیوں،پوتوں پوتیوں، نواسوں نواسیوں، بہوؤں دامادوں کے ساتھ افطاری پر اکٹھے بیٹھنے کا دن۔ پہلے ہم لکھتے تھے رمضان المبارک آرہا ہے۔ پھر کہتے ہیں آج اتنے روزے ہوگئے۔ اب ہم کہہ رہے ہیں۔ اتنے رہ گئے۔ ہم صرف دن گنتے ہیں۔ دن کیسے گزارنا ہے۔ اس کی منصوبہ بندی ہم سمجھتے ہیں یہ کام صرف حکمرانوں کا ہے۔ والدین تو یہ بھی نہیں دیکھتے کہ حکمران حقیقی ہیں یا غاصب اور ان میں مسائل سے آفات ناگہانی سے ٹکرانے کی صلاحیت ہے یا نہیں۔اب اصل مقابلہ ہماری ان اولادوں کی سوچوں اور ہم زندگی کی بہاریں دیکھ چکے لوگوں کی سوچوں کے درمیان ہے۔ اپریل شروع ہونے والا ہے۔ اقبال کے وصال کا مہینہ۔ کلیات اقبال سے آواز آرہی ہے۔ ہوا خیمہ زن کاروان بہار۔ ارم بن گیا دامن کوہسار(سوشل میڈیا آگیا ہے۔ اظہار کے راستے کھل رہے ہیں۔ مصلحتیں اب نئی نسل کا وطیرہ نہیں۔ دل میں جو ہے وہی لبوں پر ہے)

اقبال کہہ رہے ہیں۔ گیا دَور سرمایہ داری گیا۔ تماشا دکھاکر مداری گیا۔ خرد کو غلامی سے آزاد کر۔ جوانوں کو پیروں کا استاد کر۔ پرانی سیاست گری خوار ہے۔ زمیں میر و سلطاں سے بیزار ہے۔رہنمائی کا اختیار انہیں ہے جو خود سوچتے ہیں۔ پاکستان کی تاریخ میں ایسے وزیر اعظم رہے ہیں۔ جو تاریخ میں زندہ رہنے کیلئے زندہ رہتے تھے۔ انکے الفاظ میں جغرافیہ بولتا تھا۔ انکے اقدامات میں تدبر جلوہ گر ہوتا تھا۔ وہ صرف ایک الیکشن کی منصوبہ بندی نہیں کرتے تھے۔ آئندہ نسلوں کے شب و روز کے نقشے بناتے تھے۔ وہ لاٹھی دیکھ کر بھینس انکے حوالے نہیں کردیتے تھے۔

اب یہ جو کشمکش ہے صرف مرکز اور صوبوں کے درمیان نہیں ہے۔ بلکہ ماضی اور مستقبل کے مابین ہے۔ گزشتہ ہزاریہ اور نیا ہزاریہ ایک دوسرے کے مقابل ہے۔ ایک طرف ضعیف جاگیرداری ہے۔ بوڑھی سرداری ہے۔ اور ان کے بوڑھے محافظ ہیں ۔ دوسری طرف وہ عہد شباب ہے۔ جو عشق کے پر لگاکر اڑ رہا ہے۔ وہ گراں خواب چینی ہیں جو سنبھلنے لگے ہیں۔ جو صرف اپنے آپ کو ہی نہیں۔ اپنے ہمسایوں کو بھی خوشحالی کے راستے پر ساتھ لے کر چلنا چاہتے ہیں۔

مفکر پاکستان ضعیفی کو جرم قرار دیتا ہے۔ زمانے کا تقاضا بھی یہی ہے۔ واشنگٹن خود کو ابھی تک سرد جنگ کے دور میں سمجھتا ہے۔ کمیونزم کو ماسکو سے رخصت کرکے وہ کہتا ہے کہ ہم سا کوئی نہیں ہے۔ واشنگٹن اپنی برتری۔ اپنی لاٹھی دکھا کر کمزور ملکوں کی بھینس اپنے باڑے میں لے جاتا ہے۔ اپنے ہاں جمہوریت کے راگ الاپتا ہے۔ دوسروں کے ہاں ملوکیت کی پرورش کرتا ہے۔

اب ہماری تشویش یہ ہونی چاہئے کہ اس کشمکش کے نتیجے میں جو دھماکے اور ہنگامے ظہور میں آنے والے ہیں۔ کیا ہمارے بوڑھے حکمران طبقے ان سے نبرد آزما ہونے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ جو بھی خفیہ راستے اختیار کیے جارہے ہیں۔ ان سے مقصود کیا ہے۔ وہ جو بھی آئندہ دس پندرہ سال کے منصوبے بنارہے ہیں۔ ان سے وہ کیسا پاکستان چاہتے ہیں؟

اٹھا ساقیا پردہ اس راز سے

لڑا دے ممولے کو شہباز سے

بشکریہ روزنامہ جنگ