ایک انتہا سے دوسری انتہاپر جانا کوئی ہم سے سیکھے۔ ہماری مسلسل دہائیوں، تقریروں اور تحریروں کے باوجود پہلے کوئی یہ ماننے کو تیار نہیں تھا کہ ٹی ٹی اے اور ٹی ٹی پی کا آپس میں کوئی تعلق ہے اور اب ہماری ریاست دوسری انتہاپر چل کر یہ ورد کرنے لگی ہے کہ یہ تو یک جان دو قالب ہیں اور یہ کہ ٹی ٹی پی جو بھی کارروائی کرئیگی اسکا جواب افغانستان کو دیا جائیگا۔ریاست سے معاملہ عام افغانوں تک چلاگیا ۔ پہلے ایک طرح کے بے چارے افغانوں کو نکالا گیا اور اب کارڈز والے افغانوں کو نکالنے کی تیاریاں ہیں لیکن اپنی غلطیوں پر ہم دھیان نہیں دیتے ۔ ہماری سب سے بڑی غلطی تو یہ ہے کہ ہم افغانوں کو طعنہ دیتے ہیں اور طعنے کا وہ بہت برا مناتے ہیں ۔ مثلا ہمارے حکمران ان دنوں یہ طعنہ دے رہے ہیں کہ ہم نے طالبان کو اتنا عرصہ سپورٹ کیا اور اب وہ ہمارے احسان کو بھول گئے ہیں ۔ اب اس دعوے کی حقیقت یہ ہے کہ ہم علانیہ طور پر تو امریکہ کے اتحادی تھے اور طالبان کو جو سپورٹ کیا ہے وہ درپردہ کیا ہے ۔ طالبان کے ذہنوں میں تو یہ ہے کہ پاکستان امریکہ کی فرنٹ لائن اسٹیٹ تھا۔ ملا عبدالسلام ضعیف کو بے شرمی سے گرفتار کرکے امریکہ کے حوالے کیا گیا۔ استاد یاسر یہاں پر قتل ہوا ۔ ملا برادر کو جیل میں رکھا گیا وغیرہ وغیرہ۔لیکن ہم نے جو احسان کئے ہیں اس کاعلانیہ طور پر بوجوہ تذکرہ بھی نہیں کرسکتے کیونکہ پھر تو امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے مجرم بنیں گے ۔ چنانچہ جب ہم احسانات کا طعنہ دیتے ہیں تو افغان طالبان کی طرف سے سخت ردعمل سامنے آتا ہے اور دوسری طرف طالبان مخالف افغان کہتے ہیں کہ دیکھو ہم نہ کہتے تھے کہ پاکستان ڈبل گیم کررہا ہے اور آج جو ہم دربدر ہیں تو یہ پاکستان کی وجہ سے ہیں ۔ اس لئے طعنوں کا سلسلہ تو فوری طور پر بند ہونا چاہئے۔
جہاں تک ٹی ٹی پی کا معاملہ ہے،پہلی غلطی تو پاکستان نے یہ کی کہ ٹی ٹی پی سے متعلق شق کو قطر معاہدے میں ڈلوانے میں ناکام رہا ۔ پاکستان کو اس وقت تک قطر معاہدے میں تعاون نہیں کرنا چاہئے تھا جب تک وہ اس شق کو نہ ڈلواتا لیکن زلمے خلیل زاد کی مخالفت کی وجہ سے اس شق کو نہیں ڈلوایا گیا جس کا خمیازہ ان دنوں ہم بھگت رہے ہیں ۔
پاکستان، فاتح بننے سے قبل اور اسکے بعد کے طالبان کے فرق کو سمجھ نہیں پایا۔ ابتدا میں اگر ٹی ٹی پی سے براہ راست مذاکرات ہورہے تھے تو اس لئے کہ ٹی ٹی اے سامنے موجود نہیں تھی ۔ کابل فتح کرنے کے بعد افغان طالبان ایک ریاست کے حکمران بن گئے تھے ۔ میں ہمیشہ آپریشنوں کا مخالف رہا ہوں اور مذاکرات پر زور دیتا رہا ہوں لیکن سوال یہ ہے کہ مذاکرات، کب ، کس کے ساتھ اور کن لوگوں کے ذریعے ہوں ۔ اس وقت جبکہ ٹی ٹی پی کے سارے لوگ افغانستان میں تھے، ٹی ٹی اے کی قیادت کے ساتھ مذاکرات ہونے چاہئیں تھے لیکن ہمارے پالیسی سازوں نے جلدبازی میں افغان طالبان پر زور دیا کہ آپ ہمیں ٹی ٹی پی کے ساتھ بٹھادیں تو ہم اپنا مسئلہ حل کرلیں گے ۔افغان طالبان نے ٹی ٹی پی کی پوری قیادت کو ہمارے ڈی جی آئی ایس آئی کے ساتھ بٹھایا جس میں ایک مہینے کی جنگ بندی ہوئی اور جواب میں طالبان کے سو سے زائد رہنماؤں کو رہا کرنے کا وعدہ ہوا۔ وہ پورا ایک مہینہ گزر گیا لیکن ہمارے ڈی جی آئی ایس آئی یہاں ٹی ایل پی کے مسئلے میں مصروف ہوگئے اور ان کا ایک بندہ بھی رہا نہ ہوسکا۔ پھر جب دوبارہ ان کے ساتھ مذاکرات کا مطالبہ کیا گیا تو افغان طالبان، جو ضامن تھے ،کی پوزیشن ٹی ٹی پی کے سامنے اسلئے کمزور تھی کیونکہ انہوں نے جنگ بندی کاوعدہ پورا کیا تھا لیکن جواب میں ان کے قیدی رہا نہیں ہوئے تھے ۔ چنانچہ دوبارہ مذاکرات کے لئے ٹی ٹی پی نے اپنے لوگوں کی رہائی کی شرط رکھ دی ۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ مذاکرات وفاقی حکومت یا اس کے نمائندے کرتے لیکن دوسری مرتبہ مذاکرات پی ٹی آئی کی صوبائی حکومت کے ترجمان بیرسٹر محمد علی سیف کی قیادت میں قبائلی مشران نے کئے ۔ان مذاکرات کا صرف ایک دور ہوا تھا کہ پاکستان میں عسکری قیادت تبدیل ہوئی جس کے ساتھ پالیسی بھی تبدیل ہوگئی۔ نئی پالیسی یہ بنائی گئی کہ ٹی ٹی پی سے براہ راست کوئی مذاکرات نہیں ہوں گے اور جو بھی بات ہوگی وہ افغان طالبان کے ساتھ ہوگی ۔ اب افغان طالبان کہتے ہیں کہ آپ لوگ ٹی ٹی پی کے ساتھ اپنا مسئلہ خود حل کرلیں اور ہم سہولت کاری کریں گے لیکن ہماری ریاست اس کیلئے تیار نہیں ۔ ہماری ریاست کا موقف ہے کہ پوری ٹی ٹی پی افغانستان میں ہے ۔ وہ جو کچھ کررہے ہیں افغان طالبان کے تعاون سے کررہے ہیں اور وہ پاکستان کے خلاف کارروائیاں کریں گے تو ہم اس کیلئے افغان حکومت کو ذمہ دار قرار دیں گے ۔ دوسری طرف افغان طالبان کہتے ہیں کہ ٹی ٹی پی کے جو عناصر کارروائیاں کرتے ہیں وہ پاکستان میں ہیں اور پاکستان اپنی داخلی ناکامی کیلئے ہمیں الزام دے رہا ہے ۔ وہ یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ پہلے ہم نے پاکستان کے مطالبے پر ٹی ٹی پی کی قیادت کو پاکستان کے ساتھ بٹھارکھا تھا لیکن پاکستان نے وعدے پورے نہیں کئے اور یکطرفہ طور پر ٹی ٹی پی کے ساتھ مذاکرات کا سلسلہ منقطع کیا۔
ٹی ٹی اے اور ٹی ٹی پی یک جان دو قالب ہیں یا نہیں لیکن ایک حقیقت ہے جس سے کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ اس خطے میں ایک بار پھر علاقائی اور عالمی پراکسی وار شروع ہوچکی ہے اور پاکستان کا مسئلہ افغانستان سے ہی جڑا ہوا ہے اس لئے بات بھی افغان طالبان سے کرنی ہوگی لیکن افغانوں کے ساتھ طعنوں اور دھمکیوں کے انداز میں بات کرنا کہیں کی عقلمندی نہیں ۔ حکومت پاکستان کو چاہئے کہ وہ اپنی پالیسی پر نظرثانی کرے ۔ پہلی فرصت میں افغان طالبان کو گلے لگالے ۔ان کو عملی طور پر یقین دلادے کہ پاکستان ان کا ہمدرد ہے ۔ پھر انہیں خطے میں جاری نئی پراکسی وار کی تفصیلات بتا کر سمجھا دے کہ دونوں کا بھلا اسی میں ہے کہ مشترکہ لائحہ عمل بنائیں اور ایک دوسرے کی کمزوریوں سے فائدہ اٹھانے کی بجائے ایک دوسرے کی کمزوریوں کا خیال رکھیں۔ جو لوگ مکمل ٹی ٹی پی کو کرش کرنے کا سوچ رہے ہیں وہ بھی احمقوں کی جنت میں رہتے ہیں۔ ٹی ٹی پی کے مسئلے کا حل بھی مذاکرات ہی ہیں لیکن مذاکرات صحیح طریقے سے، صحیح لوگوں کے ساتھ اور صحیح لوگوں کے ذریعے ہونے چاہئیں۔ شاید یہ بات لوگوں کو بری لگے لیکن ایسا حل نکالنا ہوگا جس میں ٹی ٹی پی کے لوگ بھی زندہ رہ سکیں مگر امن کے ساتھ ۔
بشکریہ روزنامہ جنگ