بھارت میں کمپنی ایکٹ کی رو سے، کوئی کمپنی پچھلے تین مالی سالوں میں کمائے گئے اوسط منافع کا صرف 7.5% ہی سیاسی یا سماجی کاموں کیلئے عطیہ کرسکتی تھی۔ تاکہ کمپنی کے شئیر ہولڈرز کے مفادات کا تحفظ ہوسکے اور کمپنی کے افسران ان کے خون پسینہ کی کمائی لٹاتے نہ پھریں۔ مثال کے طور پر، اگر کسی کمپنی نے تین سال کے لیے اوسطا 100 روپے کا منافع کمایا، تو اسے چوتھے سال میں صرف 7.5 روپے عطیہ کرنے کی اجازت تھی۔ ٹیلی کام کمپنی بھارتی ایئرٹیل کے گوشوارہ کے مطابق مالی سال 2020-21 اور 2022-23 میں اس کمپنی کو97.17 ارب روپے کا نقصان اٹھانا پڑا، جس کی وجہ سے وہ شئیر ہولڈروں کے ساتھ پیسے بٹورنے کی پوزیشن میں نہیں تھی ۔مگر اس کے باوجود، کمپنی نے سیاسی جماعتوں کو 19.7 ارب ر وپے سے زائد کا عطیہ دیا۔ اس میں سے 197 کروڑ روپے بی جے پی کو 50 لاکھ روپے جموں و کشمیر کی نیشنل کانفرنس کو اور 10 لاکھ روپے بہار کی راشٹریہ جنتا دل (آر جے ڈی) کو دیے۔ اسی طرح ڈی ایل ایف کمرشل ڈیولپرز لمیٹڈنے مالی سال 20-2019 میں 20 کروڑ روپے کا عطیہ دیا حالانکہ اسی مدت میں 210 کروڑ روپے کا نقصان گوشوارہ میں دکھایا۔ گوشوار میں خسارہ دکھانے والی ان 16 فرموں کے علاوہ، کم از کم 31 فرموں نے اپنے تین سال کے اوسط منافع سے کہیں زیادہ چندہ دیا۔ کولکتہ کی شراب تقسیم کرنے والی فرم کیسل لیکرز پرائیویٹ لمیٹڈ نے پچھلے تین سالوں میں بمشکل 6 لاکھ روپے کا منافع کمایا، مگر سیاسی جماعتوں کو 7.5 کروڑ روپے یعنی منافع سے 118 گنا زیادہ عطیہ دیے۔ کیونٹر فوڈپارک انفرا پرائیویٹ لمیٹڈ نے مالی سال 2019-20 میں 195 کروڑ روپے کا عطیہ دیا، حالانکہ اس نے صرف 12.4 لاکھ روپے کا منافع کمایا تھا۔اسی طرح ایک اور کمپنی مدن لال لمیٹڈ نے مالی سال 2020 میں 185.5 کروڑ روپے کا عطیہ دیا۔ مگر اس سال کمپنی کا منافع صرف5.18 کروڑ روپے تھا۔ پچھلے تین سالوں کی اوسط سے، کمپنی کو 2.5 کروڑ روپے کا نقصان ہو رہا تھا۔ ایسی سخاوت پر تو حاتم طائی بھی شرمندہ ہوگا، کہ نقصان اٹھانے کے باوجود عطیات دیے۔ اکثر کمپنیوں نے عطیات حکمران بی جے پی کو دیے ، چند ایک نے ایسی اپوزیشن پارٹیوں کو دئے، جو صوبوں میں برسراقتدار تھے۔ کانگریس پارٹی کے جنرل سیکرٹری اور ترجمان جے رام رمیش جو خود بھی ماہر معاشیات ہیں کا کہنا ہے کہ سپریم کورٹ کی ڈانٹ کے بعد اسٹیٹ بینک آف انڈیا نے جو اعداد و شمار جاری کئے ہیں، ا ن کے تجزیہ سے ایک اور بات کا پتہ چلتا ہے کہ جن کارپوریٹ گروپس نے عطیہ دیے ہیں اس کے فورا بعد ہی ان کو سرکاری کاموں کے ٹھیکہ بھی ملے ہیں۔ مالی بدعنوانی میں ملوث ہونے کی پاداش میں چند کمپنیوں کے خلاف تفتیشی ایجنسیوں نے جب ریڈ کرکے جانچ کرنا شروع کی، تو انہوں نے بانڈ خرید کر حکمران پارٹی کو تھما دیے۔ اس کے بعد ان کے خلاف کیسز میں نرمی برتی گئی۔ رمیش کا کہنا ہے کہ 38 کارپوریٹ گروپوں نے 3.8 لاکھ ٹریلین روپے کے 179 سرکاری ٹھیکے اور پروجیکٹس الیکٹورل بانڈز عطیہ کرنے کے بعد حاصل کئے۔ مثال کے طور پر ٹنل بنانے والی ایک کمپنی آپکو انفرا کو 15جنوری 2020کو کشمیر میں ایک میگا ٹنل بنانے کا ٹھیکہ مل گیا ، جس سے سرینگر سے سونہ مرگ اور لداخ جانے میں آسانی ہو جائیگی۔ اسکے دو دن بعد اس نے دس کروڑ روپے کے بانڈ خرید کر بی جے پی کے دفتر میں جمع کروا دئے۔ اگلے دس ماہ تک اس کمپنی نے تیس کروڑ روپے عطیہ کے طور پر دئے۔ اسی طرح تفتیشی ایجنسیوں نے تین سالوں میں جن 56 کمپنیوں پر مالی بدعنوانیوں میں ملوث ہونے کی وجہ سے ریڈ کی، انہوں نے 25ارب روپے کے بانڈ خرید کر حکمران پارٹی کے دفتر میں جمع کروائے۔ رمیش کے مطابق یہ ایک طرح کی ہفتہ وصولی ہے، یعنی دھمکی دیکر کمپنیوں سے عطیات وصول کئے گئے۔ عطیات دینے کے بعد ہی ان پر ریڈ کا سلسلہ بند ہوجاتا تھا۔ ان کے مطابق 16 فر ضی کمپنیوں نے تقریبا 419 کروڑ روپیہ کا چندہ بی جے پی کو دیا ہے ۔ یہ کمپنیان کیا کام کرتی ہیں کس طرح کا کاروبار کرتی ہیں، کسی کو معلوم نہیں ہے۔ چند برس قبل ڈنمار ک کی پارلیمنٹ کے اسپیکر نے مجھے بتایا کہ الیکشن میں انہوں نے اپنے حلقہ انتخاب پر 20000 ڈالر خرچ کیے تھے، لیکن انہیں اپنی جیب سے پھوٹی کوڑی بھی نہیں دینی پڑی کیونکہ یہ رقم پارٹی اور سرکار ی فنڈ سے ملی تھی۔ یہی کچھ پچھلے سال ترکیہ کے انتخابات کے موقع پر امیدوارں نے بتایا، جو پارلیمان کیلئے قسمت آزمائی کررہے تھے۔ ان ممالک میں انتخابی مہم بھی مختصر ہوتی ہے، اس وجہ سے بھی اخراجات کم ہوتے ہیں۔ انتظامی ڈھا نچہ بھی ایسا ہے کہ لوگ اپنی روزمرہ ضرورتوں کے لیے سرکاری حکام پر بہت کم انحصارکرتے ہیں۔ غالبا اس سے بھی ان ممالک کو بدعنوانی کو کم کرنے میں مدد ملی ہے۔ اگر کارپوریٹ گھرانے سیاسی جماعتوں اور منتخب نمائندوں کو فنڈز دیتے ہیں، تو اس کے عوض وہ اگلے پانچ سال تک کیا لیتے ہیں ایک بڑا سوال ہے؟انتخابات کو سہل اور کم خرچ بنانا وقت کی اہم ضرورت ہے اور کورپشن کو جڑ سے اکھاڑنے کا یہ واحد طریقہ ہے۔بھارت کے ایک سابق وزیر دفاع آنجہانی جارج فرنانڈیز کہتے تھے، جب انہوں نے 1967میں ممبئی میں کانگریس کے ایک اہم لیڈرایس کے پاٹل کو ہراکر بھارتی سیاسی تاریخ کا ایک پڑا اپ سیٹ کیا، تو پوری مہم پر صرف دو ہزار روپے خرچ ہوئے تھے اور یہ روپے بھی ٹریڈ یونین اداروں نے عوامی چندہ سے حاصل کئے تھے۔ میرے آبائی قصبہ کشمیر کے سوپور ٹاون میں جب انتخابات کا موسم قریب آتا تھا، تو جماعت اسلامی کے امیدوار سید علی گیلانی انتخابی مہم شروع کرنے سے قبل چندہ اکھٹا کرنے کی مہم شروع کرتے تھے۔ ان کا استدلال تھا کہ اگر کوئی چندہ دیتا ہے، تو ووٹ بھی دیگا اور وہ اس کے تئیں جوابدہ بھی رہیں گے۔ اسی طرح جموں و کشمیر کے ابھی تک کے طاقتور ترین وزیر اعلی شیخ محمد عبداللہ سال یا دوسال میں ایک بار خود لال چوک، ہری سنگھ ہائی اسٹریٹ وغیرہ کا پیدل دورہ کرکے اپنی پارٹی کیلئے چندہ اکھٹا کرتے تھے۔ سپریم کورٹ کی مداخلت کے بعد تو یہ بھانڈہ پھوٹ گیا ہے کہ بھارت میں سیاسی پارٹیوں کو کون ، کیسے اور کیوں چندہ دیتا ہے؟ مگر جموں و کشمیر میں سرگرم پارٹیوں کی فنڈنگ پر ہنوز سوالات ہیں۔ ان کا تام جام وغیرہ کس کی مرہون منت ہے، ابھی تک پردہ راز میں ہے۔ جمہوریت کا مقصد تو عام آدمی کو با اختیار بنانا اور اقتدارکی دیوی کو اس کی چوکھٹ تک لانا ہوتا ہے تاکہ وہ اپنے آپ کو سسٹم کا حصہ سمجھے اور حکمرانوں کو اپنا وکیل یا اپنی ذات کا قائم مقام تسلیم کرے۔مگر جب یہ حکمران کارپوریٹ اداروں کے زیر سایہ اقتدار کے پر براجمان ہوں، تو کونسے عوام اور کیسے عوام۔ ووٹر کا مصرف تو بس ووٹنگ کے دن ہوتا ہے، اور وہ ووٹ بھی قیمت دیکر حاصل کیا جاتا ہے اور پھر اگلے پانچ سال اسکی چھاتی پر مونگ دل کر ان طاقتوں کو فائدہ پہنچانے کے سامان کرنے ہوتے ہیں، جنہوں نے اس امیدوار یا پارٹی پر سرمایہ کاری کی ہو۔
بشکریہ روزنامہ 92 نیوز