جب ریاستیں شہریوں کو جو سہولتیں مفت مہیا کرتی ہیں، وہ کاروبار کی شکل اختیار کرلیں تو پھر بچپن کے پھول چہرے کملا کر زرد پڑ جاتے ہیں،خوشی سے بھرے دن اور آرام کے جھولے میں رکھی راتیں چھن جائیں تو روٹی، صحت اور پناہ کی فکر میں بھاگ دوڑ کرنے والے ننھے قدم خاندانوں کا بوجھ ڈھوتے ڈھوتے زہریلے بوجھ کا روپ دھار کر اپنی اور ریاست دونوں کی صحت و سلامتی کیلئے سوالیہ نشان بن جاتے ہیں۔
یومِ پاکستان کے حوالے سے بڑے مذاکرے ہوئے ، نظرانداز ہونے والے محکموں، اداروں اور آدرشوں پر بھی بات ہوئی، بچوں کو سجا کر محفلوں اور پریڈوں کی رونق بڑھائی گئی مگر ان کے مسائل پر کسی نے سوچنے اور بولنے کی زحمت نہ کی،امتیازی سلوک کے خاتمے کیلئے جس آزاد ملک کی جدوجہد کی گئی وہاں تعلیم کے درجنوں طبقات کی حوصلہ افزائی کرکے اکثریت کے بچپن کو محرومی اور محکومی کی سند عطا کی گئی ، لیکن بے انصافی اور ظلم کی حد کرتے ہوئے ایک بڑی تعداد کو تعلیم سے محروم رکھا گیا، آج بھی پنجاب کے تین کروڑ سے زائد بچے سکول سے باہر ہیں ، یہ بچے صرف سکول سے باہر نہیں ہر سہولت اور خوشی سے محروم ہیں ، سڑکوں پر گداگری کی اذیت، ورکشاپوں میں بھاری اوزاروں کی میل، کارخانوں، اینٹوں کے بھٹوں کے دھوئیں،ہوٹلوں اور گھروں میں شب و روز غلاموں کی طرح اذیت سہتے، ہر طرح کی زیادتیوں کا شکار بچوں کے لئے ریاست نے نہ کبھی سنجیدگی سے سوچا نہ مزدوری، بچیوں کی کم عمر میں شادی اور لازمی تعلیم کے قانون پر عمل کروانے کی زحمت کی ۔آئے روز میڈیا پر بچوں کے حوالے سے ظلم و زیادتی کی خبریں دیکھ کر حساس لوگوں کی نیندیں اڑ جاتی ہیں، اجتماعی ضمیر کرب کا شکار ہوجاتا ہے مگر بیانات سے آگے مداوے کی کوئی شکل نظر نہیں آتی۔ رمضان میں اکثر فلاحی اداروں میں حاضر ہونے کا سلسلہ رہتا ہے، اس بار بھی آغاز بچوں کی تعلیم، صحت اور اچھے مستقبل سے سے جڑے اداروں میں کچھ وقت گزار کر کیا جس نے میری دکھی سوچوں کیلئے اطمینان کا سانس لینے اور حوصلہ قائم رکھنے کی ہمت عطا کی کہ معاشرے میں ایسے لوگوں کا وجود نعمت اور رحمت کی طرح ہوتا ہے جو سائبان بنتے ہیں ۔یتیم، بے سہارا، لاوارث اور انتہائی غریب بچوں کے لئے صوفیہ وڑائچ اور ڈی آئی جی محبوب اسلم کی المرا فاؤنڈیشن نے، اپنا گھر،کا جو سلسلہ شروع کیا ہے وہ بہت منفرد ہے، ملک بھر کے 175بچے کینٹ اور ڈیفنس کے آٹھ گھروں میں رہائش پذیز ہیں جنہیں رہائش اور تعلیم کی وہ تمام سہولتیں میسر ہیں جو امیر طبقے کی اولادوں کو حاصل ہیں لیکن سب سے خوشی کی بات یہ ہے کہ یہ سب بچے صوفیہ کو ماما اور محبوب صاحب کو پاپا کہتے ہیں، یہ دونوں بھی ان بچوں کے لاڈ اٹھاتے ہیں، اپنائیت کا ماحول بہت متاثر کن ہے، لوگ بڑھ چڑھ کر المرا فاؤنڈیشن کی مالی مدد کر رہے ہیں جن کا مقصد ایک وسیع کیمپس بنانا ہے جہاں سب بچے ایک عمارت میں رہ سکیں، تعلیم، صحت اور کھیل کی سہولتیں میسر ہوں اور پھر یہ سلسلہ ہر ضلع تک پھیلتا جائے۔
ملک معراج خالد ایک عظیم انسان تھے جن کی ذات ہر طرح کی کثافت سے بے نیاز تھی ،ایک ایسا رہنما جس کی دیانت اور خلوص کی قسم کھائی جاسکے، جن کے سیاسی افکار اور عمل کا حوالہ دیا جا سکے ، ان کی سیاسی بصیرت اور تعلیمی کاوشیں ہم سب کے لئے مشعل ِ راہ ہیں، برکی روڈ پر ان کے شروع کئے ہوئے عظیم تعلیمی منصوبے میں سرور فاؤنڈیشن کی طرف سے ملک معراج خالد کالج کے افتتاح کے موقع پر ایکٹروں پر پھیلے نالج سٹی کو دیکھ کر حیرت انگیز خوشی کا احساس ہوا، پورے ماحول کو ملک معراج خالد کیلئے دعا گو دیکھا،سابق گورنر پنجاب اور ممبر برطانوی پارلیمینٹ چوہدری سرور ہمیشہ حاضر سروس فلاحی کارکن رہے ہیں، کہ خدمت خلق کا فریضہ ہمیشہ انکی ترجیحات میں شامل رہا ہے، سرور فاؤنڈیشن کی طرف سے پاکستان میں صاف پانی، تعلیم، صحت اور دیگر منصوبے جاری و ساری ہیں ۔
شادمان میں سندس فاونڈیشن ہمیشہ میری دعاؤں میں شامل رہتی ہے کہ ان کا مقصد وسیع تر اور چیلنجز شدید ہیں، مگر حوصلے اور خدمت کا یہ عالم ہے کہ لاہور کے علاوہ ملک کے درجنوں شہروں میں سندس فاونڈیشن کے ادارے قائم ہو چکے ہیں۔جہاں تھیلسیمیا کے مرض کا شکار بچوں کو خون کی فراہمی کے ساتھ جدید مشینوں پر ٹیسٹ علاج اور اس بیماری کے خاتمے کی کاوشیں جاری ہیں ، یہ اکھڑے سانس ہموار کرنے اور بچوں کی مایوس آنکھوں میں زندگی کی شمع روشن کرنیوالا ادارہ منو بھائی کی وجہ سے ہم سب کا ادارہ بن چکا ہے جہاں یاسین خان خاموشی سے جو کام کئے جارہا ہے اس کی گونج والدین کی تشکر بھری نگاہوں میں محسوس کی جاسکتی ہے۔خدمت خلق اور خیر بانٹنے والے ان اداروں کا دورہ کیجئے اور جس قدر ممکن ہو اپنا حصہ ڈالیے کہ بطور انسان یہ ہم سب کا فرض ہے۔
بشکریہ روزنامہ جنگ