خواب آپ بھی دیکھتے ہیں۔
آرزوئیں تمنّائیں امنگیں آپ کو بھی اپنی ’بکل‘ میں لے لیتی ہیں۔زمانہ کتنا سفاک ہو جائے۔ نگرانی کتنی کڑی ہو جائے۔ آپ کو حسین صبحوں کا تصور کرنے۔ حقیقی آزادی کے خواب دیکھنے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ آپ کے دل آپ کے ذہن آپ کی عملداری میں ہیں۔ اس میں کوئی محبوب ہی زبردستی داخل ہو سکتا ہے۔ کسی آمر۔ کسی حاکم۔ کسی جاگیردار۔ کسی مافیا بردار کی جرأت نہیں کہ وہ دروازہ توڑ کر،گرل پھلانگ کر گھس جائے۔
میں آپ ہماری اولادیں، ہمارے بزرگ، ہمارے ہمسائے، ہمارے قلمی دوست، ہمارے فیس بک احباب سب ہی ایک حسین دَور کی آرزو میں جیتے ہیں۔ ناول نگار اپنی دنیا آپ بساتے رہے ہیں۔ صرف پاکستان ہی نہیں دنیا بھر میں ایسے ممالک ہیں جہاں صبح انصاف کو طلوع ہوتا دیکھنے کے لیے خون بہا ہے۔ چمکتی جوانیاں سلاخوں کے پیچھے گزری ہیں۔ اسکالرز۔ علمائے دین۔ فلسفی اپنے اپنے دَور میں اپنے اجتہاد اور اپنے اظہار کی سزا پاتے رہے ہیں۔ زنجیریں کھنکتی رہی ہیں۔ زندان کی دیواریں خیال کی اڑان نہیں روک سکیں۔ امریکہ۔ یورپ۔ ایشیا۔ افریقہ میں امید قتل ہوتی رہی ہے۔ تہذیب کچلی جاتی رہی ہے۔ لیکن عشاق کے قافلے منزلوں کی دھن میں نکلتے رہے ہیں۔
سرفروشی کی تمنّا اب ہمارے دل میں ہے
دیکھنا ہے زور کتنا بازوئے قاتل میں ہے
افریقہ سب سے تاریک براعظم رہا ہے۔ یورپ کے گورے اپنے ساتھ اندھیرے اور سفاکیاں لے جاکر افریقی زمینوں سے لعل و گہر اچکتے رہے ہیں۔ افریقہ پھر بھی صبح حسیں کی آرزو میں جاگتا رہا ہے۔ اب روانڈا اور کئی دوسری ریاستوں میں بے مثال یگانگت ہو گئی ہے۔ ایک دوسرے کے بیٹوں بزرگوں اور ماؤں کو قتل کرنے والے اب ایک ہی یونیورسٹی میں پڑھارہے ہیں۔ ایک ہی بینک میں کام کر رہے ہیں۔ اپنے پہاڑوں سے قیمتی پتھر خود ہی نکال رہے ہیں۔ اپنے وسائل چاہے ریگ زاروں کی تہہ میں ہیں یا سمندر کی۔ اپنے ہاتھوں دریافت کر رہے ہیں۔ اپنی انگلیوں سے تراش رہے ہیں۔ اب گوروں کو کالوں سے اجازت لینا پڑتی ہے۔ سفید فام اب اپنی روزی کیلئے اپنے غلاموں کو سیلوٹ کرنے پر مجبور ہیں۔
آج میری تمنّا ہے کہ ہم رمضان کے مقدس مہینے کے دوسرے اتوار اس صبح آزادیٔ کامل سے کھل کر باتیں کریں۔ حقیقی آزادی سے ہم کلام ہوں۔ جس کا انتظار ہم سات دہائیوں سے کر رہے ہیں۔ فلسطینی نسلیں کتنے عشروں سے اس کی راہ تک رہی ہیں۔ کہیں کہیں کبھی کبھی جھلک دکھادیتی ہے۔ بے تاب کر دیتی ہے۔ پھر بہت دور چلی جاتی ہے۔
1971 کے المیے کے باوجود عالمی ماہرین معیشت نے باقی ماندہ پاکستان کو بہت امکانات والی اقتصادی وحدت کہا تھا۔ اس کے لہلہاتے کھیتوں۔ گنگناتے دریاؤں۔ گہرے سمندروں۔ سونے تانبے سے مالا مال خشک پہاڑوں۔ میٹھے پانی والے گلیشیروں۔ ہرے بھرے جنگلوں۔ توانائی جفاکشی سے بھرپور انسانی بازوؤں کو دیکھتے ہوئے امریکہ۔ یورپ۔ افریقہ۔ آسٹریلیا کے پروفیسروں۔ محققوں نے تجزیہ کیا تھا کہ ملک ٹوٹنے کا غم ایک طاقت میں بدل سکتا ہے کہ اس مملکت کے پاس جو قدرتی۔ معدنی۔ انسانی وسائل ہیں۔ اور اس کا جو محل وقوع ہے وہ اسے دنیا کی تیز ترین معیشتوں میں بدل سکتا ہے۔
آج اتوار ہے اپنے بیٹوں بیٹیوں۔ پوتوں پوتیوں نواسوں نواسیوں بہوؤں دامادوں سے افطار کے وقت اکٹھے بیٹھنے۔ کھجور سے روزہ کھولنے۔ ہمارے انتظار میں سجی فروٹ چاٹ۔ پکوڑوں۔ شربتوں سے لذت کام و دہن اٹھانے اور ایک دوسرے کے چہروں پر ایک طمانیت دیکھ کر ایک سرور حاصل کرنے کے لمحات۔ملک میں وسائل اب بھی اتنے ہی ہیں۔ ریکوڈک اب بھی سونا اگلنے کو بے تاب ہے۔ ہمارے کھیت اناج سے گودام بھرنے کے اب بھی قابل ہیں۔ ہمارا ہاری۔ ہمارا کسان اب بھی اپنے سڈول بازوؤں پر انحصار کرتا ہے۔ صبح حسیں بہت دور کھڑے مسکرا رہی ہے۔ کہہ رہی ہے۔ اپنی دنیا آپ پیدا کر اگر زندوں میں ہے۔ سر آدم ہے ضمیر کن فکاں ہے زندگی۔ پھونک ڈالے یہ زمین و آسمان مستعار۔ اور خاکستر سے آپ اپنے جہاں پیدا کرے۔
صبح آزادیٔ کامل دور سے ہاتھ ہلارہی ہے۔ ہلال عید کی طرح ہماری ہنسی اڑارہی ہے۔ صدا آرہی ہے۔ اس سراب رنگ و بو کو گلستاں سمجھا ہے تو۔ آہ اے ناداں قفس کو آشیاں سمجھا ہے تو۔ہاں اے حقیقی آزادی کے سویرے۔ بات سچ ہے مگر یہ بھی تو دیکھ کہ بلوچستان کے کتنے بیٹے تیری تلاش کے جرم میں لاپتہ ہوتے رہے۔ سندھ کے بیٹے بیٹیاں تیری آرزو میں تاریک راہوں میں ماری گئیں۔ پنجاب کے کتنے گھبرو آزاد فضاؤں کی تمنّا میں رزق خاک ہوئے۔ سرحد کے کتنے کہسار زادے بن کھلے مر جھا گئے۔ کشمیر اور بلتستان میں ایک نسل دوسری نسل کو خون، آگ کا ورثہ دیتی رہی۔ تیرے اجالے کی دھن میں ہم نے اپنے بیٹوں کے ہاتھوں میں ہتھکڑیاں دیکھیں۔ اپنے آئندہ کو دور اجنبی دیسوں کے ہجوم میں گم ہوتا برداشت کیا۔ تیرے انتظار میں بزرگ تنہا زندگی گزارنے پر مجبور ہوئے۔
پیداواری وسائل کی مساوی تقسیم۔ قانون کے سب کے لیے یکساں نفاذ۔ آئین کی بالادستی والے مثالی دَور کی صبح۔ کتنی نسلیں تیری ایک جھلک دیکھنے کی تمنّا میں منوں مٹی تلے جا سوئیں۔ ان کی روحیں اب بھی انصاف کے لیے تڑپ رہی ہیں۔ ہمارے وسائل غیروں کے ہاتھوں میں جا رہے ہیں۔ ہمارے کھیت اجنبیوں کے لیے سونا اگلتے ہیں۔ ہمارے دریاؤں کا پانی ہمارا دشمن استعمال کرکے سر سبز ہورہا ہے۔ یہ زمینی ٹکڑا۔ یہ عظیم مملکت جو مثالی اقتصادی وحدت بن سکتی تھی۔ اب قرضوں پر واجب سود کی ادائیگی کے لیے مزید قرضے مہنگی اور من مانی شرائط پر حاصل کرنے کے لیے اپنی ساری ذہانت صَرف کررہا ہے۔ ہمارے وزیر اعظم کہہ رہے ہیں آئی ایم ایف کے ایک اور پیکیج کے بغیر پاکستان بچ نہیں سکتا۔
مائیں تو ایسے بیٹے بیٹیاں پیدا کر رہی ہیں جو اس حسین دھرتی کو اپنے قدرتی معدنی انسانی وسائل سے ہی مستحکم۔ فعال۔ ترقی یافتہ بنا سکتی ہیں۔ لیکن ان کی ذہانت بحق سرکار ضبط کرلی جاتی ہے۔ ایسے ماہر درآمد کیے جاتے ہیں جو کشکول پر قلعی کرواتے ہیں۔ جو ہر وزیر مشیر کے ہاتھ میں کاسہ دیکھنا چاہتے ہیں۔
اے صبح آزادیٔ کامل۔ ایک بار تو ہمارے گلی کوچوں۔ میدانوں۔ کھیتوں کھلیانوں۔ قلعوں۔ محلات۔ سیکرٹریٹوں میں اتر۔ اکثریت میں اتنی اہلیت صلاحیت ہے کہ وہ تیری برکتیں ایک اک پاکستانی کی دہلیز تک پہنچا سکتی ہے۔ ایک بار ہمت تو کر۔ یہ ناکے ٹوٹ سکتے ہیں۔ مر کے پھر ہوتا ہے پیدا یہ جہان پیر دیکھ۔ سامنے تقدیر کے رسوائی تدبیر دیکھ۔ مسلم استی سینہ را ز آرزو آباد دار۔ ہر زماں پیش نظر ’لا یخلف المیعاد دا۔
بشکریہ روزنامہ جنگ