چھ مارچ 2024، بروز بدھ، پاکستان کی عدالت عظمی میں آویزاں گھڑی پر صبح کے ساڑھے گیارہ بج رہے ہیں۔ ٹھیک 44برس اور گیارہ ماہ قبل چھ فروری 1979 کے روز اسی عدالت کے ایک سات رکنی بنچ نے چار / تین کے منقسم فیصلے سے نواب محمد احمد خان کے مقدمہ قتل میں ذوالفقار علی بھٹو کی سزائے موت کے خلاف اپیل مسترد کی تھی۔ نصف صدی کے اس سفر میں سپریم کورٹ کی عمارت ہی پشاور روڈ سے شاہراہ دستور پر منتقل نہیں ہوئی، معزز عدالت کے منصف ہی نہیں بدلے، رضا ربانی اور فاروق نائیک کے ہمراہ کھڑے بلاول بھٹو بھی انصاف کے طالب فریق کی تیسری نسل سے تعلق رکھتے ہیں۔ عدالت عظمی کے معزز سربراہ جسٹس قاضی فائز عیسی مختصر فیصلہ سناتے ہیں۔ لب لباب یہ کہ 24 اکتوبر 1977 سے 24 مارچ 1979 تک ذوالفقار علی بھٹو کو دستور پاکستان کی متعدد شقوں کی خلاف ورزی کرتے ہوئے منصفانہ سماعت کے حق سے محروم رکھا گیا۔ تاہم اس مقدمے میں دیے گئے فیصلے کو کالعدم کرنے یا تبدیل کرنے کا کوئی قانونی طریقہ کار موجود نہیں۔ گویا بالواسطہ طور پر تسلیم کر لیا گیا کہ بھٹو صاحب کو اس مقدمے میں انصاف نہیں ملا۔ بھٹو صاحب کی پھانسی خالص قانونی نقطہ نگاہ سے عدالتی قتل تھا۔ عدالتی قتل کی اصطلاح اٹھارہویں صدی میں والٹیئر نے ایسے عدالتی بندوبست کے لیے متعارف کرائی تھی جس میں بظاہر قانون کے تقاضے پورے کیے جاتے ہیں لیکن اصل مقصد ملزم کو قتل کرنا ہوتا ہے۔
چھتیس سالہ بلاول بھٹو یہ فیصلہ سن کر آبدیدہ ہو گئے۔ کیوں نہ ہو، جس عمر میں معصوم بچے تتلیوں کے پیچھے بھاگتے ہیں، بلاول بھٹو اپنی ماں کی انگلی پکڑ کر جیل میں اپنے باپ سے ملاقات کے لیے جاتے تھے۔ آٹھ سالہ بلاول بھٹو نے اپنے ماموں مرتضی بھٹو کی شہادت پر اپنی ماں وزیراعظم بینظیر بھٹو کے آنسو دیکھے تھے۔ 19 برس کی عمر میں اپنی ماں کا جنازہ اٹھایا تھا۔ ان کے لیے ذاتی طور پر اپنے نانا کے نام سے قاتل کا دھبہ مٹنے کی خوشی قابل فہم تھی لیکن ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی آمرانہ جنتا اور ایک سابق جج کے لفظوں میں مقبوضہ عدلیہ کے گٹھ جوڑ سے ایک شہری کی موت نہیں تھی۔ یہ مقدمہ محض ایک فرد کے حق انصاف سے تعلق نہیں رکھتا تھا۔ نواب احمد خان کے مقدمہ قتل میں صرف ذوالفقار علی بھٹو نامی ایک شہری کو فوجداری قانون کی ہر ممکنہ خلاف ورزی کرتے ہوئے موت کے گھاٹ نہیں اتارا گیا اور یہ مقدمہ اکتوبر 1977 میں شروع نہیں ہوا۔ یہ وہ مقدمہ ہے جو پاکستانی قوم 77 برس سے لڑ رہی ہے۔ یہ پاکستان پر عوام کی حاکمیت کا مقدمہ ہے۔ یہ مقدمہ 22 اگست 1947 کو صوبہ سرحد (تب) کی حکومت برطرف کرنے سے شروع ہوا تھا۔ اس مقدمے کی جھلکیاں وقفے وقفے سے نمودار ہوتی رہیں۔ 12 اگست 1948 کو بابڑہ (چارسدہ ) کے مقام پر پولیس فائرنگ ہوئی۔ حسین شہید سہروردی کو ملک دشمن قرار دیا گیا، ایوب کھوڑو کو بدعنوانی کے الزام میں برطرف کیا گیا، 21فروری 1952 کو ڈھاکہ میں اور 8 جنوری 1953 کو کراچی میں طلبا پر فائرنگ کی گئی، 1953میں پنجاب کے وزیراعلی نے وزیراعظم بننے کی خواہش میں لاہور کو فسادات کی نذر کیا۔ 1953 میں خواجہ ناظم الدین اور 1954میں فضل الحق کو برطرف کیا گیا۔ پاکستان کی دستور ساز اسمبلی توڑی گئی۔ ون یونٹ کے کاغذی منصوبے سے وفاقی اکائیوں کا تصور ملیامیٹ کیا گیا۔ 1956کا دستور توڑا گیا۔ 4 جنوری1965کو کراچی میں گولی چلی۔ 1970 کے انتخابات کا نتیجہ ماننے سے انکار کر کے 25مارچ 1971کا فوجی آپریشن کیا گیا۔ ایک فوجی آمریت کو طول دینے کی خواہش میں ملک دولخت کیا گیا۔ بلوچ ہم وطنوں کے خلاف متعدد بار فوجی کارروائی کی گئی۔ ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف مقدمہ قتل دراصل پاکستانی عوام کے خلاف ریاست اور جمہور دشمن مفادات کے گٹھ جوڑ کا مقدمہ تھا۔ یہ مقدمہ 22اپریل 1960کو لاہور بار ایسوسی ایشن سے خطاب کرتے ہوئے جسٹس منیر کے اس اعتراف سے ختم نہیں ہوتا کہ ان پر دباؤ تھا۔ یہ مقدمہ جسٹس نسیم حسن شاہ کے اپنی خود نوشت سوانح میں اعترافات سے بھی ختم نہیں ہوتا۔ یہ مقدمہ 31 جولائی 2009کو نظریہ ضرورت دفن کرنے کے اعلان سے ختم نہیں ہوتا۔ یہ مقدمہ 1990کے انتخابات میں دھاندلی کے لیے رقم تقسیم کرنے کے فیصلے سے بھی ختم نہیں ہوتا۔ 6 مارچ 2024 کے فیصلے سے ملنے والی اخلاقی داد رسی بھی ہماری دو نسلوں کے وہ آنسو نہیں پونچھ سکتی جو 4 اپریل 1979 سے بہہ رہے ہیں۔ اس فیصلے سے ذوالفقار علی بھٹو واپس نہیں آ سکتے، برگد کی زنبیل کے قیدی سورج کب واپس ملتے ہیں۔ اس فیصلے سے نصف صدی پر پھیلی ہماری رائیگانی کا مداوا نہیں ہو سکتا۔ ترکی میں وزیراعظم عدنان مندریس کو 17 ستمبر 1961 کو فوجی جنتا نے پھانسی پر لٹکایا تھا۔ 1990 میں ترک پارلیمنٹ نے عدنان مندریس کی سزا معاف کر دی۔ ترکی ہمسایہ دوست ملک ہے لیکن وہاں کی جمہوریت اور شہری آزادیوں کا کچھ احوال ہمیں معلوم ہے۔ اور اپنے ملک کا حال ہم سے بہتر کون جان سکتا ہے۔ جمہوریت عدالتی قتل کی طرح محض کاغذی تقاضے پورے کرنے کا نام نہیں۔ اس کی ایک اپنی ثقافت ہے۔ عوام کی حاکمیت کی اپنی ایک خوشبو ہے جو کافور کی اس تعزیتی کیفیت سے مختلف ہوتی ہے جو مقتلوں میں فاتحہ خوانی کرتے ہوئے نتھنوں میں پہنچتی ہے۔ قانون کی بالادستی کسی فرد واحد کی دیانت کے تابع نہیں ہوتی۔ یہ وہ اجتماعی توانائی ہے جو ریاست اور عوام کے نامیاتی رشتے سے پھوٹتی ہے اور اس کی سرگم دولت، منصب اور طاقت کی تفریق سے قطع نظر ہر شہری کی آواز میں کھنک دیتی ہے۔ آئیے، ذوالفقار علی بھٹو کے نوحہ خواں اختر حسین جعفری کو یاد کرتے ہیں۔
مریم جس کے بال کھلے ہیں
کب تک وہ ماں اپنے پسر کے حرف دعا کا پیش عدالت ورد کرے گی
سحر ملامت کب ٹوٹے گا
تخت سے عیسی کب اترے گا
بشکریہ روزنامہ جنگ