غالبا1999میں، پارلیمنٹ کے جس سیشن میں وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی کی تیرہ ماہ کی حکومت ایک ووٹ سے تحریک اعتماد ہار گئی ، تو انہی دنوں میں نے باقاعدہ بھارتی پارلیمان کی کارروائی کور کرنا شروع کردی تھی۔ گراونڈ فلور پر سینٹرل ہال سے متصل ریڈنگ روم (جو ان دنوں لائبریری ہوتی تھی)کے ایک کونے میں نورانی چہرے والا ایک شخص ظہر اور عصر کی نماز پڑھتے ہوئے نظر آتا تھا۔ اس کے آتے ہی اسٹاف ایک کونے میں سفید چادر بچھاتے تھے اور وہ وہاں سر بہ سجود ہو جاتے تھے۔ یہ ریڈنگ روم برطانوی دور اقتدار میںوالیان ریاست یا نوابوں کا ایوان ہوتا تھا۔اسلئے اس کی دیواروں پر ابھی تک ان ریاستوں اور راجواڑوں کے جھنڈے اور نشان لگے ہوئے ہیں۔ معلوم ہوا کہ سفید داڑھی سجائے نورانی چہرے والے یہ بزرگ اتر پردیش کے شہر مرادآباد سے ممبر پارلیمنٹ شفیق الرحمن برق ہیں۔ ابھی 27فروری کو ان کا 94سال کی عمر میں انتقال ہوگیا۔ وہ 1974سے 1991تک چار بار سنبھل حلقہ سے اتر پریش اسمبلی کے ممبر رہے ۔ اس کے بعد 1996سے 2004تک تین مرتبہ مراد آباد سے پارلیمنٹ کے رکن اور پھر جب 2014 میں حد بندی کے بعد سنبھل کو ایک الگ لوک سبھا کا حلقہ قرار دیا گیا، تو اس حلقہ کی پارلیمنٹ میں دو بار نمائندگی کی۔ یعنی وہ پانچ بار لوک سبھا کے رکن رہے۔ موجودہ لوک سبھا جو ، اب مدت مکمل کرنے والی ہے، کے وہ معمر ترین ممبر تھے جس کا ذکر پچھلے سیشن میں وزیر اعظم نریندر مودی نے بھی کیا۔ کسی رکن اسمبلی یا رکن پارلیمان کا اپنے انتخابی حلقے سے بار بار منتخب ہونا اس بات کو ثابت کرتا ہے کہ عوام اس پر بھروسہ کرتے ہیں اور وہ نمائندگی کا حق ادا کرنے میں کامیاب رہاہے۔ ایک پر وقار سیاسی شخصیت کے علاوہ وہ دینی رہنما، ایک ادیب اور شاعر بھی تھے۔ برق ان کا تخلص تھا اور شاعری میں نعت تصنیف کرنا ان کا وصف تھا۔ بھارت میں جب عام انتخابات کا بغل بج جاتا ہے، تو میڈیا ہاؤسزکے نیوز رومز میں بھی جیسے ایک میلے جیسا سماں ہوتا ہے۔ رپورٹر یا تو خود علاقے منتخب کرکے ٹور پر روانہ ہوکر ایک حقیقی بھارت کے روبرو ہوجاتے ہیں یا ایڈیٹرز ان کو حلقے تفویض کرتے ہیں، تاکہ زمینی حالات کا ادراک کیا جا سکے۔ 2014 میں مودی کے ظہور اور اسکی نئی سیاسی تکنیک متعارف کروانے سے قبل مسلمانوں کا سیاسی وزن انتخابات کے دوران خاصا بڑھ جاتا تھا۔ چاہے سماجی طور پر وہ کتنے ہی پسماندہ ہوں، مگر انتخابات کے وقت ان کا ووٹ خاصا فیصلہ کن حیثیت اختیار کرتا تھا۔ جس کی وجہ سے سوشلسٹوں یعنی اتر پردیش میں ملائم سنگھ یادو اور بہار میں لالو پرساد یادو اقتدار کے گلیاروں تک پہنچتے تھے۔ شمالی بھارت میں ایک وقت مسلمان کانگریس کا بھی ووٹ بینک ہوتے تھے۔ اسلئے سبھی نیوز ادارے مسلم ووٹوںکے رجحان کی سن گن لینے کیلئے دہلی سے رپورٹروں کو بھیجتے تھے۔ ایک سکہ سا رول بن گیا تھا ، کہ دہلی سے مغربی اتر پریش کے ضلع سہارنپور کے شہر دیو بند جاکر مولوی حضرات کی سن گن لی جائے اور پھر علی گڑھ میں سوٹ بوٹ پہنے ماڈرن مسلمانوں کے رجحان کو پرکھا جائے۔ مگر یہ دونوں جگہیں انتخابات کے تئیں فلسفیانہ یا دانشورانہ تجزیات کو سمجھنے میں مدد دیتی تھیں۔ زمینی صورت حا ل کا جائزہ لینے کیلئے سنبھل کے راستے مراد آباد، امروہہ ، بریلی اور پھر رام پور کا ایک دائرہ میں سفر کرکے مسلم سیاست کے ایکسپرٹ بن کر واپس دہلی پہنچ جاتے تھے، جہاں صحافیوں کے علاوہ سیاسی پارٹیوں کے لیڈران بھی تجزیوں ،زمینی حالات اور مسلم ووٹ کے تازہ ترین ر جحان کو جاننے کیلئے بے چین رہتے تھے۔ ان انتخابات کو کور کرنے اور پھر پارلیمنٹ سیشن کے دوران برق صاحب سے ملنے کے اکثر مواقع ملتے تھے۔ سنبھل شہر میں دیپا سرائے محلہ میں ان کے گھر پر کئی بار ضیافتیں کھانے کا موقع ملا۔الیکشن مہم میں بھی ایک بار ان کے ساتھ جانے کا موقعہ ملا۔ مہمان نواز ی میں ان کا کوئی جواب نہیں تھا۔ وہ حیدر آباد کے ممبر پارلیمنٹ اسدالدین اویسی کی طرح شعلہ بیان ، برجستہ اور بر محل مقرر تو نہیں تھے، مگر ملی امورپر بولنے کا موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے تھے اور ملت کا در ان کے د ل و دما غ سے جھلکتا تھا۔ پارلیمنٹ سیشن شروع ہونے سے قبل وہ ایوان میں پوچھنے کیلئے سوالات ڈھونڈتے رہتے تھے اور پھر جب ان کے جواب آتے تھے یا وہ کوئی ایشو اٹھاتے تھے، تو پارلیمنٹ بلڈنگ کے فرسٹ فلور پر پریس روم میں آکر اسکو شائع کرانے کی درخواست کرتے تھے۔ 2012میں ہمارے ایک صحافی دوست محمد کاظمی کو دہلی پولیس نے گرفتار کیا تھا، جو ایک تھوپا ہوا کیس لگتا تھا، تو تقریبا 50کے قریب اراکین پارلیمنٹ نے وزیر اعظم من ہوہن سنگھ سے ملاقات کرکے احتجاج کیا۔ برق صاحب اراکین پارلیمان کو جمع کرنے اور ان کو وزیر اعظم کے پاس لیجانے میں پیش پیش تھے اور بار بار تقاضا کررہے تھے ، کہ ان کو بتایا جائے کہ وہ کیا اور کرسکتے ہیں۔ نہ جانے ان کا حلقہ انتخاب سنبھل مجھے کشمیر میں آپنے آبائی قصبہ سوپور کی طرح کیوں لگتا تھا۔ اس حلقہ کے بغل میں رام پور ، جو ان کی ہی سماج وادی پارٹی کے لیڈر اعظم خان کا حلقہ انتخاب تھا، میں ترقیاتی کاموں کا ایک انبار سا لگا ہو ا تھا۔ ریاست میں سماج وادی پارٹی کی حکومت کے ایک طاقتور ترین وزیر ہونے کے ناطے انہوں نے رام پور کی سڑکوں پر ایک طرح سے سونا بچھایا ہوا تھا۔ سڑکیں چوڑی، پارکیں، مصنوعی جھیل، ہریالی ایک وسیع و عریض جوہر یونیورسٹی اور متعدد ادارے اعظم خان نے رام پور میں بنوائے تھے۔ اس کے برعکس کارو بار کے لحاظ سے اہم سنبھل گرد و غبار سے اٹااور خاصا پچھڑا لگتا تھا۔ مگر اس کے باوجود سنبھل کا ووٹر چاہے ا میر یا غریب، برق صاحب کی قسمیں کھاتا تھا۔ 2019کے انتخابات سے قبل جب میں اس علاقہ کے دورہ پر تھا اور رام پور سے واپس آیا تھا، تو مجھ سے رہا نہ گیا۔ میں نے سنبھل کے بازار میں ، کئی لوگو ں سے پوچھا کہ آیا برق صاحب نے کوئی ترقیاتی کام کیا ہے یا انہوں نے کوئی کالج وغیرہ بنوایاہو، تو وہ بغلیں جھانکنے لگے۔مگر منتھا کا کاروبار کرنے والے پیلو جین اور محلہ سرائے ترین میں جانوروں کی ہڈیوں پر دستکاری کا کام کرنے والے عبد الواحد کے سامنے میں جب میں نے رام پور اور سنبھل کا تقابلی جائزہ پیش کیا، تو ان کا ٹکا سا جواب تھا کہ کچھ بھی ہو، برق صاحب ہمارے ساتھ ہر مشکل گھڑی میں کھڑے ملتے ہیں۔ چاہے غم ہو یا خوشی وہ ہمارے گھر وں پر حاضر ہوجاتے ہیں۔ اس کے علاوہ رات ہو یا دن ان کے گھر کے دروازے بھی ہر وقت کھلے رہتے ہیں۔ برق صاحب جس مکان میں پیدا ہوئے ہیں، اسی میں اب بھی رہتے ہیں۔ (جاری ہے)
بشکریہ روزنامہ 92 نیوز