کہانی 2018 سے نہیں، 1985 سے شروع ہوتی ہے۔ جب ڈالر صرف 16روپے کا تھا۔ انڈیا میں 12 روپے کا تھا۔ فرق صرف 4روپے کا تھا۔ آج انڈیا میں ڈالر 82 روپے کا ہے اور ہمارے ہاں 280 روپے کا۔ فرق قریباً 200 روپے کا۔
فروری 2024میں وفاق اور پنجاب میں وہی خاندان اس ڈولتے جہاز کا مستول سنبھال رہا ہے۔ جسکے فرزند اعلیٰ کو 1985 میں آرمی چیف حکمرانی کے میدان میں لے کر آئے تھے۔ 1985 کے غیر جماعتی، غیر سیاسی انتخابات سے 2024 کے جماعتی اور غیر جماعتی ملے جلے انتخابات تک کے ماہ و سال ۔روپے کی بتدریج رسوائی کا عرصہ ہیں ۔ حالانکہ ان برسوں میں پیسہ ہی اصل قوت رہا ہے۔ اصول، نظریات، اخلاقیات، اقدار، تہذیب ،تمدن ،حرف مطبوعہ کی کوئی وقعت نہیں تھی۔ ان 39سال میں حکمرانی پیسے کی رہی ہے۔ مگر یہ سمجھ میں نہیں آتا کہ اس کی قدر کیوں گرتی رہی ہے۔ یہ روپیہ سیاسی لوگوں کو طاقت دیتا رہا۔ اپنی طاقت کھوتا رہا۔
اب جب جمہوری ڈھانچے کو کھڑا کرنے کیلئے ساری رسمی کارروائیاں تیزی سے کی جارہی ہیں۔ تو کیا پاکستان کو درپیش سنگین مسائل ان رسمی خانہ پریوں سے حل ہوجائیں گے۔ اقتدار کی کرسیوں پر برا جمان ہونے والے ان مسائل کے حل کیلئے واقعی مخلص ہوں اور ذہن کے کسی گوشے میں بھی وہ چاہتے ہیں کہ ملک کو قرضوں سے نجات دلانا ہے،روپے کو مضبوط قدر دینا ہے، گیس بجلی کی فراہمی ارزاں نرخوں پر ممکن بنانا ہے،روز مرہ کے مسائل کے حل کیلئے کوئی سسٹم بنانا ہےاور اس پر عملدرآمد بھی کرنا ہے۔ تو وہ کبھی اقتدار کی پُر خار گلیوں میں نہ آئیں۔ یہ نیک مقصد ان کا نہ ان کو لانے والوں کا ہوتا ہے۔
جو میں ایسا جانتی،کہ پریت کرے دُکھ ہوئے
نگر ڈھنڈورا پیٹتی، پریت نہ کرئیو کوئے
یہ فکر تو ہمیں ہوتی ہے کہ یہ لوگ پھر طواف کوئے ملامت کو کیوں آرہے ہیں۔پھر دربان کے زیر بار منت کیوں ہیں۔ ان کو پندار کے صنم کدہ کی ویرانی کی فکر کیوں نہیں ہے۔ پندار، انا، عزت نفس،اصول پرستی، دیانت، قومی مفاد، وطن کی سلامتی، انسانیت کا وقار ان کے ’’اسٹوریج‘‘ میں نہیں ہیں۔ کبھی کے ’’ڈیلیٹ‘‘ ہوچکے۔
عوام نے تمام جبر و تشدد بربریت کے باوجود اپنا رائے ہی کا فرض پوری ذمہ داری سے انجام دیا۔ خواص نے بھی اپنے منصوبے پر بھرپور عمل کیا۔ پیداواری وسائل، طاقت کے مراکز کی چابیاں ان کے پاس ہیں۔ ان کے دروازوں پر محافظ ان کے تنخواہ دار ہیں۔ اس لیے عوام کا شعور کچرے دان میں ڈال دیا گیا۔ تاریخ اور منطق کے تناظر میں بنیادی قومی زیاں تو یہ ہے کہ ریاست پر عوام کو اعتماد نہیں رہا ہے۔ اصل چیلنج اس اعتماد کی بحالی ہے۔
اس وقت مقابلہ پاکستان مسلم لیگ(ن) اور پاکستان تحریک انصاف میں نہیں ۔ مقابلہ معیشت کی تنزلی اور ترقی کے درمیان ہے۔ تعلیم اور جہالت میں ہے۔ صحت اور بیماریوں میں ہے۔ ٹرانسپورٹ کی قلت اور فراہمی میں ہے۔ زراعت کی کم اور مطلوبہ پیداوار میں ہے۔ کم ہوتی برآمدات اور بڑھتی درآمدات میں ہے۔ بند ہوتے کارخانوں اور دھڑا دھڑ کھلتے شاپنگ مالوں میں ہے۔
موجودہ معاشی کھنڈرات کن افراد یا جماعتوں کے پیدا کردہ ہیں۔ روپیہ 16سے اگر 280تک پہنچا ہے تو یہ کن غلط پالیسیوں کا نتیجہ ہے۔ 1985سے اب تک خزانہ کن کے ہاتھوں میں رہا ہے۔ گیس بجلی کے معاہدے کون کرتا ہے۔ ایران نے اپنی سرحد تک گیس پائپ لائن بچھادی۔ پاکستان میں پائپ لائن کن حکومتوں نے نہیں بچھائی۔ ان 39برسوں میں صرف سیاستدان نہیں۔ فوجی حکومتیں بھی رہی ہیں۔ ریلوے واپڈا اور کئی دوسرے اداروں میں فوجی افسروں کو سربراہی دی گئی۔ اس عرصے میں عدلیہ بھی اپنے طور پر فیصلے کرتی رہی ہے۔ اس نے حکمرانوں کے کونسے غلط فیصلے روکے۔ اسی طرح میڈیا میں پرنٹ کا غلبہ رہا۔ پھر 2002سے الیکٹرونک میڈیا آگیا۔ میڈیا نے حکمرانوں کی کن غلط پالیسیوں کی مزاحمت کی۔ اسی طرح اس غریب ملک پر غیر ملکی قرضوں کا بوجھ تیز رفتاری سے بڑھتا رہا۔ ہمارے ہاں بزنس ایجوکیشن کی بڑی بڑی یونیورسٹیاں کھلیں۔ انہوں نے اس ملک کے بزنس کو کتنا مستحکم کیا۔ آج افراط زر، 30فی صد۔ برآمدات صرف 27ارب ڈالر۔ درآمدات 52ارب ڈالر ہیں۔ زراعت کی شرح نمو 5 فی صد۔ صنعت 2فیصد۔ خدمات 0.82 فی صد ہیں۔
یہ سب ناقابل تردید حقائق ہیں۔ لیکن ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی۔ شکر ہے کہ عوام نے ووٹ دیتے وقت شعور کا مظاہرہ کیا ۔ اب ایک جمہوری ڈھانچہ استوار ہورہا ہے۔ قومی اسمبلی، صوبائی اسمبلیاں، سینیٹ کے میدان اظہار خیال کیلئے مل رہے ہیں۔ ان کی رہنمائی، انہیں آئینہ دکھانےیا ان پر دباؤ بڑھانے میں۔ اپوزیشن اپنا کردار ادا کرسکتی ہے۔ میڈیا اور یونیورسٹیوں کا فریضہ عوام کو شعور دینا ہے۔ لمز کے علی حسنین صاحب کا بہت چشم کشا مضمون آیا ہے۔ یونیورسٹی پروفیسرز غیر جانبدارانہ حقیقت پسندانہ تجزیوں سے رہنمائی کرسکتے ہیں۔ 39سال سے حکمرانی کرنے والے بھی اپنے مفادات کی تکمیل کریں گے۔ انہوں نے کوئی تحقیق یا کوئی نئی تعلیم حاصل کرکے حکومت حاصل نہیں کی ہے۔ انتخابی مہم میں ایک دوسرے کو کرپٹ اور نا اہل ثابت کیا۔ پس پردہ قوتوں پر لاڈلے۔ سلیکٹڈ تلاش کرنے کے آوازے کسے۔اب فروری 2024 سے جنوری 2029تک حکمرانی کا لائسنس پھر حاصل کرلیا ہے۔ اس لیے شعور تدبر اور حب الوطنی کا مظاہرہ پارلیمنٹ سے باہر کے دماغوں کو کرنا ہے۔ ووٹ سے عوام ملک کا استحکام حاصل نہیں کرسکے۔ اب اپنی طاقت سے اپنے اپنے علاقے کے ایم این اے۔ ایم پی اے۔ سینیٹر۔ وزیروں سے رابطے کریں۔ یونیورسٹیوں کے وائس چانسلرز پروفیسرز سے ملیں۔ ان پر دباؤ ڈالیں۔ایسی پالیسیاں ایسے قوانین تجویز کیے جائیں جن سے اس قوم کی عظمت رفتہ بحال ہو۔ روپیہ کی گراوٹ کی رفتار کم ہو۔ اپنے قدرتی وسائل پر انحصار ہو۔ ہر پاکستانی کو عزت ملے۔ روزگار ملے۔
عوام نے اگر یہ راستہ نہ اپنایا تو معاشی ماہر خبردار کررہے ہیں کہ اگر 39سال والی پالیسیاں ہی اختیار کی جاتی رہیں تو 2034میں ڈالر 2000کا ہوجائے گا۔ سوچیں پھر غربت کی لکیر سے نیچے کتنے کروڑ اور چلے جائیں گے۔ کتنے بے روزگار ہوں گے۔ آبادی تو مسلسل بڑھ رہی ہے۔ اس پانچ سالہ دور حکومت میں آبادی ہر سال ایک کروڑ بڑھے گی۔ پاکستان کے باشعور جفاکش اور با ہمت کروڑوں عوام کی سلامتی اور بقا ۔ حکمران طبقوں سے باہر کی قوتوں کی ذمہ داری بنتی جارہی ہے۔ رسمی جمہوری ڈھانچے کے ساتھ ساتھ حقیقی جمہوری ڈھانچے کو متحرک ہونا ہوگا۔
بشکریہ روزنامہ جنگ