25برس سے میں اس فلیٹ میں رہ رہی ہوں۔ ڈھائی سوروپے کاگیس کا بل مسلسل آتا تھا۔ایک چولہےپہ بل قبول بلکہ خوش دلی سے دیا جاتا تھا۔ کبھی کے دن بڑے کبھی کے چھوٹے آتے تھے۔مگر ایک چیز کو مستقل مزاجی حاصل تھی۔ بجلی کے بل کے اطوارتوحکومتوں کیساتھ بڑھتے اور بڑھتے رہتے۔ لوگ سڑکوں پہ نکل کر بل جلاتے عورتیں بلوں کوآگ لگاتیں۔ حکومت بڑی مستقل مزاج ہے۔ ایک دفعہ بڑھ گئے سوبڑھ گئے۔ روپیٹ کے بل دے رہے تھے۔ مگر یہ گیس کے بل،سال کی پہلی تاریخ کو ہی نمبر بدل کے ڈھائی سوروپے سے چار ہزار روپے کا بل میرے سامنے تھا۔یہ تھی نئے سال کی بدبختی۔ خبر نہیں تھی کہ یہ سال بدبختیوں کا سال ہی ثابت ہوگا۔ خوش فہم تھے کہ نئی حکومت آئیگی تو ایسے نا پختہ اورلا انتہا پھیلے ہوئے بلوں کیساتھ کچھ اور پوشیدہ ناممکنات بھی ساتھ لائیگی جن کا ذکر نہ سیاسی ایبڈوکے زمانے میں ہوا نہ ضیاالحق اور مشرف کی فسطائیت نےرنگ دکھا یا۔ ہم نے الیکشن کا مطلب وہی لیا جو قائد اعظم نے ہمیں سمجھایا تھا کہ کچھ پارٹیاں ہونگی، انکے امید وار ہونگے۔ چاہے تلنگے ہوں کہ شرفا۔ عوام خود انکی اوقات کھول دینگے ۔پہلے تو پانچ چھ پارٹیاں ہوتی تھیں۔لڑبھڑ کر حکومت بنا لیتے تھے۔ معاف کیجئے میں غلط بیانی کرگئی، اسکندر مرزا کے زمانے ہی سے بظاہر سیاسی حکومتیں آنی شروع ہوئیں۔ فرشتوں کے کہے پہ سیاسی پتلے بنائے جانے لگے۔ رہے وہ سب و ڈ یر ے ، پٹواری، زمیندار اور بزنس کے نام پہ گھس بیٹھئے۔ شہاب صاحب اور الطاف گوہر نے سیاست سمجھانے کی کوششوں میں ایک اور پانسا پلٹا۔ ادیبوں کی سرکاری انجمن بنائی۔ جس سے خطاب ہر خود بن جانے والاصدر کرتا اور ادیبوں کو سکھاتا کہ شہاب صاحب اور الطاف گوہر کہتے(انکی بعد کی زندگی کی تحریریں، اسکے متضاد ہیں) ۔مشرف کے بعد، ایسی تیری میری نما دھرنے شروع ہوئے کہ طاہر القادری صاحب تو بھاگ نکلے ۔ باقی کچھ سعودی عرب،کچھ لندن، کچھ دبئی،سوئٹزرلینڈ کے بینک اور عالمی سطح پرکمپنیاں جسمیں ہمارے سارے سیاست دانوں نے خوب کھیل کھیلے ۔مختصر یہ کہ جس ملک میں چند سیاسی پارٹیاں تھیں۔ وہاں ڈیڑھ سو سے زیادہ پارٹیوں کی رجسٹریشن آج موجود ہے۔ البتہ اسکندر مرزا کے بعد ایوب خاں والا نسخہ کہ پس پشت خود رہو اور پھنسا دو قاضی صاحب کو، نیک نام ہونگے کہ نہیں یہ تو خدا کے گھر جاکر خبر ہوگی۔ پوچھا گیا تو کہہ د ینگے’’ پکڑے جاتے ہیں فرشتوں کے لکھے پہ ناحق ‘‘۔ اب پارٹیوں کو جو نشانات ملے ہیں۔ اسمیں شاید جوتا توہے بلارہ گیا۔ باقی سب برتن پانڈے سیاسی نام پاگئے۔ جسکو مٹانے کی کوشش کی گئی ہے۔ دیکھتے ہیں وہ کب اور کیسے طلوع ہوگا۔ کہ عجیب روایات جگہ بنا رہی ہیں۔ مشرف کے مرنے کے بعد، اسکو پھانسی کی سزا دی گئی ہے۔ اب شاید کوئی مقدمہ نہیں ہے تو بھٹو صاحب کا چالیس سالہ پھانسی کا واقعہ، لوگوں کی توجہ بٹانے کے لئے اس طرح شاید نواب کالا باغ کے قتل کا قصہ بھی پھرکھل جائے۔ اور محترمہ فاطمہ جناح کیسے مردہ پائی گئیں۔ یہ الگ بات ہے کہ جس شخص نے لیاقت علی خاں کو قتل کیا تھا۔ اسکے خاندان کو آج تک وظیفہ( کس بات کا) مل رہا ہے اور اسکی اولاد امریکہ میں رہ رہی ہے۔ شاید اگر فرشتے اشارے کریں تویہ مقدمہ بھی کھل جائے ۔بے نظیر کا قتل نہیں کھلے گا کہ سب مروانے والے کھلے پھررہے ہیں۔ ویسے شروع تو ہوچکا ہے، مخالف پہ گولی چلادو مگر اس اندازنے طوفان بدتمیزی وہ شکل اٹھانی ہے یا پھر اٹھانے کا سامان کیا جائیگا۔کہ آپ جمہوریت کو سورج کی روشنی میں بھی نہ دیکھ پائینگے۔ ہمارے ملک میں قاضی بہت ہیں۔ معلوم نہیں کون قاضی الحاجات وہ ڈنڈا پھیرےگا جو حضرت موسیٰ کی عصا کی طرح، سارے مگر مچھوں کو کھاجائیگا۔
سامنے آنے والے زائچے میں خواتین اور خاندان بہت ہیں۔ یہ نیک شگون ہے۔ گھر کا گھر اسمبلی میں آجائیگا ۔ بلیک میل کرنے میں بھی آسانی ہوگی۔ ڈپٹی نذیر احمد کی بہو بیٹیاں، زمانے کے سارے رنگ سمجھ جائینگی۔ اسی لمحے میں مجھے یاد آرہا ہے ثاقب نثار اور عمران کے چیلے چاٹوں کا فائز عیسیٰ کی بیگم کا بار بار عدالتوں میں ذلیل کرنے کو بلانا۔ عیسیٰ صاحب پہ تہمتوں پہ تہمتیں لگانا۔ دونوں میاں بیوی صبر کے ساتھ عدالت میں پیش ہوتے، گلہ مند نہیں ہوتے تھے۔ عمران کی طرح کسی پربھی الزام تراشی نہیں کرتے تھے۔ آج عمران یہ نہ سوچیں کہ یہ بدلہ لے رہے ہیں۔ جوکچھ ہورہا ہے، وہ تو حکم حاکم، مرگ مفاجات کے علاوہ خود انکی پارٹی کے بڑبولے وکیلوں کی نابکار پلاننگ کا انجام ہے۔ جیل میں بیٹھے کرکٹر کو تو امیدواروں کی فہرستیں بھی نہیں دکھائی گئیں۔ تحریک انصاف کے رہنماؤں کی غلط قدمی کا اثر اس کے ملک بھر میں موجود فدائین پرنہیں پڑنا چاہیے۔ ویسے بھی الیکشن کمیشن نے جوتے سمیت جیسے نشان الاٹ کیے ہیں۔ وہ ہمارے غریب لوگوں کو سمجھانے کے لیے، نوجوانوں کی ذمہ داری بڑھ گئی ہے کہ وہ قوم کو ان گیدڑ بھبکیوں سے نجات دلائیں کہ ہم چوتھی دفعہ آئینگے اور ہم جیالے پورے ملک کے مالک ہونگے۔ مت بھولیں کہ مذہبی جماعتوں کا مسجد سے گھروں تک بہت اثر ابھی تک ہوتا ہے۔ البتہ یہ سمجھائیں کہ معیشت اور مذہب ایک چیز نہیں، قیمتوں کو کنٹرول نہ کیا گیا تو پاکستان دیوالیہ ہوسکتا ہے۔ یہ بھی لوگوں کو سمجھانا ہے کہ بچے کم پیدا کریں، ملکی پیداوار ضائع ہونے سے بچائیں۔ پیداوار ایسے ذخیرہ کریں کہ اگلے موسم میں گندم اور چاول کام آسکیں۔ آجکل بھل صفائی ہورہی ہے۔ نہروں کے پانی کو فیکٹریوں کی آلودگی سے بچائیں۔ نوجوانوں کے ذہنوں سے باہر کے ملکوں کی جانب جانے کا جنون دور کریں۔ اپنے ملک کی ریل کی پٹریاں اکھیڑ کر فروخت کرنے کا کسی کو فائدہ نہیں قوم کا نقصان ہے۔
اب جو ہزاروں کی تعداد میں لوگوں نے امیدوار کی حیثیت سے کاغذات جمع کرائے ہیں۔ علاقے کے بزرگ ان امید واروں میں سے سب سے اہل اور بردبار شخص کو سپورٹ کریں باقی شیخی میں آئے کھڑے ہونے اور آپس میں فساد برپا کرنے والوں کو سمجھا کے نہ صرف بٹھا دیں بلکہ ایک شخص کو کامیاب بنا نے کے لئے اپنی طاقت اور تعاون دکھاکر، صرف سمجھدار لوگوں کو پارلیمنٹ تک لائیں۔
ہمیشہ سے ہوتا آیا ہے کہ الیکشن میں پیسہ چلتا ہے۔ پچھلے الیکشن میں تو فلمیں بھی سامنے آئی تھیں کہ کیسے جتھے کے جھتے اِس ہاتھ سے اُس ہاتھ جارہے تھے۔ یہ بھی غلط نہیں کہ ناجائز اور اسمگلنگ سے کمایا پیسہ ایجنٹوں کے ذریعہ مارکیٹ میں جاتا ہے۔
بشکریہ روزنامہ جنگ