احسن اقبال اور دانیال عزیز: آمنے سامنے … تحریر : تنویر قیصر شاہد


نون لیگی قیادت نے مجھے قومی اسمبلی کے ٹکٹ سے محروم کرکے میری وفاؤں اور خدمات کا مذاق اڑایا ہے ۔ میرا قصور محض یہ تھا کہ میں مہنگائی اور اِس کے ذمے داروں کے خلاف آواز اٹھا رہا تھا۔

احسن اقبال ایسے لوگوں نے اِس کا برا منایا ۔کیا احسن اقبال نون لیگ کو اپنی جاگیر سمجھتے ہیں؟انھوں نے پارٹی اور سیاست میں اپنے بیٹے کو ایڈجسٹ کرنے کے لیے میرے خلاف محاذ کھڑا کیااور میری جگہ ایک ایسے شخص( چوہدری انوارالحق) کو قومی اسمبلی کا ٹکٹ دے دیا ہے جس کا نون لیگ سے دور دور کا واسطہ بھی نہیں ہے۔یہ الفاظ سابق وفاقی وزیر اور نون لیگی رہنما ، دانیال عزیز چوہدری، کے ہیں جن کی ناراض اور غصہ بھری احتجاجی آواز 11جنوری 2023کی شام پاکستان کے ہر نجی ٹی وی پر گونجتی رہی، جب انھیں نون لیگ کا ٹکٹ دینے سے انکار کر دیا گیا تھا۔

نون لیگ نے بھی خدا خدا کرکے8فروری کے عام انتخابات کے لیے پنجاب سے قومی اور صوبائی اسمبلی کے امیدواروں کا اعلان کر دیا ہے ۔ جس طرح نون لیگی قیادت کو اپنا بیانیہ بنانے اور اپنا منشور عوام کے سامنے لانے میں بے حد دشواریوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
اِسی طرح نون لیگی قیادت کو صوبائی اور قومی اسمبلی کے لیے اپنے امیدواروں کی فائنل فہرستیں مرتب کرنے میں بڑی رکاوٹوں، شکوؤں اور مسائل کا سامنا تھا۔

اِس سلسلے میں نون لیگ کے اندر واضح تفاوت، تضادات اور تصادم کی کیفیات بھی محسوس کی گئیں۔ میاں نواز شریف کی قیادت میں مگر پارٹی کے باطنی تضادات و تفاوت پر قدرے قابو پا لیا گیا ہے ۔ اور اب پنجاب میں نون لیگی انتخابی پہلوانوں کو اکھاڑے میں اتار دیا گیا ہے ۔

نون لیگ نے پنجاب میں جن امیدواروں کو انتخابی میدان میں باقاعدہ اتارا ہے، ان میں احسن اقبال تو ہیں لیکن دانیال عزیز نہیں ہیں ۔ دونوں سیاستدان نون لیگ کے ٹکٹ اور پلیٹ فارم سے پہلے بھی کئی بار رکن قومی اسمبلی منتخب ہو چکے ہیں ۔

دونوں ہی وفاقی وزیر بھی رہے ہیں، اگرچہ احسن اقبال کو وفاقی وزیر بننے ، رکن قومی اسمبلی منتخب ہونے اور شریف برادران کا قرب اور اعتماد رکھنے میں دانیال عزیز پر فوقیت اور بالا دستی حاصل ہے ۔ دونوں کے سیاسی و انتخابی حلقے ( نارووال اور شکرگڑھ،این اے 75 اور این اے76) ایک دوسرے کے ہمسائے بھی ہیں۔

پچھلی بار (2018 میں) دانیال عزیز انتخابات کے لیے بوجوہ نااہل قرار دیے گئے تو نون لیگی قیادت نے کمال محبت اور شفقت کے نون لیگ کا ٹکٹ دانیال عزیز کی اہلیہ محترمہ ( مہناز عزیز) کو عنایت کیا تھا ۔ دانیال عزیز نے اپنی اہلیہ کے لیے بھرپور انتخابی مہم چلائی اور اپنی اہلیہ کو کامیاب کروایا ۔ نواز شریف اور نون لیگ کی عوامی مقبولیت نے بھی اگرچہ محوری کردار ادا کیا تھا ۔

دانیال عزیز اگر متعدد بار وزیر بننے والے باپ کے بیٹے ہیں تو احسن اقبال کو بھی اپنے والدین کی جانب سے بھرپور سیاسی اعانت ملی ہے ۔ احسن اقبال اور دانیال عزیز نے مگر اپنے اپنے بل پر بھی سیاست، اقتدار اور انتخابی میدان میں کامیابیاں سمیٹی ہیں ۔

تقابلی جائزہ لیا جائے تو اِس ضمن میں احسن اقبال کی کامیابیاں نسبتا زیادہ ، متنوع اور بھرپور ہیں ۔ وہ ایسے وفاقی وزیر رہے ہیں جو اقتدار کے ایوانوں میں مرکزی مقام کے حامل تھے ۔ اب بھی وہ نون لیگ کے سیکریٹری جنرل ہیں تو یہ کوئی معمولی مقام اور عہدہ نہیں ہے ۔

احسن اقبال نے محنت، کمٹمنٹ اور حکمت کے ساتھ شریف برادران کا ساتھ دیا ہے ۔ شہباز شریف کی طرف زیادہ جھکاو رکھنے کے باوجود نواز شریف کو ناراض نہیں ہونے دیا ۔پارٹی کے لیے فیصلہ سازی اقدامات میں احسن اقبال کے احسن مشوروں کو اہمیت دی جاتی ہے ۔

یہ امر سب کے لیے باعثِ حیرت اور اچنبھا ہے کہ ایک ہی پارٹی میں رہتے ہوئے احسن اقبال اور دانیال عزیز میں وہ باہمی قربت، اخوت اور تعاون نظر نہیں آتا تو ہم جماعت ہونے کی بنیادی ضرورت ہے ، بلکہ اِن عناصر کی جگہ دونوں میں آویزش اور کھچاؤ نظر آتا رہا ہے ۔ باہمی تعاون کے بجائے دونوں میں عجب حریفانہ کشمکش رہی ہے ۔

حالانکہ احسن اقبال نے آگے بڑھ کر ہمیشہ دانیال عزیز کا ساتھ دیا ہے ۔ دانیال عزیز بھی اِس ساتھ اور تعاون کے معترف پائے گئے ہیں ۔ لیکن اِس سب کے باوجود دانیال عزیز اور احسن اقبال کی حریفانہ کشمکش میں کمی نہیں آئی ۔

اب ٹکٹوں کی تقسیم پر دونوں کے درمیان حالات زیادہ خراب ہو گئے ہیں۔ دانیال عزیز نے بجا طور پر محسوس کیا کہ 8 فروری2024 کے انتخابات کے لیے احسن اقبال اپنے حلقے اور اپنے لیے زیادہ مفادات سمیٹ رہے ہیں تو وہ کھل کر احسن اقبال کے مدِ مقابل آ گئے ۔

احسن اقبال چاہتے تھے کہ ضلع نارووال (ظفر وال، پی پی54) میں نون لیگ کی صوبائی ٹکٹ ان کے صاحبزادے ،احمد اقبال، کو ملے ۔ دراز قد اور اعلی تعلیم یافتہ احمد اقبال اِس کے مستحق بھی تھے کہ وہ پہلے بھی نارووال ضلع کونسل کے چیئرمین رہے ہیں اور ووٹروں اور اپنے چاہنے والوں پر اپنی قابلیت و اہلیت ثابت کر چکے ہیں ( جب کہ دانیال عزیز کا دعوی ہے کہ احمد اقبال کا ضلع کونسل کا چیئرمین بننا ان کی مرہونِ منت تھا) دانیال عزیز کو احسن اقبال کی جانب سے اپنے صاحبزادے کے لیے انتخابی، مداخلتی کوششیں پسند نہیں آئیں۔ وہ ظفر وال سے اپنے دیرینہ سیاسی دوست چوہدری اویس قاسم کو بوجوہ نون لیگ کا صوبائی ٹکٹ دلوانا چاہ رہے تھے۔

صوبائی حلقہ پی پی54سے بھی خود احسن اقبال الیکشن لڑ رہے ہیں۔یوں احسن اقبال اور دانیال عزیز میں کشیدگی بڑھتی چلی گئی۔ ردِ عمل میں آکر دانیال عزیز ہر جگہ یہ کہتے پائے گئے کہ یہ جو ملک بھر میں کساد بازاری اور کمر شکن مہنگائی عوام کو پریشان کررہی ہے، اِس کے اصل ذمے دار احسن اقبال ہیں ۔

مبینہ طور پر سینئر نون لیگی قیادت نے احسن اقبال اور دانیال عزیز کو باہم بٹھا کر صلح کرانے کی کوشش بھی کی، مگر دونوں کی شکررنجیاں دور نہ ہو سکیں۔ احسن اقبال کہتے ہیں: دانیال عزیز میرے خلاف بیانات دے کر اپنا مذاق خود اڑا رہے ہیں ۔

دانیال عزیز کے احسن اقبال مخالف الزامات کے پس منظر میں نون لیگ نے دانیال عزیز کو شو کاز نوٹس بھی جاری کیا تھا ۔ دانیال عزیز نے اپنے جواب میں پسپائی اختیار کرنے سے انکار کر دیا ۔ یہ مگر حقیقت ہے کہ دانیال عزیز نے جب یہ محسوس کیا کہ احسن اقبال کے خلاف لگائے ان کے الزامات کی گرد کچھ زیادہ اڑنے لگی ہے تو انھوں نے یہ بیان بھی دیا کہ احسن اقبال کے بارے میرے دیے گئے بیانات کا غلط مطلب اخذ کیا گیا ۔ مگر تردید یا معذرت میں دیر ہو چکی تھی۔

دانیال عزیز کا احسن اقبال مخالف لہجہ اعلی نون لیگی قیادت بھی پہنچا۔اِس کے نتائج بھی نکلے، یوں کہ دانیال عزیز ٹکٹ سے محروم کر دیے گئے۔ اب دانیال عزیز، احسن اقبال اور نون لیگ کے بالمقابل کھڑے ہو کر، زخمی شیر کی طرح دھاڑ رہے ہیں۔

احسن اقبال اور دانیال عزیز کے حلقوں میں، بہرحال، ایک عام ووٹر یہ کہتا سنائی دے رہا ہے کہ نون لیگی قیادت نے دانیال عزیز کی جگہ نون لیگ کے لیے اجنبی چوہدری انوارالحق ایسے شخص کو ٹکٹ دے کر اچھا اقدام نہیں کیا ہے ۔ انوارالحق کی سیاسی و انتخابی زندگی تو پیپلز پارٹی میں گزری ہے ۔

بشکریہ روزنامہ ایکسپریس