پوسٹ ماڈرن ازم اور سیاسی رجحانات…تحریر:نعیم قاسم

1979 میں فرینکوس لیٹارڈ نے پہلی دفعہ پوسٹ ماڈرن ازم کی اصطلاح استعمال کرتے ہوئے واضح کیا کہ سیاسی، مذہبی، معاشرتی اور ثقافتی رجحانات کی تغیر پذیری، مختلف النوع توجیہات اور کثیر الجہتی نظریاتی بافتوں کی بنیاد پر ماڈرن ازم کی قائم کردہ تھیوریز کو مکمل طور پر پر رد کیا جا سکتا ہے اٹھارویں اور انیسویں صدی کے عقلیت پسندی اور کلیاتی سچائی پر مبنی مفروضات اور اس سے اخذ کردہ معاشرتی بہبود کے قوانین کا اطلاق آج کے دور میں ممکن نہیں ہے پوسٹ ماڈرن ازم کے مطابق آج کے جدلیاتی ارتقاء پزیر سماج ج میں مکمّل طور پر معروضی سچائی کی بنیاد پر قطعی حقائق کا ادراک نا ممکن ہے آج جو بھی سیاسی اور معاشرتی بیانیے موجود ہیں وہ سب کے سب مختلف النوع معاشروں کی اپنی اپنی نظریاتی ساختیں (conceptual constructs) ہیں ایک سیاسی و سماجی رہنما کی شخصیت، اسکے خیالات، نظریات اور سوچ و فکر بعض لوگوں کے لیے متاثر کن ہو گی اور وہ اسے اچھا انسان مانیں گے جبکہ دوسرے کچھ افراد کے لیے وہ شخص ناپسند یدہ ہے پاکستان میں سیاسی سوچ فکر کے حامل افراد کے دو الگ الگ طبقے ہیں ایک طبقے کے نزدیک عمران خان مزاحمتی ہیرو ہے تو دوسرا گروہ جو ہمیشہ طاقتور کی کلی سچائی کو اپنا دین ایمان سمجھتا ہے اس کے نزدیک عمران خان تخریب کار اور وطن دشمن ہے لہٰذا اس کے کڑووں ووٹرز کے حق خود ارادیت کو تسلیم کرنے سے ملکی استحکام خطرے میں آجائے گا ان بددیانت ٹاؤٹس کو کوئی پوچھے پاکستان کب داخلی استحکام کا اعلیٰ نمونہ رہا ہے ایوب خان نے جو دس سال مصنوعی استحکام قائم کیا تھا اس نے مشرقی پاکستان الگ کر دیا ضیاء الحق اور مشرف کے مصنوعی استحکام نے طالبان کا عفریت ہمارے سر پر بٹھا دیا ہے گزشتہ اسٹیبلشمنٹ کے نزدیک نواز شریف سیکورٹی رسک تھا اور آج وہ اس ملک کی سلامتی کے لیے ناگزیر ہے پہلے نواز شریف کو کہا جاتا تھا کہ وہ اپنی ضد اور ہٹ دھرمی کی بنیاد پر اسٹیبلشمنٹ کے مکمل سچائی کے سامنے سرنڈر نہیں کرتا ہے آج ایسے ہی خیالات عمران خان کے متعلق پیش کیے جاتے ہیں کچھ بکے ہوے لکھاریوں کے مطابق وہ بدل نہیں سکتا ہےوہ دوبارہ اقتدار میں آیا تو وہ اسٹیبلشمنٹ سے بدلہ لے گا اس پوسٹ ماڈرن دور میں کیا سیاسی نظریات آسمانی صحیفے ہیں کہ جن پر ایمان لانے سے ہی کوئی ملک وقوم کا وفادار ٹھہر ے گا بھٹو کو اپنے نظریات کی سچائی کی اضافیت( Relativism) پر قائم رہنے پر جان سے ہاتھ دھونا پڑ رہا اور آج ساری قوم، عدلیہ اور اسٹیبلشمنٹ اس کی بے گناہی تسلیم کر رہی ہے تو اس کا کیا فائدہ؟ آج ہم اپنے مخالفین کو شیطان ثابت کرتے ہوئے اس کی آنکھ کا تنکا تلاش کرتے پھر رہے ہیں اور اپنےممدوحین کی آنکھ کے شہتیر بھی دکھائی نہیں دے رہے ہیں آپ کو پوسٹ ماڈرن ازم کے دور میں اپنے خیالات کا اظہار کرنے پر کوئی قدغن نہیں ہے مگر آپ کو حضور کس نے حق دیا ہے یہ کہنے کا کہ اگر تحریک انصاف عوام کے ووٹوں سے جیتے گی تو ملک میں سیاسی عدم استحکام پیدا ہو گا اگر عوام کے مینڈیٹ کا احترام نہیں ہوگا تو جمہوریت کا کھیل کھیلنے کی کیا ضرورت ہے دوبارہ ایوب خان، ضیاء اور مشرف کا تجربہ کر لیں چاہے دوبارہ خاکم بدہن سانحہ مشرقی پاکستان کیوں نہ ہو جائے کسی طاقت ور اتھارٹی کو حق حاصل نہیں ہے کہ وہ اپنے تئیں سیاسی سچائی کا ایجنڈا پیش کرے اور اس کے ٹاؤٹس صحافی اور سیاست دان ان اندھوں کی طرح ہاتھی کی صورت گری کریں کہ جس کے ہاتھ میں جو ہاتھی کا حصہ ہے وہی مکمل ہاتھی ہے اس tunnel vision کا جس قدر نقصان پاکستان کو پہنچ چکا ہے اس کا احاطہ ناممکن ہے اگر جمہوریت کے اصولوں کے تحت کسی سیاسی جماعت نے اقتدار تک پہنچنا ہے تو اسے حق حاصل ہے کہ وہ اپنے سیاسی بیانیے پر عوام کے پاس جائے اگر اس کے بیا نئے میں وطن دشمنی ہے تو عوام کا اجتماعی شعور فیصلہ کر ے گا کہ اسے ووٹ دینا ہے یا نہیں پوسٹ ماڈرن دور میں کسی بھی نظریے، اصول یا فلسفے کو مطلق بنانے کے لیے طاقتور اتھارٹی logic and reason کا سہارا لیتی ہےاور اس بنیاد پر قائم کردہ تو جیہات پر مخالفین کو کچلنے کے بہانے تلاش کرتی ہے ان پر بے بنیاد مقدمات قائم کئے جاتے ہیں ہیں میڈیا کرد ار کشی کرتا ہے مگر اس منفی پراپیگنڈا سے وہ زیر عتاب لیڈر اپنے حمایتوں کے لیے اور زیادہ قابل قبول ہو جاتا ہے اس کی مثال بھٹو نواز شریف اور آج کا عمران خان ہے کل کا ولن نواز شریف آج اتھارٹی کی نظر میں ہیرو ہے اور ملکی ترقی کے لیے لازم و ملزوم ہے اور کل کا ہیرو معتوب ہے نواز شریف اس کو tit for tat کہہ رہا ہے مگر کیا پتہ کہ کب یہ عمل معکوس ہو جائے دائرے میں سیاسی سفر میں ہر فریق کو دوبارہ کوئے یار جانے کا موقع مل ہی جاتا ہے ع پیوستہ رہ شجر سے امید بہار رکھ
کوئی بھی شخص پیدائشی طور پر نہ تو نیکی کا مجسمہ ہے اور نہ ہی شیطانی چرغہ اس شخص کی شخصیت سازی اور ذہنی رجحانات معاشرتی حالات و واقعات سے متعین ہوتے ہیں حتی کہ ہر معاشرے کی زبان کے الفاظ بھی اپنے اپنے مفاہیم اور مطا لب رکھتے ہیں شہباز گل نے مسلم لیگ کی خاتون کے لیے کوئی لفظ بولا جب شرفاء نے اس پر لعن طعن کی تو اس نے کہا کہ میرے گاؤں میں یہ پنجابی لفظ بیوہ خاتون کے لیے استعمال ہوتا ہے اور اگر آپ کے ذہن میں کچھ خرابی ہے تو آپ اسکا غلط مطلب اخذ کر رہے ہیں پوسٹ ماڈرن فلسفے کے مطابق ہمارے الفاظ، رسم ورواج اور ملنے جلنے کے آداب ہماری معاشرتی آداب اور انفرادی رویوں کی عکاسی کرتے ہیں چاہے کسی دوسرے کے نزدیک یہ رویہ ہماری سنکیت کو ظاہر کر رہا ہو اور نفسیاتی کمتری کی دلیل کیوں نہ ہو ہر کلاس، نسل، طبقے کی اخلاقیات دوسرے طبقے سے مختلف ہوتی ہیں خواص کے ادب آداب عام لوگوں سے مختلف ہوتے ہیں لہذا جب ہم ان کے لائف سٹائل کو اپنی اخلاقی اقدار کے مطابق جج کرنے ہیں تو ہمیں ان میں تضاد دکھائی دیتے ہیں کیونکہ ہر شخص، گروہ اور طبقے کی سوچ و فکر کی بنیاد اس کے differential contrasts پر ہوتی ہے ان کی بنیاد پرہی وہ اپنے سیلف ریفرنسز قائم کرتے ہوئے اپنے سیاسی، مزہبی اور سماجی عقائد کو وجود میں لاتا ہے لہذا کسی کو کوئی حق نہیں ہے کہ اپنی ناقص رائے کو نئے نظریہ ضرورت کے تحت عوام پر مسلط کرے اور سیاسی فتوے جا ری کرے یہی خود ساختہ صالحانہ من گھڑت سوچ و فکر معاشرے کو تقسیم در تقسیم کر تی ہیں یہی وجہ ہے کہ پوسٹ ماڈرن ازم طاقت کے اصولوں پر قائم تمام سیاسی نظریات کو مکمل طور پر رد کرتا ہے آج ان نئے جسٹس منیروں اور ضیاء الحق کے پیروکاروں سے کوئی پوچھے کہ تاریخ میں کون زندہ ہے لہذا آج کا نوجوان کبھی تسلیم نہیں کرے گا کہ ایک کامیاب فوجی انقلاب ایک نئے دستوری اور قانونی نظام کا سرچشمہ بن جاتا ہے اس لیے فوجی آمریت جسے آج ہابریڈ آمریت کہا جاسکتا ہے کو آئین کے منافی ہونے کے باوجود ناجائز قرار نہیں دیا جا سکتا ہے
مگر آج بھی کچھ بد دیانت لوگ طاقت کے اس نا جائز اصول کو لاگو کرنے کے لیے اپنے آپ کو عقل کل سمجھ کر یہ باتیں کر رہے ہیں کہ اع تحریک انصاف کےاعتدال پسند انتخابی امیدواروں کو بھی فکس کیا جائے کوشش کی جائے کہ پارٹی کو بلے کا نشان نہ ملے تو کیا ایسا کرنے سے ملک میں حقیقی جمہوریت اور سیاسی اور معاشی استحکام آجائے گا تو ایسا سوچنے والے جسٹس منیر کی طرح احمقوں کی جنت میں رہتے ہیں
خرد کا نام جنوں پڑ گیا، جنوں کا خرد
جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے