مارو یا مر جاؤ‘‘ : تحریر حفیظ اللہ نیازی’’


پاکستان اور جمہوریت میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا ہو تو پاکستان پر میری جان قربان ہے۔ پاکستان بچے گا تو آج نہیں تو کل جمہوریت نصیب ضرور بنے گی ۔ ایک عرصہ سے یکسو ، مملکت خداداد اسلامیہ میں سول ملٹری تعلقات کبھی کسی ڈگر پر استوار ہوئے تو باہمی افہام و تفہیم اور ملٹری قیادت کی اجتماعی سوچ اور ذہنی ہم آہنگی سے ہی ممکن ہوگا ۔’’میں نہیں تو ملک نہیں‘‘، ’’نہ خدا ہی ملا نہ وصال صنم‘‘۔

شیخ مجیب الرحمان اور ذوالفقار علی بھٹو کی 2 مثالیں سامنے ہیں ۔ شیخ مجیب کے عروج وزوال اور انجام تفصیل طلب،مجیب نے اسٹیبلشمنٹ کو نیچا دکھانے کیلئے بھارت سے مدد لی اور پاکستان کو توڑنا ترجیح بنائی۔ دوسری طرف ذوالفقار علی بھٹو کو ملتے جلتے ٹکراؤ میں اپنی جان سے ہاتھ دھونا پڑے، مملکت کو نشانہ نہیں بنایا ، پاکستان بچ گیا ۔ 1988 میں جھوٹی سچی جمہوریت بھی ملی اور پہلی خاتون، بھٹو صاحب کی بیٹی ،وزیراعظم بنیں ۔

2015 سے گاہے گاہے اور 2018 سے تسلسل کیساتھ لکھ رہا ہوں کہ حالات سیاسی عدم استحکام کی طرف گامزن ہیں 1971جیسے نتائج نہ بھگتنا پڑجائیں ۔ اس میں دو رائے نہیں کہ جمہوریت کی غیر موجودگی ہی سانحہ مشرقی پاکستان یا آج باقی صوبوں میں سیاسی افراط و تفریط اور ہر قسم کے باہمی ٹکراؤ کا سبب غیر جمہوری قوتوں کی چیرہ دستیاں ہیں۔ برطانیہ میں( اسکاٹ لینڈ ، آئرلینڈ) جبکہ کینیڈا میں کیوبک (CUBEC ) اور بھارت میں کئی درجن علیحدگی کی تحریکیں بوجہ جمہوریت نہ پنپ پائیں۔

7 جنوری1951،پاکستان آرمی وجود میں آئی ۔ پہلا کمانڈر انچیف خود غرض نکلا ۔ جنرل ایوب اپنے اقتدار کو دوام دینے کی خاطر ، مملکت کو اگلے 73 سال سیاسی عدم استحکام میں دھکیل گیا ۔ اسٹیبلشمنٹ کی شروعات ہی ذاتی مفادات ترجیح بن گئے، پیشہ ورانہ صلاحیتیں کمزور پڑنا لازمی امر تھا ۔پہلا سانحہ مشرقی پاکستان کی علیحدگی جبکہ کشمیر سے ہاتھ دھو نا منطقی انجام تھا ۔سانحہ مشرقی پاکستان سے سبق کیا سیکھتے ،ساڑھے پانچ سال بعد بھٹو حکومت کا دھڑن تختہ کر ڈالا ۔ لڑائی سیاسی جماعت بمقابلہ ملٹری اسٹیبلشمنٹ کا روپ دھار سکتی تھی ۔خوش قسمتی سے پیپلز پارٹی قیادت کی فہم و فراست کام آ گئی ۔ اگر بینظیر سیاسی لڑائی نہ لڑتیں اور اسٹیبلشمنٹ سے سیاسی مفاہمت نہ کرتیں ، تو پیپلز پارٹی آج قصہ پارینہ ہوتی۔ 10اپریل 1986 کولاہور میں بینظیر بھٹو کافقیدالمثال استقبال (آج تک ضرب المثل) دیکھ کر لگتا تھا بینظیر صاحبہ 90فیصد نشستوں پر کامیاب ہونگی ۔ 1988میں جب عام انتخابات ہوئے تو پیپلز پارٹی سادہ اکثریت سے دور ضرور ، اقتدار مل گیا ۔

بدقسمتی سے عمران کی جماعت اور اسکے سوشل میڈیا ہینڈلرزافہام و تفہیم سے دور ہو چکے ہیں۔ ’’مائنس عمران خان ، NO پاکستان‘‘ اپنی ترجیح بنا رکھی ہے ۔عمران خان کا نور بصیرت ’’ میں نہیں تو پاکستان نہیں‘‘عام کر رہے ہیں ۔ اگر 8 فروری کو الیکشن ہو پائے تو بھی عمران خان ٹائیگرز کیلئے مقام حاصل کرنے کی گنجائش محدودرہنی ہے ۔ اگرچہ گوہر علی خان کی تحریک انصاف یقیناً اسٹیبلشمنٹ کے زیر اثر منتقل ہو چکی ہے ، مجھے خدشہ ہے کہ الیکشن کے نتائج جو کچھ بھی ، حالات کا بے قابو ہونا یقینی ہے۔ عمران خان کی مقبولیت ووٹوں کیلئے ناکافی ، دشمن قوتوں کی مدد افراتفری پھیلانے کیلئے وافر مقدار میں موجود ہے ۔ مقبولیت کے زعم میں 2 لانگ مارچ کر ڈالے ، 9 مئی کے دن فوجی تنصیبات پر ملکی طول عرض میں حملہ آور ہوا ،کھویا ہوا اقتدار حاصل کرنے کیلئے کئی ہنر آزماڈالے ۔ ہرکوشش تضحیک آمیز ناکامی سے دوچار رہی۔ دو مثالیں مقبولیت کا بھانڈا پھوڑنے کیلئے کافی ہیں ۔ 25مئی اور 26نومبر 2022 لاکھوں کا سمندر متوقع تھا ، حلف بھی لیے ، بالآخر چند ہزار پر اکتفا کرنا پڑا ۔ بخوبی معلوم ہو گیا تھا کہ دباؤکیلئے خاطر خواہ سپورٹ نہیں ہے۔ تب سے عقیدہ کہ اسٹیبلشمنٹ سے بدلہ لینے کا حتمی طریقہ پاکستان کوغیر مستحکم کرکے ہے ۔

بھاری دل سے تسلیم کہ آج کی مصیبت کی اصل ذمہ دار اسٹیبلشمنٹ ہے ۔ محنت مشقت سے مملکت کواس حال تک پہنچایا ہے ۔ عمران خان جیسے کردار اسٹیبلشمنٹ کی تخلیق اور مرہون منت ، ہمیشہ جان لیوا ثابت ہوئے ۔ جنرل باجوہ کابڑا جرم ، اپریل 2022 میں عمران خان کا مکو ٹھپنا’’ شرعا‘‘ جائز تھا اور عین ممکن بھی ۔ اس نے توانا رکھنے کی ٹھانی کہ دباؤ ڈال کر شہباز حکومت کو گھر بھیجا جاسکے یا توسیع کیلئے استعمال کیا جائے ۔ یقینِ کامل ، لانگ مارچ ، جلسے جلوس ، ارشد شریف قتل ، عمران خان پر قاتلانہ حملہ ، سب ایک ہی سلسلہ کی کڑی ۔ شہباز حکومت کو گرانے کیلئے تھیں ، جوعمران خان کو مضبوط کرنے میں مددگار ثابت ہوئیں ۔ مضحکہ خیز ، 10 اپریل سے’’ بلے‘‘ کے نشان کی واپسی تک ، جتنے تادیبی اقدامات کئے ، عمران کا سیاسی اثرو رسوخ اُتنا بڑھا ۔ جتنی تدابیر کیں الٹی پڑیں ۔ آج عمران کا جیل میں رہنا نفع کا سودا ہے۔ بالفرض محال ، 8 فروری کو الیکشن ہو بھی گئے، تو خدشہ نتائج منصوبہ بندی کے برعکس نکلیں گے ۔ ہاتھ ملنے کا وقت بھی نہیں ہوگا ۔نواز شریف صاحب کا وزیراعظم بننے اور انتخابی مہم چلانے میں تذبذب سمجھ میں آتا ہے۔ عمران خان الیکشن میں ہار جیت یا الیکشن نہ ہونے کی صورت ،اسٹیبلشمنٹ کا کمزور ہونا دیکھ رہے ہیں۔ایسا خواب شاید پاکستان دشمن ممالک کے وارے میں ہو ، محب الوطن پاکستانی کیلئے قیامت کا منظر ہے ۔

یقین کہ جب کبھی حقی سچی مقبول مدبر قیادت نصیب ہو گی، اسٹیبلشمنٹ سے ٹکراؤ کی بجائے افہام و تفہیم کے ہنر آزمائےگئے تو صورت گری ہو پائے گی ، اسٹیبلشمنٹ سے ٹکراؤ میں تباہی کے علاوہ کچھ نہیں ۔ کیا موجودہ صورتحال میں جمہوریت کے نام پر پاکستان توڑنے کی اجازت دی جا سکتی ہے؟ ہر گز نہیں ۔ اگر پاکستان نہ رہا یا کمزور ہوا تو اس بار بنگلہ دیش ماڈل نہیں ، کشمیر یا حیدرآباد ( دکن ) ماڈل سامنے ہوگا ۔ پاکستان قائم رہا ، آج نہیں تو کل اسٹیبلشمنٹ سے جان چھڑا لی جائے گی ۔ ترکیہ کی مثال ہمارے سامنےہے ۔ 107 سال پہلے فوج نے ترکی کو آزاد کروایا اور پھر 80 سال تک ترک فوج ملک کے سیاہ و سپید کی مالک رہی کہ آئین ترکیہ میں اپنا مضبوط مقام درج کر رکھا تھا ۔ پھر طیب اردوان جیسا دیدہ ور قائد نصیب بنا ۔ افہام و تفہیم ، معاملہ فہمی کیساتھ بغیر ٹکراؤ کے اسٹیبلشمنٹ کے چنگل سے نظامِ ترکی کو آزاد کرایا ۔ ترکی کو بامِ عروج سے متعارف کرایا۔ آج دنیا کے 20 بڑے ترقی یافتہ ممالک میں شامل ہے جبکہ 2002 میں ترکیہ کے حالات پاکستان سے بھی بد تر تھے۔

مجھے ایسی جمہوریت نہیں چاہیے جسکو حاصل کرنے کیلئے پاکستان کی سالمیت کو خطرہ ہو ۔ پاکستان اور جمہوریت میں آج پھر ٹھن چکی ہے۔ میں ایسی جمہوریت سے اللہ کی پناہ مانگتا ہوں۔ پاکستان بچ گیا، شاید میں تو نہ زندہ رہوں، ان شاء اللہ کوئی قائداعظم یا اردوان جیسا ضرور آئے گا اور حقیقی سچی جمہوریت لائے گا، ایک مضبوط اور درخشاں پاکستان بنائے گا۔

بشکریہ روزنامہ جنگ