پشاور ہائیکورٹ نے تحریک انصاف کا انتخابی نشان بلا بحال کر کے بلے کو پی ٹی آئی مخالفین کیلئے واقعی ایک بلا بنا دیا۔ اگر بلے کا نشان قائم رہتا ہے اور الیکشن کمیشن پشاور ہائی کورٹ کے فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج نہیں کرتا اور بلے کا نشان 8فروری یعنی انتخابات والے دن بیلٹ پیپر پر موجود رہا تو ممکن ہے کہ بلا بلا بن کر اپنے سیاسی مخالفین کو کھا جائے۔
تحریک انصاف کے رہنما اور سابق ممبر قومی اسمبلی علی محمد خان نے چند دن قبل ایک ٹی وی ٹاک شو میں کوئی ایسی بات کی تھی کہ یہ بلا ہے کوئی بلا تو نہیں کہ اس سے ڈرا جائے۔ جسکے بعد ان کے اس بیان کا سوشل میڈیا پر کافی چرچا ہوا۔
پشاور ہائیکورٹ کے ڈویژن بنچ نے آج تحریک انصاف کی پٹیشن پر پی ٹی آئی کا بلے کا نشان بحال کردیا اور الیکشن کمیشن کو حکم دیا کہ فوری طور پر عدالت کے حکم پر عملددرآمد کرتے ہوے تحریک انصاف کو بلے کا نشان الاٹ کیا جائے۔
اس فیصلے نے تحریک انصاف کیلئے الیکشن مہم کے طور پر ایک بہت اہم کردار ادا کیا اور اسی وجہ سے تحریک انصاف کے رہنماؤں نے اب یہ کہنا شروع کر دیا ہے کہ اب تحریک انصاف کو الیکشن جیتنے سے کوئی نہیں روک سکتا۔
ایسے میں جب ن لیگ سوئی ہوئی ہے اور بظاہر اس انتظار میں ہے کہ کچھ کیے بغیر اسے الیکشن جتوا دیا جائے اور میاں نواز شریف کو وزارت عظمی کی کرسی پر بٹھا دیا جائے، تحریک انصاف کو تمام تر مشکلات کے باوجوداب اس بات کا یقین ہو چکا ہے کہ وہ الیکشن جیت سکتی ہے۔
اگر موجودہ حالات کا آزادانہ طور پر جائزہ لیا جائے تو اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ آج سے چند ہفتہ قبل مشکلات میں گھری تحریک انصاف کے انجینئرڈ الیکشن میں کامیابی کے جو چانس یا سرپرائز دینے کے امکانات دس یا بیس فیصد تھے وہ اب دوگنا بڑھ گئے ہوں گے۔
انتخابات شفاف ہونے کی صورت میں تو تحریک انصاف کی جیت یقینی ہے۔ نئے پیدا ہونیوالے حالات کی وجہ سے اب تحریک انصاف کے مخالفین اور خاص طور پر ن لیگ کافی پریشان ہوگی کیوں کو بنایا گیا کھیل بگڑتا ہوا نظر آ رہا ہے اور سیاسی انجینئرنگ کے نتیجے میں جن نتائج کی امید تھی وہ دھندلا چکے ہیں۔
اب یا تو الیکشن کمیشن فوری طور پر پشاور ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ جائے اور اسے کالعدم قرار دلوائے۔ الیکشن کمیشن ممکنہ طور پر پشاور ہائی کورٹ کے فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کرے گا لیکن مجھے لگتا نہیں کہ سپریم کورٹ تحریک انصاف سے بلے کا نشان چھیننے کا فیصلہ کرسکتی ہے۔
اب معاملہ بڑا گھمبیر ہو گیا ہے۔ اپنے سیاسی مخالفین کیلئے تو بلا بلاشبہ بلا بن چکا لیکن انتخابات کی کامیابی کے سرپرائز کی صورت میں یہی بلا سیاسی اور معاشی استحکام کے راستے میں ایک بلا بن جائے گا اور اس وجہ سے میں پہلے بھی بیان کر چکا اور پھر یہاں دہرا نا چاہوں گا کہ عمران خان کے فوج اور اسٹیبلشمنٹ مخالف بیانیہ، جس پر وہ اب بھی قائم ہیں، الیکشن جیتنے کی صورت میں ملک کو خطرناک حالات کی طرف لے جائے گا جہاں پہلے دن سے نئی منتخب حکومت اور اسٹیبلشمنٹ آمنے سامنے نظر آئیں گے اور تحریک انصاف کا سوشل میڈیا فوج مخالف ٹرینڈ چلا چلا کر مختلف مطالبہ کر رہا ہو گا۔
اسی اندیشہ کی وجہ سے میں نے بار بار لکھا اور کہا کہ تحریک انصاف کو بالخصوص 9 مئی کے سانحہ کے بعد فوج اور اسٹیبلشمنٹ سے اپنے تعلقات بہتر بنانے اور اپنے سپوٹرز، ووٹرز کے ذہنوں میں فوج کے خلاف انجیکٹ کیا گیا زہر نکا لنے کو کوشش کرنی چاہیے۔
اس سلسلے میں ماضی قریب میں تحریک انصاف کی قیادت اور کور کمیٹی کی طرف سے کچھ کوشش نظر آئی لیکن عمران خان کے اکانومسٹ میں شائع ہونے والے مضمون نے ان کوششوں کو شدید نقصان پہنچایا اور اس تاثر کو مزید مضبوط کیا کہ عمران خان تو اپنے فوج مخالف بیانیہ پر اب بھی قائم ہیں، نہ انہیں9مئی کا کوئی پچھتاوا ہے نہ ہی وہ اسٹیبلشمنٹ اور فوج سے متعلق اپنے دیگر الزامات سے پیچھے ہٹے ہیں۔ خان نے بلے کو واقعی ایک بلا بنا دیا ہے۔
بشکریہ روزنامہ جنگ