یہ بات بے حد قابل تحسین ہے ک جنرل عاصم منیر پاکستان کی ہمہ جہتی معاشی اصلاح کا ایک واضح روڈ میپ کا خاکہ اپنے ذہن میں ترتیب دے چکے ہیں اور اس کو عملی جامہ پہنانے پر گزشتہ چند ماہ سے عملی اقدامات بھی اٹھا رہے ہیں اور ان کے مثبت اثرات بھی دکھائی دے رہے ہیں سب سے اہم بات کرنسی مارکیٹ میں سٹہ بازی اور حوالہ مارکیٹ کے ذریعے فارن ایکسچینج کی بلیک مارکیٹ کو ختم کرنا ہے اور کچھ ماہ سے ڈالر کا روپے کے ساتھ شرح مبادلہ مستحکم ہے افغان ٹرانزٹ ٹریڈ اور مغربی بارڈر پر سمگلنگ کے خاتمے کے لیے بھی موثر اقدامات کی تعریف نہ کرنا بھی زیادتی ہو گی ملکی اور غیر ملکی سرمایہ کاروں کو بزنس فیسلٹی کونسل کے ذریعے بیورو کریسی کے ریڈ ٹیپ ازم سے چھٹکارے کے لیے ون ونڈو آپریشن کے بھی بہتر نتائج خصوصاً پنجاب میں ملنا شروع ہو گئے ہیں اور اب آرمی چیف ملک کی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی زراعت کی بہتری کے لیے بھی ایک موثر منصوبے کو عملی جامہ پہنا نے کا ارادہ رکھتے ہیں زراعت ملکی خام قومی پیداوار میں 20 فیصد کا شراکت دار ہے ملک کی 80 فیصد آبادی کے روزگار کا براہ راست اور بالواسطہ طور پر زرعی سرگرمیوں اور لائیو سٹاک کی پیداوار پر ہے. گزشتہ ماہ تیس دسمبر کو آرمی چیف نے قومی کسان کنونشن سے خطاب کرتے ہوئے اپنے گرین پاکستان انشیٹو کے تصور کی وضاحت کر تے ہوئے کہا کہ ہم سب نے زراعت پر کام کر نا ہے اور اس منصوبے کی آمدن کا بڑا حصہ صوبوں کو جائے گا باقی کسانوں کی فلاح بہبود اور زرعی ریسرچ پر خرچ ہو گا ان کا مزید کہنا تھا کہ زراعت اور گلہ بانی انبیاء کا مقدس پیشہ رہا ہے اس سے انسان ڈسپلن، صبر اور برداشت سیکھتا ہے گرین پاکستان پروگرام کے تحت کسانوں کو ہر طرح کی زرعی سہولیات میسر ہوں گی آسان شرائط پر زرعی قرضے، کولڈ سٹوریج کی سہولیات، موسمی اثرات سے محفوظ محفوظ بیجوں کی فراہمی اور ترقی یافتہ لائیو سٹاک کی تیاری کو یقینی بنایا جائے گا فوج کے سربراہ کا قومی معیشت کی بحالی میں فعال کردار یقیناً مستحسن اور حالات کے تقاضوں کے مطابق ہے کیونکہ جدید زرعی ٹیکنالوجی اور طریقہ ہائے کار سے زرعی پیداوار کی فی ایکڑ پیداوار میں کئی گنا اضافہ ممکن ہے مگر کیا 8 فروری کے بعد منتخب ہونے والی حکومت آرمی چیف کے معاشی وژن کے ساتھ ہم آہنگ ہو نگی یا نہیں یا وہ اپنا سیاسی ایجنڈے کو فالو کریں گے اور وہ معیشت کی بہتری کے منصوبوں کا کریڈٹ آرمی چیف کولینے دیں گے _یقیناً نہیں تو پھر کیسے عوام کو ریلیف ملے گا کیونکہ سول حکومتیں خصوصاً نواز لیگ ایسے منصوبوں پر کام کر تی ہے جو عام عوام کو نظر آئیں جیسے اورنج لائن چاہیے وہ ملکی معیشت کے لیے غیر ملکی قرضوں کے بوجھ میں بے تحاشہ اضافہ کرے اور ملکی معیشت کے لیے زہر قاتل ثابت ہو
آرمی چیف کے زراعت کی ترقی کے لیے ٹیکسٹ بک اپروچ سے ہٹ کر عرض کرنے کی جسارت کروں گا کہ زرعی شعبے کی بہتری کیلئے ہمیں فرسودہ جاگیر دارانہ نظام کو ختم کرنے کے لیے بھی اقدامات کرنے ہونگے ملک کی 98 فیصد زرعی زمینوں کی ملکیت 2 فیصد خاندانوں کے پاس ہے عام کسانوں کی اکثریت کے پاس ساڑھے بارہ ایکڑ سے کم قطعہ اراضی ہیں جہاں پر کاشت کار ی کرنا معاشی طور پر سود مند نہیں ہے اور دوسری طرف بڑے بڑے جاگیرداروں کے پاس ہزاروں ایکڑ ایسی اراضی ہےجس پر وہ کچھ کاشت نہیں کرتے ہیں اس کے علاوہ لینڈ مافیا کسانوں سے زرعی زمینیں خرید کر ہاوسنگ سکیمیں بنائے جا رہا ہے جسکی وجہ سے پورے ملک کا ایکالوجی اور موسمیاتی نظام تباہ و برباد ہو رہا ہے اور سموگ نے اس ملک میں عام انسانوں کی صحت کو بھی تباہ و برباد کر نا شروع کر دیا ہے حکومت زراعت کی بہتری کے لیے جو بھی اقدامات کرتی ہے زرعی سستے قرضے، کیمیائی کھاد پر زر تلافی، فصلوں کی امدادی قیمتوں میں اضافہ اس سے زیادہ مفید بڑے زمین دار ہو رہے ہیں یہ لوگ پارلیمنٹ میں موجود ہیں لہذا یہ ارب پتی ہونے کے باوجود اپنی زرعی آمدنی پر انکم ٹیکس نہیں دیتے ہیں بلکہ اپنی ایگرو انڈسٹریز سے حاصل آمدنی کوبھی زراعت سے حاصل کردہ آمدنی ظاہر کر کے انکم ٹیکس بچا رہے ہیں زرعی آمدنی پر ٹیکس سے 1000 ارب روپے سے زائد ریونیو مل سکتا ہے مگر ہم نے اس کو وفاقی دائرہ کار میں نہیں رکھا ہوا ہے اور صوبے بمشکل سالانہ زرعی ریونیو چالیس پچاس ارب روپے مجموعی طور پر پر اکٹھا کرتے ہیں کیونکہ بڑے بڑے رقبے جاگیر داروں کو انگریزوں کی وفاداری پر ملے ہیں اور جرنیلوں اور بیوروکریٹس کو بھی ان کی “قومی خدمات” پر آلاٹ ہو ے ہیں اور ہو رہے ہیں وہ کیوں اس پر ٹیکس دیں گے یا اگر اس پر وہ کاشت کاری نہ کریں تو کون ان سے یہ رقبے واپس لے کر کاشت کاروں کو دے گا اسلام آباد میں سبزیوں کی کاشت کاری کے لیے سی ڈی اے نے امراء کو فارم ہاوسز کوڑیوں کے مول آلاٹ کئے افتخار محمد چوہدری نے سؤ موٹو نوثس لیا مگر کچھ نہیں ہوا زمین اللہ کی ملکیت ہے جو اسے کاشت کرے وہی اس کا مالک ہو وگرنہ ایسا قانون ہو کہ ریاست یہ زمین کاشت نہ کرنے والوں سے لے کر غریب ہاریوں کے حوالے کرنے کا قانون بنائے اور ریاستی مشینری اس کو بزور طاقت لاگو کرے ایسے نہیں کہ ایوب بھٹو کی زرعی اصلاحات میں کاغذات میں تو زمین مزاروں اور ہاریوں کے نام کی گئی مگر قبضہ جاگیر داروں کے پاس ہی رہا تھوڑی بہت بنجر اور بے آباد زمینیں جا گیرداروں نے سرنڈر کیں تو کیں یا سرکاری زمینیں غریب کاشتکاروں کو دی جاتی ہیں مگر اس سے زرعی انقلاب نہیں آتا ہے ہمارے آرمی چیف کے گرین پروگرام کے انشیٹو کا غریب کسانوں کو تبھی فائدہ ہوگا جب ملک کے سیاست دان اور افسر شاہی سماجی بہبود کا مقصد اپنے سامنے رکھتے ہوئے ریاست کی مدد گار ہو گی مگر ہماری بیورو کریسی اور سیاست دان کی یہ حالت ہے کہ وہ طاقت اور مفادات کی اسیر ہو کر رہ گئی ہے انتہائی معذرت اور جان کی امان پا کر عرض کروں گا کہ ان کے ادارے کے اکثر سابق افسران نے بھی ملکی مفادات کو مقدم نہ جانا ہمارے ملک کے بزرجمہر کرپشن کو اپنا حق سمجھتے ہیں اور اب تو یہ مرض سرطان کی صورت اختیار کر گیا ہے بیوروکریٹس کسی ایسے منصوبے کو پایہ تکمیل تک پہنچنے ہی نہیں دیتے ہیں جس میں ان کو کک بیکس نہ ملیں اور اب نیب کے بہانے سے سرکاری افسران ترقیاتی منصوبوں کے بجٹس لیپس ہونے دیتے ہیں مگر عوام کی فلاح وبہہود کا پراجیکٹ نہیں لگنے دیتے ہیں اور اگر کوئی منصوبہ مکمل بھی ہو جائے تو اس کی کوالٹی کرپشن کی وجہ سے انتہائی ناقص ہوتی ہے بڑے بڑے پل گر جاتے ہیں ایک بارش سے سڑکیں بہہ جاتی ہیں غیر ملکی امداد کی اشیاء بازاروں میں فروخت ہو رہی ہوتی ہیں
میری ناقص رائے میں آرمی چیف جب تک اپنے اقدامات سے کرپشن کے خلاف سرجری نہیں کرتے ہیں اور پرانے چہروں کو دوبارہ سیاسی انجنیرنگ سے برسر اقتدار آنے دیں گے تو کیسے اس ملک کی سیاسی، سماجی اور اقتصادی اصلاح ہو سکے گی پاکستان کی اصلاح تبھی ممکن ہے کہ اگر تمام سٹیک ہولڈر ز آپ کےوژن کے مطابق پاکستان کی اقتصادیات کو بہتر بنانے کے لیے کسی طویل المدتی منصوبے پر متفق ہو ں جس میں زراعت، مائنگ، صنعت اور انسانی تشکیل سرمایہ کے متعلق شفاف طریقے اختیار کئے جائیں اور عدل اجتماعی کے لیے دولت کی منصفانہ تقسیم سے عام آدمی کو بھی کچھ نہ کچھ ثمرات حاصل ہوں