22جنوری کو بابری مسجد کی جگہ پر ایک عظیم الشان رام مندر کے افتتاح کے بعد یہ تاریخی مسجد مکمل طور پر تاریخ کے اوراق میں گم ہو جائیگی۔ وزیر اعظم نریندر مودی خود اس مندر کا افتتاح کررہے ہیں، تاکہ اپریل۔مئی میں ہونے والے عام انتخابات میں ووٹروں کو لبھا سکیں۔ ہندو قوم پرست جماعتیں خاص طور پر بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) تین متنازعہ ایشوز کو لیکر ہی انتخابی میدان میں اترتی تھی۔ یہ ایشوز تھے بابری مسجد کی جگہ رام مندر کا قیام ، جموں کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت کا خاتمہ اور پورے ملک میں یکسان سول کوڈ کا نفاذ۔ پچھلے دس سالہ دور اقتدار میں مودی حکومت نے دو اہم وعدوں کو عملی جامہ پہنایا ہے۔ یکساں سول کوڈ ، مسلمانوں کے ساتھ قبائل اور ہندوو ں کے ہی مختلف فرقوں کو قابل قبول نہیں ہے، کیونکہ شادی بیاہ کی رسوم بھارت کے ہر خطے میں مقامی ریتی رواج کے ساتھ عمل میں آتی ہیں۔ اسلئے تجزیہ کار اب حیران ہیں ، کہ 2024میں اب کس متنازعہ وعدے کو لیکر وہ ہندو اکثریتی ووٹرں کو لبھائیں گے۔ تجزیہ کاروں کے مطابق بی جے پی کے پاس ہندو ووٹروں کو لام بند کرنے کیلئے تین اہم ہتھیار گائے، پاکستان اور مسلمان ہوتے ہیں۔ 2014کے انتخابات میں گائے کو تحفظ فراہم کرنا ایک اہم ایشو تھا۔ گائے اب اس حد تک محفوظ جانور بن چکی ہے کہ شمالی بھارت میں کسانوں کیلئے درد سر بن چکی ہے۔ دودھ خشک ہونے کے بعد ان کو گھروں سے نکالا جاتا ہے، تو یہ بغیر کسی خوف کے کھڑی فصلوں کو تہس نہس کرتی رہتی ہیں۔ چند برس قبل مدھیہ پردیش کے کسی شہر میں ایک ٹرک حادثہ میں بزرگ خاتون کی جان چلی گئی، جو سڑک کے کنارے چہل قدمی کر رہی تھی۔ بعد میں ڈرائیور نے بتایا کہ سڑک پر ایک گائے کو بچانے کیلئے اس نے فٹ پاتھ پر گاڑی موڑ دی ، جس سے بزرگ خاتون کی جان چلی گئی۔ اس کا استدلال تھا کہ اگر گائے کو ٹکر لگ جاتی تو وہ اور اسکا ٹرک ہجومی تشدد کی نذر ہوجاتے۔ خاتون کی جان جانے سے کم از کم وہ اور اس کا ٹرک تو محفوظ رہا۔ گائے کا ایشو انتخابات میں کیش ہو چکا ہے، اب اس پر ووٹ ملنا مشکل ہے۔ جنوری 2019میں رائے عامہ کے جائزوں کے مطابق مودی حکومت خاصی غیر مقبول ہوگئی تھی اور 543رکنی ایوان میں بی جے پی 200 سیٹوں تک محدود نظر آتی تھی۔ فروری میں پلوامہ کے مقام پر فوجی ہلاکتوں اور پھر بالاکوٹ پر فضائیہ کے آپریشن نے تو فضا ہی بدل ڈالی۔ انتخابی نتائج میں بی جے پی نے 300کا ہندسہ عبور کر لیا۔ اب اسوقت پاکستان خود ہی اپنے گرداب میں پھنسا ہوا ہے۔ لائن آف کنٹرول پر سیز فائر بھی کامیابی کے ساتھ روبہ عمل ہے۔ بھارت میں سٹریٹیجک امور کے ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستانی انتخابات میں نواز شریف کے جیتنے اور وزیر اعظم بننے کے امکانات خاصے قوی ہیں۔ بھارت کے اداروں میں نواز شریف کے تئیں ایک نرم گوشہ ہوتا ہے۔ اس لئے ان کی کرسی حاصل کرنے کی دوڑ کو سبو تاژ کرنا بھارت کے مفاد میں نہیں ہے۔ اب لے دے کے ایک ہی ایسا ایشو بچتا ہے، وہ ہے مسلمان۔ رام مندر کے افتتاح کیلئے وزیر اعظم کا خود موجود رہنا اور اس تقریب کو صدیوں کی غلامی کا طوق پھینکنے سے تشبیہ دینا ، واضح عندیہ ہے کہ اس بار ٹارگٹ براہ راست مسلمان ہے۔ حال ہی میں ایودھیا میں نئے ائیرپورٹ کا افتتاح کرتے ہوئے مودی نے اپیل کی کہ رام مندر کے افتتاح کے دن پورے ملک میں دیوالی کی طرح چراغاں کیا جائے اور اس دن کو ایک تہوار کی طرح منائیں۔وزیر داخلہ امیت شاہ نے اس میں کشمیر کی کھچڑی بھی شامل کردی ہے۔ اس لئے پچھلے دنوں ، مسرت عالم کی مسلم لیگ، مرحوم سید علی گیلانی کی تحریک حریت پر پابندی لگائی گئی ۔کشمیر کے سلسلے میں کئی اور سخت اقدامات کی توقع ظاہر کی جا رہی ہے۔ بی جے پی کیلئے سب سے بڑی مشکل یہ ہے کہ جنوبی بھارت میں اس کی دال گل نہیں رہی ہے۔ گو کہ کرناٹک کے بغیر باقی جنوبی ریاستوں میں اس کا وجود پہلے سے ہی برائے نام تھامگر تلنگانہ، آندھرا پردیش اور تامل ناڈو میں وہ مقامی پارٹیوں کے کندھوں پر سوار ہوکر کسی طرح اپنا الو سیدھا کرتی تھی۔ مگر یکے بعد دیگرے کرناٹک اور پھر تلنگانہ میں کانگریس کی جیت نے ان مقامی پارٹیوں کی ہوا نکال کر رکھ دی ہے اور تامل ناڈو میں اسکی اتحادی پارٹی ڈی ایم کے بھی مضبوط پوزیشن میں ہے۔جنوبی بھارت کی لوک سبھا میں 132نشستیں ہیں۔ بی جے پی نے 2019میں جن303نشستوں پرقبضہ کیا، ان میں 30 سیٹیں جنوبی بھارت سے تھیں۔ 224نشستوں پر اس کو 50فیصد سے زیادہ ووٹ ملے تھے۔ حکومت سازی کیلئے لوک سبھا میں 272سیٹیں لانا لازمی ہے۔ یعنی اس ہدف کو پار کرکے بی جے پی کے پاس اضافی بس 31 سیٹیں ہی ہیں۔ ماہرین کے مطابق اگر بی جے پی شمالی بھارت کی سبھی 224سیٹیں برقرار بھی رکھتی ہے تو اس کو مزید 48سیٹیں لانے کیلئے خاصی جدو جہد کرنی پڑے گی۔ پچھلی بار اسکو مہاراشٹر، مغربی بنگال، اڑیسہ، تلنگانہ اور شمال مشرقی صوبوں سے کل ملا کر 79سیٹیں حاصل ہوئی تھی، جس نے اس کی تعداد کو تین سو سے اوپر پہنچایا دیا تھا۔ اس بار ان صوبو ں میں کانگریس کے زیر قیادت نو زائیدہ انڈیا ( یعنی انڈین نیشنل ڈیولپمنٹ انکلوسیو الائینس)اتحاد کو خاصی سیٹیں ملنے کا امکان ہے۔ گو کہ ابھی اپوزیشن میں سیٹوں کے بٹوارے پر خاصی لے دے ہونے کے امکانات ہیں، مگر جس طرح ابھی حال ہی میں اراکین پارلیمنٹ کو تھوک میں معطل کر دیا گیا اور تفتیشی ادارے اپوزیشن لیڈروں کو زچ کررہے ہیں اس سے لگتا ہے کہ وہ متحدہوکر انتخابات میں آر یا پار کی لڑائی لڑیں گے۔ اس وجہ سے بی جے پی کے لیڈران کی نیند اڑی ہوئی ہے۔ وہ اس فراق میں ہیں کہ کوئی ایسا ایشو ہاتھ آجائے ، جس سے 2019کی طرح پورے ملک کو سحر میں گرفتار کرکے ووٹ اسکی جھولی میں گر جائیں۔ اس سلسلے کی ایک کڑی رام مندر کا افتتاح ہے۔ بابری مسجد پر جب سپریم کورٹ کا فیصلہ آیا تھا، تو لگتا تھا کہ ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان دیرینہ تنازعات اب ختم ہو جائیں گے۔80کی دہائی کے آخر میں جب اس قضیہ نے ایک خونی رخ اختیار کیا تھا تو کئی مسلم لیڈران اور علما جن میں مولانا وحید الدین خان پیش پیش تھے، مشورہ دیتے تھے کہ فرقہ وارانہ ماحول کو ختم کرنے کیلئے مسلمانوں کو اس مسجد کی قربانی دینی چاہئے۔ مگر بقول سینئرصحافی عبدالباری مسعود یہ سہانا خواب ادھورا ہی رہ گیا۔ اب تو ہر دوسرے دن کسی نہ کسی مسجد پر دعوی ٹھونک کر ہندو تنظیمیں عدالتوں کا رخ کرتی ہیں۔ اس سلسلے میں ابھی تک وارانسی کی گیان واپی مسجد اور متھرا کی عید گاہ مسجد پر عدالت نے شنوائی بھی شروع کی ہے۔ گو کہ نوے کی دہائی میں پارلیمنٹ نے عبادت گاہوں کی موجودہ حیثیت کو 1947کی پوزیشن میں جوں کا توں رکھنے کا قانون پاس کیا تھا، اس میں صرف بابری مسجد کو باہر رکھا گیا تھا۔ مگر اب عدالتوں کو کہنا ہے کہ یہ قانون گو کہ موجودہ پوزیشن کو جوں کا توں رکھنے کی بات کرتا ہے، مگر یہ مسجد کسی اور عمارت یا عبادت گا ہ کے اوپر بنی ہے، اس کا فیصلہ کرنے یا تجزیہ کرنے سے نہیں روکتا ہے۔ ویسے اس پورے قانون کو سپریم کورٹ میںچیلنج کیا گیا ہے اور اس پر جلدیا بدیر کوئی فیصلہ آہی جائیگا۔ اور جس طرح کا فیصلہ بابری مسجد کے سلسلے میں آیا، اس کے بعد عدالت سے کس طرح کی توقع کرسکتے ہیں۔
بشکریہ روزنامہ 92