انتخابات کے بعد رولا ہی رولا : تحریر انصار عباسی


8فروری کے انتخابات سے امید تو یہ تھی کہ سیاسی اور معاشی استحکام کی طرف ایک اہم قدم ہو گا لیکن معاملہ تو کچھ اور ہی نظر آ رہا ہے۔ جوں جوں انتخابات کا وقت قریب آ رہا ہے یہ خوف بڑھتا جا رہا ہے کہ پاکستان کا کیا بنے گا؟ یہ رائے عام سننے میں مل رہی ہے کہ جن حالات میں اور جس انداز میں انتخابات کرائے جا رہے ہیں اُس کے نتیجے میں پاکستان میں سیاسی عدم استحکام بڑھے گا اور اگر سیاسی عدم استحکام بڑھتا ہے تو اُس سے معاشی عدم استحکام بھی بڑھے گا۔ اس وقت ہمارے سامنے انتخابات کے حوالے سے دو صورتیں نظر آ رہی ہیں۔ اگر انتخابات صاف شفاف انداز میں کروائے جاتے ہیں تو ممکنہ طور پر 9مئی والے اقتدار میں آ جائیں گے اور اگر انتخابات موجودہ انداز میں ’’آزادانہ‘‘ کروائے جاتے ہیں تو شاید پاکستان کی تاریخ کے سب سے زیادہ انجینئرڈ انتخابات ہوں گے، جس میں اکثریت کو اقلیت اور اقلیت کو اکثریت میں بدل دیا جائے گا ۔ 9مئی والے کون ہیں؟ اُنہوں نے کس پر حملہ کیا تھا؟ وہ کیسا اور کس کے خلاف انقلاب لانا چاہتے تھے؟ وہ کس ادارے کو اپریل 2022سے، جب عمران خان کی حکومت کا خاتمہ ہوا، اپنے نشانہ پر رکھے ہوئے ہیں؟ ان سوالوں کے جواب سب کو معلوم ہیں۔ تحریک انصاف کےچیئرمین بیرسٹر گوہر علی خان کا کہنا ہے کہ اُن کی جماعت کی قیادت کا فیصلہ ہے کہ الیکشن جیتنے کے بعد وہ کسی سے نہ کوئی انتقام لیں گے نہ ہی کسی ادارےسے لڑائی لڑیں گے۔ ہو سکتا ہے کہ عمران خان کا بھی یہی فیصلہ ہو لیکن تحریک انصاف کے انتخابات جیتنے کی صورت میں فوری طور پر پی ٹی آئی کا سوشل میڈیا کیا ٹرینڈ چلائے گا؟ کس کس کو نشانے پر رکھے گا؟ نئی حکومت سے کیا مطالبے کرے گا؟ اس کے ساتھ ساتھ پاکستانی اور بین الاقوامی میڈیا کیا تحریک انصاف اور عمران خان کو اُن کا فوج اور فوج کی قیادت سے متعلق ماضی کا ایک ایک بیان اور الزام یاد نہیں دلائیں گے؟ اس سب کے ملک کے سیاسی و معاشی حالات پر کیا اثرات ہوں گے۔ اگر عمران خان واقعی بدل گئے ہوں اور تحریک انصاف کے ووٹروں، سپوٹروں اور پی ٹی آئی کے سوشل میڈیا کی اداروں سے نفرت ختم بھی ہو گئی ہو تو دوسری طرف جن پر 9مئی کے حملے ہوئے کیا وہ 9مئی کو بھلا دیں گے؟ کیا وہ فوجی تنصیبات اور شہداء کی یادگاروں کی بے حرمتی کرنے والوں اور جن کو وہ منصوبہ ساز اور ماسٹر مائنڈ کہتے ہیں ،اُن سب کو گلے لگا لیں گے؟ یہ وہ معاملہ ہے جس پربہت پہلے سوچ بچار ہونی چاہیے تھی،9مئی میں ملوث افراد اور باقی تحریک انصاف کے درمیان ایک واضح لکیر کھینچی جانی چاہیے تھی، معافی تلافی کے رستے نکالنے چاہیے تھے لیکن ایسا کچھ نہیں ہوا۔ اور اب جن حالات کا ہمیں سامنا ہے وہ بھی ایسے ہیں کہ انتخابات کے بعد کیا ہو گا یہ سوچ کر پاکستان کے بارے میں فکر ہوتی ہے۔ جس ’’آزاد‘‘ انداز میں اس وقت انتخابات کروائے جا رہے ہیں اُس پر پہلے ہی سوال اُٹھنا شروع ہو گئے ہیں اور یہ کہا جا رہا ہے کہ شاید ملک کی تاریخ کے یہ سب سے بڑے انجینئرڈ الیکشن ہوں گے۔ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ انتخابات کے جھنجھٹ میں پڑنے کی کیا ضرورت ہے، قوم کے پچاس ارب روپے ضائع کرنے کی بھی کیا ضرورت ہے، سیدھا سیدھا جسے وزیراعظم بنانا چاہتے ہیں اُس کا نوٹیفیکیشن جاری کر دیں۔ تحریک انصاف کے مطابق اُن کے 90فیصد رہنماؤں کے کاغذات نامزدگی مسترد کر دیے گئے ہیں۔تحریک انصاف کا بلے کا نشان رہے گا یا نہیں اس پر بھی ابھی کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ 8 فروری تک تحریک انصاف کو الیکشن میں اور کون کون سی مشکلات کا سامنا ہو گا اس بارے میں اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ جو بھی ہو، تحریک انصاف جتنی بھی مقبول ہو، اُسے انتخابات نہیں جیتنے دیا جائیگا۔ اب ایسے انتخابات کے نتیجے میں ن لیگ اور دوسری جماعتیں ممکنہ طور پر حکومت بنائیں گی لیکن ایسی حکومت جو اتنے متنازع انتخابات کے نتیجے میں وجود میں آئے گی توکیا وہ ملک میں سیاسی استحکام کا موجب بن سکے گی؟ آگے تو رولا ہی رولا نظر آرہا ہے۔

بشکریہ روزنامہ جنگ