مکافات نگر
اسٹیبلشمنٹ ججز کالونی
مائی ڈیئر قاضی القضاۃ!
السلام علیکم!آپ میرا خط دیکھ کر حیران تو ہوں گے کیونکہ میرا نہ تو آپ سے نظریاتی رشتہ ہے اور نہ ہی کوئی ذاتی تعلق۔میرے خط لکھنے کا مقصد آپ سے اپنے تجربات کو شیئر کرنا ہے۔ آج جس Catch22سے آپ گزر رہے ہیں، اسی سے میں بھی گزرا تھا ایک طرف گہری کھائی تھی تو دوسری طرف گہرا سمندر۔ اگر میں مولوی تمیز الدین کے حق میں فیصلہ دے کر اسمبلی بحال کردیتا تو اسٹیبلشمنٹ پی سی او لگا کر عدلیہ کی چھٹی کروا دیتی اور جوتھوڑا بہت انصاف عوام کو مل رہا ہے وہ بھی ختم ہو جاتا۔ میں نے بہت سوچا اور پھر یہی فیصلہ کیا کہ ریاست کا ساتھ دیا جائے ، سیاست تو آنی جانی چیز ہے کبھی ٹھیک اور کبھی خراب ہو جاتی ہے، ریاست کو کچھ ہوا تو پھر سب کچھ چلا جائے گا۔
یہاں میں یہ بھی بتاتاچلوں کہ مکافات نگر میں قائد اعظم، ذوالفقار علی بھٹو اور بے نظیر بھٹو نے اسٹیبلشمنٹ ججز کالونی کابائیکاٹ کر رکھا ہے البتہ ایوب خان، یحییٰ خان اور جنرل ضیاالحق اکثر ہماری کالونی میں آتے رہتے ہیں۔ جنرل ضیا الحق، جسٹس انوار الحق اور مولوی مشتاق سے عدالت خداوندی میں دائر ذوالفقار علی بھٹو کی درخواستوں کے بارے میں قانونی مشورے کرتے رہتے ہیں، ابھی پچھلے دنوں جنرل مشرف اور شریف الدین پیرزادہ اکٹھے دیکھے گئے ۔ ہم نے جناح صاحب کو معافی کی کئی درخواستیں بھیجیں مگر وہ نہ ہمیں ملنےپر راضی ہیں نہ ہی ہمارا موقف سننے کو تیار ہیں۔ دراصل ذوالفقارعلی بھٹو نے اسٹیبلشمنٹ کے حامی ججز کے بارے میں انہیں بھر رکھا ہے۔ بے نظیر بھی جب سے مکافات نگر آئی ہیں وہ بار باریہ تقریر کرتی ہیں کہ اس کالونی کے رہنے والے جج چمک کا شکار ہوگئے تھے اور یہی تضادستان کے زوال کے ذمہ دار ہیں۔ کلثوم نواز شریف کی آج کل فاطمہ جناح سے گاڑھی چھن رہی ہے۔ عمران خان کی والدہ شوکت خانم اور ان کے شوہر بھی کئی بار جناح صاحب سے ملنے آئے ہیں، ہمیں اہل سیاست کی خبریں ملتی رہتی ہیں، ہوسکتا ہے کہ انہیں بھی ہماری خبریں ملتی ہوں۔
مائی ڈیئر!
آپ مجھ سے بہت سال جونیئر ہیں آپ کا نقطہ نظر بھی مجھ سے مختلف ہے مگر مجھے جوخبریں مل رہی ہیں وہ بڑی پریشان کن ہیں۔؎
تری بربادیوں کے مشورے ہیں آسمانوں میں
کیچ 22 یہ ہے کہ آپ کھلاڑی خان کو ریلیف دیتے ہیں حتیٰ کہ اسے رہا کرکے الیکشن میں حصہ لینے کا موقع بھی دے دیتے ہیں، وہ اقتدار میں بھی آ جاتا ہے تو پھر کیا ہوگا؟اس کی فوج سے لڑائی ہوگی، عدلیہ سے کش مکش ہوگی، میڈیا سے وہ بدلے لےگا، مخالف سیاست دانوں کو پھر جیل بھیجے گا۔ میرا آپ سے سوال یہ ہے کہ کیا آپ اس کو ریلیف دے کر یہ سب کروانا چاہتے ہیں؟ میرا نہیں خیال کہ آپ ایسا چاہتے ہیں مگر آپ کےفیصلے ریاست کو اسی طرف دھکیل رہے ہیں، مجھے علم ہے کہ آپ کہیں گے کہ آئین اور جمہوریت اہم ہیں، ماضی کے ججوں نےبھی یہی غلطی کی اور آج قوم اس کے نتائج بھگت رہی ہے مگر آپ لوگ یہ بھول جاتے ہیں کہ اگر میں نظریہ ضرورت کو مدنظر نہ رکھتا تو فوج اور عدلیہ کی لڑائی ہو جاتی، سپریم کورٹ پر ٹینک چڑھا دیئے جاتے، جنرل ضیا الحق دور کے چیف الیکشن کمیشن جسٹس ایس اے نصرت جنہوں نے ریفرنڈم اور 1985ء کا غیر جماعتی الیکشن کروایا تھا وہ بھی ہماری کالونی میں رہتے ہیں، وہ کہتے ہیں کہ اگر ججز مارشل لا کو جائز قرار نہ دیتے، ریفرنڈم میں جنرل ضیا کو نہ جتواتے تو فوجی ٹینک سپریم کورٹ پرقبضہ کرلیتے۔ آپ کو خط لکھنے کا مقصد بھی یہ ہے کہ آپ صورتحال کی سنگینی کا احساس کریں، اگر آپ کے فیصلوں کی وجہ سے پی سی او آگیا یا مارشل لا لگ گیا تو کل کلاں آپ ہی کو اس بحران کا ذمہ دار ٹھہرایا جائے گا۔
ڈیئر قاضی القضاۃ صاحب!
مجھے علم ہے کہ آپ کا نقطہ نظر مجھ سے مختلف ہے آپ کے خیال میں ججز کو آئین کے تحت انصاف دینا ہےEven if the heavens fall ۔ مگر ہم اسٹیبلشمنٹ ججز کی رائے دوسری ہے ،ہم ریاست کے مفادات کو مقدم سمجھتے ہیں، سیاستدان اور جمہوری وکلا یاآزاد میڈیاہمیں لاکھ برا بھلا کہیں تاریخ میں ہمارا نام چاہے سیاہ حروف میں لکھا جائے مگر ہم نے ریاست کو بچانے کی کوشش کی ہے۔ اگر آپکے فیصلو ںکی وجہ سے ریاست کو کچھ ہوا یا جمہوری بساط لپیٹ دی گئی تو کیا آپ اس کی ذمہ داری سے بچ پائیں گے؟
مکافات نگر میں آپ لوگوں کا ایک فیصلہ زیر بحث ہے کہ کس طرح آپ نے بغاوت میں ملوث شخص کو الیکشن ٹکٹوں کے بارے میں مشورے دینے کی اجازت دی، کیا یہ بیل کو سرخ کپڑا دکھانے کے مانند نہیں ہے؟ آپ تو ریاست کو بھڑکا رہے ہیں، آپ کو صرف فیصلے نہیں دینے چاہئیں ان کے نتائج پر بھی نظر رکھنی ہوگی اگر ایسا نہ کیا تو یہ نظام چل نہیں سکے گا۔
اگر آپ کو ریاستی مفاد والی دلیل سمجھ نہیں آتی تو کم از کم ذاتی مفاد اور عدلیہ کے وجود کا ہی خیال کریں،اگر نیا پی سی او آگیا تو سب جج نوکری سے فارغ ہو جائیں گے، آزاد عدلیہ کا نظریہ بھی فارغ ہو جائے گا، آج اگر تھوڑا بہت انصاف مل رہا ہے تو وہ بھی ختم ہو جائے گا۔ ایڈونچر کے نتائج خطرناک ہوتے ہیں، دوسری طرف ذاتی مفاد بھی دیکھیں ہم سب ججوں کے بچے آج اچھی پوزیشنز پر ہیں، اسٹیبلشمنٹ مخالف ججوں کو ہیرو کا درجہ تو مل گیا مگر نہ ان کے پاس دولت ہے ،نہ بڑے بڑے گھر ہیں، نہ ان کو ججی کے بعد کوئی ایڈوائزری ملی اور نہ ہی کوئی مراعات میسر آئیں۔ آپ کو اپنا خیال نہیں ہے تو اپنے بیوی بچوں کا ہی خیال کریں۔
ڈیئر جج صاحب!
آخر میں گزارش یہ ہے کہ ہمیں جنت ملے نہ ملے، ہمیں دنیا میں دنیاوی فائدے بہت ملے، آپ ریاست کی خاطر، دنیاوی فوائد کی خاطر اور ملکی استحکام کی خاطر اپنے فیصلے سوچ سمجھ کر کریں، آئینی طور پر فیصلے درست بھی ہوں لیکن کل کو اگر ان پر عمل نہ ہوا تو پھر کیا کریں گے؟ ججوں کے پاس کونسی فوج یا پولیس ہے جو ان کے احکامات پر عملدرآمد کروائے، ججز نے بغاوت جنم نہیں دینا ہوتی،بغاوت ہوگئی تو ججز کی کون مانے گا؟ کچھ ایسا کریں کہ تحریک انصاف کو موقع بھی مل جائے، انتخابات بھی ہو جائیں، مقتدرہ کوبھی اس قدر ناراض نہ کریں کہ سب کچھ ہی ختم ہو جائے۔ آپ کا امتحان ہے کہ آپ اس سے سرخرو ہو کر کیسے نکلتے ہیں۔ ہم اسٹیبلشمنٹ ججز تو معتوب ہیں ہی دیکھنا یہ ہے کہ آپ جیسے جمہوری جج کیچ 22 سے کیسے نکلتے ہیں۔ ہم نےتو اپنا وقت اچھا گزار لیا ،کیا آپ بھی گزار سکیں گے…؟
خیر اندیش …جسٹس منیر حال مقیم مکافات نگر۔
بشکریہ روزنامہ جنگ