عقاب صفت سفارت کاری کے نتائج … تحریر : وجاہت مسعود


مکرمی نصرت جاوید اس بندہ کم مایہ ہی کے استاد نہیں، ان گنت پاکستانی صحافیوں کے لئے پیشہ ورانہ مہارت، بے خوف خبر رسانی اور ذہنی دیانت جیسے اصولوں کی استقلال کے ساتھ پاس داری پر روشنی دکھانے والوں میں شمار ہوتے ہیں۔ ان کے اخباری کالم کا بالاستیعاب مطالعہ قومی معاملات کی تفہیم کے لئے ایک مسلسل درس کا درجہ رکھتا ہے۔ سفارتی زبان کی باریکیوں پر گہری نظر رکھتے ہیں۔ مثلا جس صورت حال کو ایک نوآموز صحافی گمبھیر کے دو ٹوک لفظ میں نمٹا دیتا ہے، نصرت جاوید وہاں ایک پہلو دار لفظ دلچسپ استعمال کرتے ہیں۔ گویا خبر کی تاریک غلام گردشوں میں بکف چراغ دارد کی چابک دستی سے کام لیتے ہیں۔ میری کوتاہ قسمتی کہ سابق سیکرٹری خارجہ ریاض کھوکھر پر نصرت جاوید کے تعزیتی کالم سے کچھ ایسا تاثر ملا کہ استاد گرامی غالبا دوست نوازی کا شکار ہو گئے۔

عزیز احمد سے آغا شاہی اور شمشاد احمد سے ریاض کھوکھر تک ہمارے عقاب صفت خارجہ سیکرٹریوں کی ایک طویل فہرست موجود ہے۔ خارجہ پالیسی میں ہمارے کلیدی سوالات امریکا اور بھارت سے متعلق رہے ہیں۔ ان دونوں ممالک سے ہمارے تعلقات کا ملک کے داخلی اقتدار کی نوعیت سے گہرا تعلق رہا ہے۔ پاکستان کے اقتدار کے دو متوازی دھاروں یعنی جمہوری بندوبست اور تحکمانہ آمریت میں کشمکش ان دو ممالک سے تعلقات ہی سے متشکل ہوتی رہی ہے۔ تاریخ بتاتی ہے کہ عقاب صفت سفارت کار وسیع تر قومی مفاد کے نام پر جمہور دشمن بندوبست کے حامی رہے ہیں چنانچہ ملکی معیشت کی تحدیدات، وفاقی اکائیوں کے باہم نازک تعلق اور عوام کے معیار زندگی کی قیمت پر ایسی پالیسیوں کے موید رہے ہیں جنہوں نے ہر اہم موقع پر خارجہ ناکامی کی راہ ہموار کی اور داخلی انتشار کو ہوا دی۔ نتیجہ یہ کہ ہمارا ملک عالمی منظر پر اپنی ساکھ سے محروم ہو چکا۔ بین الاقوامی تعاون کے بغیر ملکی معیشت کو پیداواری نمونے پر استوار کرنا ممکن نہیں رہا۔ ہمارے جس رہنما نے نعرے بازی کی بجائے حقیقت پسندی اختیار کرنا چاہی، اسے بے دست و پا کر دیا گیا۔ مئی 1950 میں لیاقت علی خان نے دورہ امریکا میں کھل کر سرمایہ دار بلاک کی حمایت کا اعلان کیا تھا۔ اڑچن صرف یہ تھی کہ وہ کمیونزم کے خلاف فریق بننے کے عوض پاکستان کی سلامتی کی ضمانت چاہتے تھے۔ درون خانہ لیاقت علی خان کے جمہوریت سے یک گونہ نفور، ریاستی اہلکاروں کے روز افزوں رسوخ اور کمزور ہوتے وفاق نے بحران اور حادثے کی تمثیل سے پردہ اٹھا دیا تھا۔ لیاقت علی خان قتل کیے گئے۔ غلام محمد، اسکندر مرزا اور ایوب خان کی ٹرائیکا نے نوآزاد مملکت پر نادیدہ تسلط کی دبیز چادر ڈال دی۔ پاکستان بھارت سے تحفظ کی ضمانت لیے بغیر سیٹو اور سینٹو میں شامل ہوا۔ بھٹو اور عزیز احمد نے آپریشن جبرالٹر نامی مہم جوئی کی تو ہمارے حصے میں فوجی ہزیمت ہی نہیں آئی، ملک کے دونوں حصوں میں دفاعی اعتماد کا دھاگا بھی ٹوٹ گیا۔ مشرقی پاکستان کا دفاع مغربی پاکستان میں کرنے کی ناقص پالیسی دسمبر 1971میں اوندھے منہ آن گری۔ اس ملبے میں خود فریبی کی وہ لوح بھی دفن ہو گئی کہ مذہب کا دھاگہ وفاق پاکستان کا ضامن ہے۔ ریٹائرڈ سیکرٹری خارجہ عزیز احمد کو وزارت خارجہ سونپنے کا مطلب یہ تھا کہ بھٹو صاحب نے قومی تعمیر کی بجائے اشتراکی نعرے بازی، بیرونی سازشوں کے سچے جھوٹے بیان اور عسکری طاقت میں اضافے کی تین کشتیوں میں بیک وقت آگے بڑھنے کا فیصلہ کیا تھا۔ ستم ظریفی ہے کہ جمہور دوست لیکن قومیتی شناخت کی علمبردار سیاسی قوتوں کو دیوار سے لگا کر بھٹو صاحب نے پاکستان کے گلے میں افغان تنازع کا بھاری پتھر باندھ دیا۔ دھواں دھار خطابت پائیدار معیشت اور مشمولہ جمہوری عمل کی متبادل نہیں ہوتی۔ شاید راولپنڈی جیل میں بھٹو صاحب کو کھوکھلے نعرے اور قومی تعمیر کے جمہوری نمونے میں فرق سمجھ آ گیا ہو لیکن ان کی معاندانہ افغان پالیسی کا حقیقی فائدہ ضیا آمریت کو پہنچا۔ افغان جہاد کی اوٹ میں جنرل ضیا ایٹمی صلاحیت، بھارتی پنجاب میں شورش اور جہادی جنگجوئوں کی مقبوضہ کشمیر میں مداخلت کی منصوبہ سازی کرتے رہے۔ آغا شاہی اور صاحبزادہ یعقوب خان جنرل ضیا کا سفارتی چہرہ تھے۔ افغان جہاد میں کامیابی امریکا کی زنبیل میں جمع ہوئی اور پاکستان کے حصے میں ناقابل رشک عالمی تنہائی آئی۔ سوچنا چاہیے کہ 90 کی دہائی میں مشرقی اور مغربی سرحد پر مذہبی انتہا پسندی کی سرپرستی پاکستان کے ناتواں جمہوری تجربے کے خلاف سازش تو نہیں تھی۔ کارگل، قندھار طیارہ اغوا اور نائن الیون کے نتیجے میں پاکستان کو کیا ملا۔ غلام اسحاق خان کہتے تھے کہ جسے میں بطخ کہوں، وہ بطخ ہوتی ہے۔ بدقسمتی سے دنیا بطخ پہچاننے کیلئے غلام اسحاق، شمشاد احمد اور ریاض کھوکھر جیسے کرداروں سے مشورہ نہیں کرتی۔ خارجہ پالیسی ملک کے جمہوری استحکام اور معاشی حجم سے متعین ہوتی ہے۔ ہمیں غلط فہمی رہی ہے کہ خارجہ مفادات سفارتی مذاکرات کی میز پر طے ہوتے ہیں۔ ایسے مفادات کا توازن معاشی اور علمی طاقت سے طے پاتا ہے۔ خبر ہو کہ رواں برس بھارت کا جی ڈی پی پونے چار کھرب ڈالر پہ جا پہنچا ہے۔ بھارت کی اسٹاک ایکسچینج 3.9 کھرب ڈالر کا حجم حاصل کر کے دنیا میں چوتھے نمبر پر آ گئی ہے۔ ہمارے دانشور آج بھی مقبولیت اور قبولیت کی مبہم لیکن دراصل گمراہ کن اصطلاحات کے اسیر ہیں۔ اگر آئندہ انتخابات کے نتائج مقبولیت اور قبولیت کے امتزاج ہی سے طے پانا ہیں تو جس سفارتی وقار کا خواب محترم نصرت جاوید اپنے دیرینہ دوست ریاض کھوکھر کی یادوں میں ڈھونڈ رہے ہیں وہاں انہیں تہہ در تہہ ایسی ٹھنڈی راکھ ملے گی جو اخباری کالم، سیاسی بیان نیز ہر برس جنرل اسمبلی میں ایک پرشکوہ تقریر کے کام تو آ سکتی ہے لیکن اس سے کارخانے کا پہیہ گردش میں آتا ہے اور نہ درس گاہوں میں انسانی سرمایہ پیدا ہوتا ہے۔ بیرونی سرمایہ کار ہماری زمینوں کا رخ کرتا ہے اور نہ غیر ملکی سیاحوں کو ہماری سرسبز وادیوں کا رخ کرنے کی ترغیب ملتی ہے۔ عقاب صفت سفارت کاری اسلام آباد کے جی ایٹ سیکٹر قبرستان میں ایک اور سنگ مزار بڑھا دیتی ہے جس پر پرشکوہ لفظوں میں ہماری اجتماعی ناکامی رقم ہوتی ہے۔ قبروں پر بالآخر گھاس اگ آتی ہے اور تاریخ کے صفحات پر دھواں پھیل جاتا ہے۔ ٹھیک اسی طرح جیسے ان دنوں لاہور کے آسمان پر دھند نے چھاؤنی ڈال رکھی ہے۔

بشکریہ روزنامہ جنگ