مجھے میرے اللہ تعالیٰ نے اشرف المخلوقات بنایا اور گواہ بنایا اپنے مختلف رازوں کا۔
میرے فوٹوگرافی کے شوق کے ذریعے اللہ تعالیٰ نے مجھ پر بہت سے راز کھولے اپنی کائنات کے۔
میں کوشش کروں گا ان میں سے چند ایک کا آپ سے ذکر کروں۔
ھلینی آئل فیلڈ نزد کالا باغ میں فوٹوگرافی کرنے پہنچا وہ پاکستان کے گہرے ترین تیل کے کنوئے کیلئے ڈرلنگ جاری تھی۔ جس کی گہرائی تقریباً 5750 میٹر تھی۔ جاننے کا مجھے بہت شوق ہے اور جاننے کیلئے میں بہت سے سوالات کرتا ہوں۔ میرا سوال تھا کہ جب اتنی گہرائی تک آپ پہنچ جائیں گے تو تیل باہر کیسے آئے گا۔ وہ انجینئر مسکرائے اور کہنے لگے سر پھر تیل کو نکالنا نہیں روکنا ہوتا ہے۔ میں نے کیا مطلب ۔ کہنے لگا یہ ایک والوز کا ٹری پڑا ہے جسکو ہم کرسمس ٹری کہتے ہیں جیسے ہی ہماری پہنچ تیل تک ہوگی تو بہت تیزرفتاری سے تیل زمین سے باہر آنا شروع ہو جائے گا ۔ ہمیں فورا اس کو روکنے کیلئے اس پر اس کرسمس ٹری کو لگانا پڑے گا تاکہ تیل کے بہاؤ کو روک سکیں۔ ورنہ اس کو روکنا ممکن نہیں ہوگا۔ سبحان اللہ میرے اللہ ہمیں کیسے نوازتے ہیں اور ہم ہیں کے اس کی نعمتوں کا شکر ادا نہیں کرسکتے۔ آپ خود سوچیں چھ کلومیٹر کی گہرائی سے تیل کو باہر لانے کیلئے کتنی طاقتور موٹریں چاہیں ہوگی۔پر میرا اللہ ہی ہے جو سب کا خیال رکھتا ہے۔
میں جب فوٹوگرافی کے سلسلے میں ڈھرکی گیا تو یہ جان کر حیرانی ہوئی کہ وہاں سے نکلنے والی گیس آگ نہیں پکڑتی۔ میرے لیے یہ ایک حیران کن بات تھی۔ کہ گیس ہو اور اس کو آگ نہ لگے۔ ملک اعجاز صاحب ماڑی پیٹرولیم کے ہیڈ تھے انکا ہی میں مہمان تھا۔ میں نے عادتاً سوال کرنے شروع کردیے ۔ وہ بتانے لگے جب ڈھرکی میں گیس کے وسیع ذخائر ملے تو ہم بہت خوش ہوئے لیکن حیرانی کی بات تھی گیس کو آگ نہیں لگتی تھی۔ ہم نے دنیا کی مختلف لیبز میں گیس کے نمونے بھیجے تو پتہ چلا یہ گیس کے ذخائر یوریا کھاد بنانے میں استعمال ہوتے ہیں اور ان کا چولہے میں استعمال ہونے والی گیس کی نسبت بی ٹی یو (برٹش تھرمل یونٹ) کم ہے ۔ یہ تقریبا 500 سے 600 بی ٹی یو کی گیس ہے۔ جو گیس چولہے کیلئے استعمال ہوتی ہے وہ 900 سے 1300 بی ٹی یو ہوتی ہے۔
میں تو اللہ تعالیٰ کی شان اور کرم نوازی دیکھ کر سجدے میں پڑ گیا۔ کہ میرے اللہ آنے والے وقتوں کی ضروریات کو مدنظر رکھتے ہوئے ہمیں ہر طرح کی گیس مہیا کررہے ہیں۔ آپ غور کریں گے تو آپ کو کھاد کی زیادہ تر فیکٹریاں ڈھرکی میں ہی ملیں گی۔
حیدر رفیق بھائی کیپٹل گروپ کو دیکھتے ہیں۔ ان کے پراجیکٹ کی فوٹوگرافی تقریباً تیس سال سے میں ہی کرتا ہو۔
حطار میں ان کی ایک فرنس کی فوٹوگرافی کرنی تھی۔ غالباً بارہ ٹن کی فرنس تھی جس کا اندرونی درجہ حرارت تقریباً 1600سینٹی گریٹ تھا۔ اسکی تصاویر بنانی تھیں رات دو بجے فوٹوگرافی کی۔ ایک تصویر بنانے کے بعد ٹھنڈی جگہ آرام کرنا پڑتا ہے۔ ورنہ جسم کے ریڈ سیلز کے جلنے کا اندیشہ ہوتا ہے ۔ اس کے اس کی بلٹ بنتی ہے جس کا درجہ حرارت تقریباً 1200 سے 1400 سینٹی گریڈ تک ہوتا ہے۔ اس کے بعد یہ بلٹ بھٹی میں دوبارہ گرم کی جاتی ہے اور 1200 سینٹی گریڈ پر اس کو 40 اور 60 گریڈ کے سریا بنانے کیلئے سریے کی ڈائیوں کے ذریعے گزارا جاتا ہے۔ سریا بننے کے بعد ایک ھائیڈرالک مشین سے پریشر دے کر سریے کو تھوڑا جاتا ہے جس سے اسکی مضبوطی کا اندازہ ہوتا ہے اور 40 اور 60 گریڈ کی مضبوطی کا ٹیگ لگایا جاتا ہے۔
ہم عام زندگی میں چالیس اور پچاس سینٹی گریڈ ٹمپریچر پر بلبلا اٹھتے ہیں۔ ذرا سوچیے ان انسانوں کو جو 1600 سینٹی گریڈ درجہ حرارت پر کام کرتے ہیں اور آپ کے محلوں کیلئے سریا بناتے ہیں۔
یہ میرے اللہ ہی ہیں جو ان سب چیزوں کو مسخر کرنے کی ہمیں عقل عطا کرتے ہیں ۔
گواہیاں بہت زیادہ ہیں پر مضمون لمبا ہو جائے گا پھر کسی دن لکھوں گا کہ میں اور کن کن چیزوں کا گواہ ہوں بقلم خود۔
یہ میرے اللہ ہی ہیں جنہوں نے مجھے چشم دید گواہ بنایا۔
بے شک میں اس گواہی کے قابل نہیں تھا۔
Load/Hide Comments