عدلیہ کی طرف سے حالیہ دنوں میں دیے گئے دو فیصلوں نے تحریک انصاف کیلئے بوسٹر کا کردار ادا کیا۔ ویسے تو تحریک انصاف کو ابھی تک الیکشن کا میدان یعنی لیول پلئنگ فیلڈ میسر نہیں اور دوسری جماعتوں کے برعکس پی ٹی آئی کو جلسے جلوس اور کارنر میٹنگز کرنے میں بھی مشکلات کا سامنا ہے۔تاہم سپریم کورٹ نے پہلے سائفرسے متعلق جو فیصلہ کیا اُس نے تحریک انصاف کی قیادت اور ورکرز کی انتخابات سے جڑی امیدوں کو بڑھا دیا۔ حکومت کو اس فیصلے سے کافی مایوسی ہوئی جبکہ ن لیگ اور پیپلز پارٹی بھی سپریم کورٹ کے اس فیصلے سے نالاں نظر آئیں۔ سائفر کے متعلق سپریم کورٹ کے فیصلےکے چند گھنٹوں بعد الیکشن کمیشن نے تحریک انصاف سے انٹرا پارٹی الیکشن کے کیس میں بلے کا نشان واپس لینے کا حکم نامہ جاری کر دیا۔ اس فیصلے کو عمومی طور پر ایک سخت فیصلے کے طور پر دیکھا گیا اور یہ امید ظاہر کی گئی کہ اعلیٰ عدلیہ الیکشن کمیشن کے اس فیصلہ کو ریورس کر دے گی۔ گزشتہ روز تحریک انصاف کی درخواست پر پشاور ہائی کورٹ نے ایسا ہی کیا اور الیکشن کمیشن کے بلے کے نشان کا تحریک انصاف سے واپس لینے کے فیصلے کے خلاف حکم امتناع جاری کر دیا۔ کچھ عرصہ سے کہا جا رہا تھا کہ بلے کا نشان ممکنہ طور پر بیلٹ پیپر پر نہیں ہو گا لیکن جن بنیادوں پر بلے کا نشان تحریک انصاف سے واپس لیا گیا اُس کی ٹائمنگ اور فیصلہ کی نوعیت پر کئی سوال اٹھنے لگے۔ اگرچہ الیکشن کمیشن کے فیصلے سے تحریک انصاف کے اندر ایک مایوسی کی سی صورت حال پیدا ہوئی پر پشاور ہائی کورٹ کے فیصلہ نے تحریک انصاف کو بلے کا نشان واپس دے کر پی ٹی آئی کے رہنماؤں اور ورکرز میں ایک نیا جوش اور ولولہ پیدا کردیا۔ ایک ایسی صورتحال میںجہاں ن لیگ تمام ترریاستی سہولتوں کے باوجود میدان میں کہیں نظر نہیں آ رہی اور شاید یہ امید لگائے بیٹھی ہے کہ اقتدار اُن کو بغیر کچھ کیے تحفے کے طور پر دیا جائے گا، تحریک انصاف کو بلے کا نشان واپس ملنا اور اُن کے کئی کئی ورکرز کی طرف سے کاغذات نامزدگی جمع کروانا پی ٹی آئی کیلئے بڑی کامیابیاں ہیں۔ ابھی الیکشن کوئی چھ ہفتے دور ہیں اور اس دوران دیکھنا یہ ہے کہ تحریک انصاف اپنے آگے والی رکاوٹوں کو کیسے دور کرتی ہے اور ن لیگ پنجاب میں اپنی کھوئی ہوئی سیاسی پوزیشن کی واپسی کے لیے کتنی کامیاب ہوتی ہے۔ لیکن عدلیہ کے حالیہ دو فیصلوں کے بعد سے تحریک انصاف کے متعلق انتخابات میں جس ممکنہ سرپرائز کی بات کی جا رہی تھی اُس میں شاید اضافہ ہوا ہے۔ عمران خان کی اسٹیبلشمنٹ سے لڑائی اور تحریک انصاف کی طرف سے 9 مئی کے فوج پر حملوں کے بعد اپنی مقبولیت کے باوجود عمران خان اور تحریک انصاف کو قبولیت کے نہ ہونے کے چیلنج کا سامنا ہے۔ عمران خان کا انتخابات میں حصہ لینا تو اس وقت تک ممکن نظر نہیں آ رہا اور یہ اسی صورت میں ممکن ہو گا اگر سپریم کورٹ بانی تحریک انصاف کو توشہ خانہ کیس میں مجرم قرار دیا جانا یعنی Conviction کو ختم کر دے اور وہ بھی جتناجلد ممکن ہو کیوں کہ الیکشن شیڈول کی وجہ سے عمران خان کے پاس اپنی نااہلی ختم کروانے کیلئے وقت بھی بہت کم ہے۔تحریک انصاف کی قیادت کا خیال ہے کہ اگر بیلٹ پیپر پر بلے کا نشان ہو گا تو پھر تحریک انصاف کا ووٹر، سپورٹر بھی نکلے گا اور وہ سپرائز جس کی بات کی جا رہی ہے وہ سرپرائز تحریک انصاف 8 فروری 2024 کو ضرور دے گی۔البتہ جس قسم کی لڑائی عمران خان نے مول لی اُس کے تناظر میں ایسا ہوتامشکل نظر آتا ہے لیکن اگر تحریک انصاف کے رہنماؤں کو سرپرائز کے متعلق اتنا یقین ہے تو پھر اُن کو چاہیے کہ قبولیت کیلئےاپنے اختلافات مقتدرہ سے ٹھیک کرے اور ایسے اقدامات اور بیانات سے اجتناب کرے جس سے فوج مخالف تحریک انصاف کے بیانیہ یا تاثر کو تقویت ملتی ہو۔ یہ میں پہلے بھی کہہ چکا اور اب بھی کہہ رہا ہوں کہ اگر تحریک انصاف نے اپنے معاملات ٹھیک نہ کیے اور فوج مخالف تاثر کو ختم نہ کیا تو الیکشن میں سرپرائز کی صورت میں کس قسم کی صورتحال پیدا ہو گی اُس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں۔
بشکریہ روزنامہ جنگ