اسلام آباد(صباح نیوز)چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے بینچ کو دلچسپ صورتحال کاسامنا۔ سوموار کے دورن اس وقت کمرہ عدالت نمبرایک میں دلچسپ صورتحال پیداہو گئی جب ایک ایسے وکیل دلائل دینے روسٹرم پر آگئے جن کو سنائی نہیں دیتا تھا۔ کمرہ عدالت میں موجود ججز سمیت تمام لوگ صورتحال سے محظوظ ہوتے رہے۔ تفصیلات کے مطابق چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں جسٹس امین الدین خان اور جسٹس اطہر من اللہ پرمشتمل تین رکنی بینچ نے ایم ایس اے جے ٹریڈرز راولپنڈی اور ایم ایس گلوبل انٹرپرائززراولپنڈی کی جانب سے دی کلیٹر آف کسٹمز(ایڈجوڈیکیشن) اسلام آباد اوردیگر کے خلاف دائرتین درخواستوں پر سماعت کی۔
دوران سماعت ایم ایس اے جے ٹریڈرز راولپنڈی کی جانب سے ایڈووکیٹ آن ریکارڈ راجہ عبدالغفور نے بطور وکیل سپریم کورٹ دلائل دیئے۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے راجہ عبدالغفور کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ہم آپ کو نظرآرہے ہیں۔ اس پر راجہ عبدالغفور کا کہنا تھا کہ مجھے دو نظرآرہے ہیں۔ چیف جسٹس نے انہیں مخاطب کرتے ہوئے کہا ہم تین ہیں۔ چیف جسٹس نے راجہ عبدالغفور کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ کو سنائی دے رہا ہے۔ اس پر راجہ عبدالغفور کا کہنا تھا کہ مجھے سننے میں مسئلہ آرہا ہے۔ اس پر چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ کیا ہم چیخیں، اتنے سینئر وکیل کے سامنے اتنی اونچی آواز میں بات کرنا اچھا نہیںلگتا۔ چیف جسٹس نے درخواست گزار کو روسٹرم پر بلایا اور کہا وکیل کو سمجھ نہیں آرہی ہم کیسے کیس چلائیں۔
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ درخواست میں کیا لکھا ہے، کیا ہم نے غلطی کردی، نظرثانی درخواست میں دلائل نہیں دے سکتے لکھ کر دینا ہوتا ہے کہ کیا غلطی کردی۔ وکیل کا کہنا تھا کہ کان میں گڑبڑ ہو گئی ہے۔ چیف جسٹس نے وکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ میں لکھ کردے رہا ہوں اس کا جواب دے دیں۔ چیف جسٹس نے پر چی پر سوال لکھ کر وکیل کو بھجوایا اورعدالتی عملے کو کہا کہ انہیں کاغذ پینسل بھی دے دیں۔ اس پر وکیل نے لکھنا شروع کردیا ۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ہمیں لمبا چوڑا جواب لکھنے کا نہیں کہا صرف یہ بتانا تھا کہ فیصلے میں غلطی کی نشاندہی نظرثانی درخواست کے کس پیرے میں کی گئی ہے۔
چیف جسٹس نے وکیل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں کاغذ کا ٹکڑا واپس تو دے دیں جو ہم نے بھجوایا تھا۔ جبکہ دوران سماعت چیف جسٹس کا ایم ایس گلوبل انٹرپرائززراولپنڈی کی جانب سے فرحت نواز لودھی بطور وکیل پیش ہوئے۔ چیف جسٹس کا وکیل کو مخاطب کرتے ہوئے کہنا تھا کہ ہم فیکٹس میں نہیں جائیں گے۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل 2023کے بعد وکیل تبدیل کرنے کی اجازت دے دی گئی ہے اوراس حوالہ سے درخواست دینے کی ضرورت نہیں۔
وکیل کا کہنا تھا کہ کسٹمز ایکٹ کی شق179کے تحت کسی بھی جاری شوکاز نوتس پر 120رو ز میں فیصلہ کرنا ضروری یا پھراس کے بعد متعلقہ اتھارٹی کی منظوری سے زیادہ سے زیادہ فیصلہ کرنے کے وقت میں 60روزکی توسیع ہوسکتی ہے۔وکیل کا کہنا تھا کہ اضافی وقت دینے کے حوالہ سے تحریری طور پر بھی آگاہ کیا جائے گا تاہم میرے کیس میں ایسا نہیں کیا گیا۔ چیف جسٹس نے اس معاملہ پر مدعا علیہ اور اٹارنی جنرل کونوٹس جاری کرتے ہوئے جواب طلب کرلیا۔ جبکہ ایم ایس اے جے ٹریڈرز راولپنڈی کی جانب سے دائر دونظرثانی درخواستیں ناقابل سماعت قراردیتے ہوئے خارج کردیں۔ ZS