ماسٹر مائینڈمرزا تجمل جرال۔۔۔تحریر :مرزا تجمل جرال۔۔۔پیپلز پارٹی،نون لیگ اور پی ٹی آئی،

ہوش سنبھالا تو گھر میں پیپپلز پارٹی کو موجود پایا۔۔کچھ بھٹو سے وابستگی اور کچھ علاقائی دھڑے بندی کے باعث، بڑے بھائی جان ایک سرکاری ملازم ہونے کے باوجود پیپلز پارٹی کی مقامی تنظیم کا نہ صرف حصہ تھے بلکہ ایک فعال کارکن بھی تھے،البتہ خود ھم کبھی بھی شعوری طور پر اس تنظیم کا حصہ نہیں رہے، بلکہ اگر یوں کہیں کہ سن شعور کو پہنچتے ہی ہمارے راستے اس سے الگ ہو چکے تھے تو زیادہ مناسب ہوگا،
یہ تقریبا پچاسی عیسوی کے غیر جماعتی انتخابات کے بعد کی بات ھے کہ ھم نے بھی سیاست میں تھوڑی بہت دلچسپی لینی اور سیاسی جماعتوں کی الف ،ب کو پڑھنا شروع کردیا تھا،
اسی عرصے میں ہمیں معلوم ہوا کہ جنرل ضیاءالحق کے مارشل لاء کے دوران بارہا یہ کوشش کی گئی کہ کسی طرح ذوالفقار علی بھٹو مان جائے تو اسے ملک بدر کردیا جائے،لیکن مقتدر قوتوں کی اس کوشش اور خواہش کے برعکس ذوالفقار علی بھٹو نے ملک چھوڑنے پر پھانسی چڑھ جانے کو ترجیح دی،
یقیناً اس عرصہ محشر میں بہت سے ایسے لوگ بھی تھے جنہوں نے مقتدرہ کے آستانے پر سجدہ ریز ہوکر جان کی امان بھی پالی لیکن یہ حقیقت بھی اپنی جگہ ھے کہ ہزاروں لوگ ایسے بھی تھے جنہوں نے بھٹو اور پارٹی سے بے وفائی کر کے امان پانے کی بجائے جیل جانے،کوڑے کھانے اور جان تک کی بازی لگانے کو لیڈر سے وفاداری کا تقاضا سمجھا اور نبھایا بھی۔۔۔
بعد ازاں بےنظیر بھٹو کا جلاوطنی ختم کر کے واپس آنا اور پھر سیاسی کامیابیوں کے ساتھ عنان اقتدار سنبھالنا اس بات کا ثبوت ھے کہ ان کی پارٹی اور بھٹو کے چاہنے والوں کی ایک بڑی تعداد اس نظریے اور فلسفے پر بہر حال قائم رہی،،
اسی سیاسی عمل کے دوران پاکستان مسلم لیگ نون ، بھی وجود میں آئی لیکن یہ منظر بھی کسی سے ڈھکا چھپا نہیں کہ کہ میاں نواز شریف کے اقتدار سے محروم ہو کر اٹک جیل میں پہنچنے تک اس کا ایک بڑا حصہ قاف لیگ بن چکاتھا،
بعد ازاں ایک جلسے میں جس کا برملا اظہار میاں صاحب نے ایک دفعہ کربھی دیا تھا،
پاکستانی سیاست کے اسی طرز کے اتار چڑھاؤ کا ایک منظر آج کل پھر ہماری نظروں کے سامنے ھے،
اور اب کی بار اس منظر نامے پر پی پی اور نون لیگ کی بجائے ایک تیسری تیار کی گئی سیاسی قیادت اور اجتماعیت ھے،جی ہاں اس وقت بھٹو اور نوازشریف کی جگہ عمران خان جیل میں ہیں اور تحریک انصاف نامی ایک پارٹی ان سے جڑی ہوئی ھے۔۔
موصوف بھی ذوالفقار علی بھٹو اور نوازشریف کی طرح ایوان اقتدار کی بالکونیوں سے خوب شناسا ہونے کے بعد ان ہی کی طرح “اپنے لانے والوں سے” سینگ اڑانے کی غلطی کی سزا بھگت رہے ہیں،
ابھی آزمائش کا پہلا مرحلہ یعنی جیل تک پہنچے ہیں تو نصف سے زیادہ ہمنوا ساتھ چھوڑ چکے ہیں،اگر اگلا مرحلہ یعنی نواز شریف کی طرح جلاوطنی کے معاھدے پر دستخط کرنے پڑے تو پھر منظر کیا ہوگا اور اگر خدانخواستہ بھٹو کی طرح جلاوطنی سے انکار کرکے پھانسی کا پھندہ چومنے کی نوبت آ گئی تو پھر کون کہاں ہوگا۔۔۔
عوام کے اندر کسی بڑی آزمائش سے پہلے کے جذباتی پہلو ۔۔۔
فی الحال تو بدرجہ اتم موجود ہیں لیکن آنے والے وقت میں کیا ہوگا اس کا فیصلہ آنے والے چند ہفتوں میں ہو جائے گا، اور اس کا انحصار بھی قائد تحریک پر ہی ھے،
اگر بھٹو کی طرح ڈٹ گیا تو پارٹی دھائیوں تک چلے گی،اگر نوازشریف بنا تو پارٹی بنتی بکھرتی رہے گی، اور اگر ڈبکی لگا کے یورپ چلا گیا تو پھر پارٹی کا بھی اللہ ہی حافظ ۔