مظفرآباد (صباح نیوز) آزاد جموں و کشمیر ہائی کورٹ نے پاکستان تحریک انصاف آزاد کشمیر کی رجسٹریشن کا نوٹیفکیشن منسوخ کر دیا ہے جبکہ آزاد کشمیر الیکشن کمیشن کی طرف سے بارہ سیاسی جماعتوں کی عبوری رجسٹریشن کو غیرقانونی قرار دیتے ہوئے قرار دیا ہے کہ آزادجموں و کشمیر الیکشنز ایکٹ 2020ء کے تحت عبوری رجسٹریشن کی کوئی شق موجود نہیں ہے۔ آزادکشمیر میں حال ہی میں ہونے والے بلدیاتی انتخابات کے نتیجے میں منتخب ہونے والے کونسلرز کی درخواستوں پر آزاد جموں کشمیر ہائی کورٹ نے یہ فیصلہ سنایا۔
آزاد کشمیر ہائی کورٹ کے لارجر بینچ جس کی سربراہی چیف جسٹس صداقت حسین راجہ کررہے تھے بینچ میں جسٹس میاں عارف حسین،جسٹس سردار اعجاز خان اور جسٹس خالد رشید چوہدری شامل تھے۔میونسپل کارپوریشن راولاکوٹ کے ممبران وحید اشرف، اظہر کریم، نیئر اشرف، مظفرآباد سے رضوان الرشید مغل کونسلر، ڈنہ سے ظہور احمد کونسلر، عنایت حسین کونسلر نے اپنی درخواستوں میں پاکستان مسلم لیگ (ن) اور تحریک انصاف کی طرف سے جاری شوکاز نوٹس کو آزادجموں و کشمیر ہائی کورٹ میں چیلنج کیا تھا۔ تحریک انصاف اور مسلم لیگ (ن) نے چیئرمین و وائس چیئرمین کے انتخاب میں پارٹی پالیسی کے بغیر ووٹ دینے پر مذکورہ بلدیاتی نمائندوں کو شوکاز نوٹس جاری کیا تھا اور الیکشن کمیشن کو ان کے خلاف کارروائی کی درخواست دی تھی۔ آزادجموںکشمیر الیکشن کمیشن نے آزادکشمیر میں رجسٹر سیاسی جماعتوں کا ریکارڈ الیکشن کمیشن سے حاصل کیا اور ریکارڈ کی روشنی میں سیاسی جماعتوں کی رجسٹریشن پر کئی اہم سوالات اٹھائے۔ ہائی کورٹ نے اپنے فیصلے میں کہا ہے کہ آزادکشمیر میں سیاسی جماعت کی رجسٹریشن کے لئے کوئی بھی ریاستی باشندہ درخواست دے سکتا ہے۔
رجسٹریشن کے لئے درخواست، نظریہ الحاق پاکستان کی شق والا منشور،ضلعی ممبران کی تعداد، سیاسی پارٹی کے عہدیداران کی مدت الیکشن کمیشن کو فراہم کرنا ہوتا ہے۔ الیکشن کمیشن نے 31 مارچ 2021ء کو بارہ سیاسی جماعتوں کی رجسٹریشن کا نوٹیفکیشن جاری کیا۔ اس نوٹیفکیشن میں پاکستان تحریک انصاف آزادکشمیر، پاکستان مسلم لیگ (ن) آزادکشمیر اور پاکستان پیپلزپارٹی آزادکشمیر بھی شامل ہے۔ ہائی کورٹ نے اپنے فیصلے میں لکھا ہے کہ پاکستان تحریک انصاف آزادکشمیر کی رجسٹریشن کے لئے تحریک انصاف کے چیف آرگنائزر سیف اللہ نیازی کی درخواست الیکشن کمیشن میں جمع کرائی گئی۔ حالانکہ سیف اللہ نیازی غیرریاستی باشندہ ہیں لہٰذا یہ درخواست عبوری ایکٹ 1974ء اور الیکشن ایکٹ 2020ء کی خلاف ورزی ہے۔ اس درخواست میں پاکستان تحریک انصاف آزادکشمیر کے مرکزی عہدیداران کو نامزد کرنے کا طریقہ اختیار کیا گیا ہے۔ یہ اقدام بھی عبوری ایکٹ 1974ء کی خلاف ورزی ہے۔ آزادکشمیر الیکشن کمیشن میں تحریک انصاف آزادکشمیر کی رجسٹریشن کے لئے تحریک انصاف پاکستان کا منشور شامل کیا گیا ہے جس میں نظریہ الحاق پاکستان کا ذکر نہیں ہے۔ لہٰذا عبوری ایکٹ 1974ء کے تحت یہ منشور رجسٹریشن کے لئے ناقابل قبول ہے۔ لہٰذا پاکستان تحریک انصاف آزادکشمیر کی رجسٹریشن کا نوٹیفکیشن منسوخ کیا جاتا ہے۔ آزادکشمیر ہائی کورٹ نے پاکستان پیپلزپارٹی آزادکشمیر کی رجسٹریشن پر بھی سوالات اٹھائے۔
پاکستان پیپلزپارٹی آزادکشمیر کے صدر لطیف اکبر نے الیکشن کمیشن میں درخواست دی ۔ ہائی کورٹ نے رائے دی کہ پاکستان پیپلزپارٹی آزادکشمیر کی رجسٹریشن کے لئے ایسٹ پاکستان 1962ء کا منشور شامل کیا گیا ہے۔ اس منشور میں بھی الحاق پاکستان کی شق موجود نہیں ہے۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) کی رجسٹریشن پر سوال اٹھاتے ہوئے آزادکشمیر ہائی کورٹ نے کہا ہے کہ پاکستان مسلم لیگ (ن) آزادکشمیر نے بھی مرکزی عہدیداران کی نامزدگی کا اصول اپنائے رکھا حالانکہ الیکشن ایکٹ 2020ء کے تحت مرکزی عہدیداران کا انتخاب ہونا چاہئے۔ ایسی جماعت جس میں عہدیداران کے انتخاب کے بجائے نامزد کیا گیا ہو اس کی تشکیل عبوری ایکٹ 1974ء کے آرٹیکل چار شق سات کے مغائر ہے ۔ آزادجموں و کشمیر ہائی کورٹ نے قرار دیا ہے کہ سیاسی جماعتوں کی رجسٹریشن منسوخ کرنے سے حالیہ عام انتخابات میں کامیاب ہونے والے امیدواروں کی حیثیت پر کوئی اثر نہیں پڑے گا اس لئے کہ سیاسی جماعتوں کے ٹکٹ کے بغیر بھی کوئی بھی شخص انتخابات میں حصہ لے سکتا ہے۔
آزادجموںوکشمیر ہائی کورٹ نے اپنے فیصلے میں لکھا ہے کہ الیکشن ایکٹ 2020ء کی دفعہ 133 کے تحت سیاسی جماعتوں کی رجسٹریشن کے سلسلے میں قانون کی خلاف ورزی ہوئی ہے اور اس خلاف ورزی پر قید و جرمانے کی سزائیں ہو سکتی ہیں۔ تاہم عدالت نرم رویہ اختیار کر رہی ہے۔ آزادکشمیر ہائی کورٹ نے کہا ہے کہ اس دوران عدالت نے پاکستان تحریک انصاف آزادکشمیر، پاکستان مسلم لیگ (ن) آزادکشمیر، پاکستان پیپلزپارٹی آزادکشمیر، مسلم کانفرنس، جموں کشمیر پیپلزپارٹی، جمعیت علمائے اسلام آزادکشمیر اور جماعت اسلامی آزادکشمیر کا ریکارڈ الیکشن کمیشن سے طلب کیا اور اس کا تجزیہ کیا گیا۔ اس مقدمے میں طاہر انور ایڈووکیٹ، خواجہ جنید ایڈووکیٹ، طاہر عزیز ایڈووکیٹ پیش ہوئے جبکہ پاکستان مسلم لیگ (ن) کی طرف سے منظور حسین ایڈووکیٹ، پی ٹی آئی کی طرف سے راجہ ضیغم، رفیق نیئر اور شمشاد حسین بھی عدالت میں پیش ہوئے۔یاد رہے کہ سیاسی جماعتوں نے رواں سال کے آغازمیں بلدیاتی کونسلروں کو پارٹی پالیسی کے خلاف مئیر اور چئیرمین ہا کے لئیووٹ دینے پر اظہار وجوہ کے نوٹسز جاری کئے تھے جس پر کونسلرز نے مارچ 2023 میں ہائی کورٹ سے رجوع کیا تھا ہائی کورٹ نے سیاسی جماعتوں کے ان نوٹسز کو بھی غیر آئینی غیر قانونی قرار دیدیا ہے جبکہ سیاسی جماعتوں مسلم لیگ نون، پیپلز پارٹی اور پی ٹی آئی نے موقف اختیار کیا تھا کہ انکی رجسٹریشن عبوری ہے مگر الیکشن کمیشن اور سیاسی جماعتیں عبوری رجسٹریشن قانون کی کوئی شق نہیں دکھاسکیں کیوں کہ ازاد جموں کشمیر
الیکشن کمیشن نے سیاسی جماعتوں کو عبوری رجسٹریشن دی تھی حالانکہ عبوری رجسٹریشن کا آئین میں تصور موجود نہیں ہے معزز عدالت نے قرار دیا ہے کہ جب ایک سیاسی جماعت کی بنیاد ہی درست نہیں ہے تو وہ کسی کو نوٹس جاری نہیں کر سکتی دریں اثنا سیاسی جماعتوں نے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ سے رجوع کرنے کے لئے مشاورت شروع کردی ہے اپیل دائر ہونے کے بعد سپریم کورٹ 15 ایام میں فیصلہ دے گی اگر رجسٹریشن کالعدم ہونے کا فیصلہ برقرار رہا تو ان سیاسی جماعتوں کی از سر نو رجسٹریشن ہوسکے گی اور اس کے لئے انہی جماعتوں کی ریاستی قیادت کے نام سے رجسٹریشن کے ساتھ ریاستی سطح پر انٹرا پارٹی انتخابات کروانے ہونگے یاد رہے جمعیت علمائے اسلام جموں وکشمیر اور جماعت اسلامی آزادجموں اس فیصلے کی زد میں نہیں آئیں کیونکہ انکا آئین پاکستانی ہم نام جماعتوں سے الگ ہے اور جماعت کی رجسٹریشن بھی ریاستی قیادت کے ناموں سے کی گئی ہے جبکہ انکا انتخاب بھی ریاستی کارکنان کی سطح پر ہوتا ہے تاہم، وحدت المسلمین، تحریک لبیک اور ایم کیو ایم سمیت دیگر سیاسی جماعتیں اس فیصلے کی زد میں آگئیں ہیں