بھرپور حقیقی سیاسی عمل انارکی روک سکتا ہے۔۔۔تحریرمحمود شام


شہرِ اقبال نے خطرے کی گھنٹیاں بجادی ہیں۔

بعد از مرگ واویلا پورے زوروں پر ہے۔ مذمتی بیانات کی رسم پوری کی جارہی ہے۔

یہ سب کچھ اچانک نہیں ہوا اور نہ ہی غیر متوقع ہے۔ ہم جو کچھ کاشت کرتے آرہے ہیں، یہ وہی فصل پک رہی ہے بلکہ پک چکی ہے۔ قوموں کی زندگی میں ایسے بھیانک موڑ آتے ہیں۔ ان قوموں کے دانشور۔ راہبر۔ اساتذہ۔ اسکالرز۔ ماہرین۔ ایسے لمحات کو گرفت میں لے لیتے ہیں اور اپنے معاشرے کے لیے ان خطرناک مرحلوں کو فیصلہ کن مرحلوں میں بدل دیتے ہیں۔ امریکہ ان حالات سے گزرا ہے۔ سیاہ فاموں پر سفید فاموں کے حملے۔ خانہ جنگی۔ اسی طرح برطانیہ میں چرچ اور بادشاہوں کے درمیان جنگیں۔ کئی مسلمان ملکوں میں بھی مختلف فرقوں نے قتل و غارت جاری رکھی۔پہلے اپنے حال پر نظر ڈالتے ہیں۔ پھر مستقبل کی راہ متعین کرنے کا عزم کرتے ہیں۔

پہلے تو یہ جان لیں کہ صرف سیالکوٹ ہی نہیں شہر در شہر ایسی چنگاریاں سلگ رہی ہیں جو کسی بھی وقت بھڑکتے شعلوں میں بدل سکتی ہیں۔ اس کیلئے سب سے آسان اور تیر بہدف نسخہ مذہب کی توہین کا الزام عائد کرنا اور شور مچانا ہے۔ ایسے ذہن ہر قصبے میں موجود ہیں جو کسی وقت بھی جہل کے جارح لشکر میں بدل سکتے ہیں۔ نہتے انسانوں پر یلغار کرسکتے ہیں۔ مسجدوں کے لائوڈ اسپیکروں کا استعمال کرسکتے ہیں۔ گاہکوں کو لوٹنے والے دکاندار۔ اس ہجوم میں شامل ہوسکتے ہیں۔ یہ صرف کسی دینی مدرسے، کسی مذہبی جماعت کے رکن نہیں ہیں، یہ لوگ ہر جگہ موجود ہیں۔ میں، آپ کوئی بھی ان کا نشانہ بن سکتا ہے۔اب تو سوشل میڈیا اور موبائل فون ان کا سب سے بڑا ہتھیار ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ ہماری اکثریت اعتدال پسندانہ سوچ رکھتی ہے۔ اس نے کبھی شدت پسند۔ فرقہ پرست مذہبی جماعتوں کو حکمرانی کا مینڈیٹ نہیں دیا مگر ہمارے سیاسی اور فوجی حکمران اپنے اقتدار کو طوالت دینے کے لیے مذہبی پریشر گروپوں کے دبائو میں آجاتے ہیں۔ پِیروں سے ڈنڈے کھاتے ہیں۔ کابینہ کے اجلاسوں میں بلاتے ہیں۔ میڈیا والے اپنے ٹاک شوز میں عزت دیتے ہیں۔ پولیس ان کے سامنے بے بس ہے۔ اسٹیبلشمنٹ ان کے حلقۂ ارادت میں شامل ہوجاتی ہے۔ پھر ہم آگ بھڑکتی دیکھتے ہیں۔ لاشیں گرتی مشاہدہ کرتے ہیں۔

سب سے زیادہ تشویش خیز رجحان یہ ہے کہ ایک وڈیو۔ ایک پوسٹ۔ محلّے شہر میں قیامت برپا کرسکتی ہے۔ کسی مسجد کے لائوڈ اسپیکر سے ایک اعلان گھروں سے لوگوں کو باہر نکال سکتا ہے۔ ذہن ایسے بنے ہوئے ہیں کہ کوئی وجہ نہیں پوچھے گا۔ کوئی اپنا ذہن استعمال نہیں کرے گا۔ سب آگ کے شعلے مزید بلند کرنے کے لیے اپنی توانائیاں استعمال کریں گے۔ سیالکوٹ جس کی اجتماعی دانش اتنی مستحکم تھی کہ انہوں نے اپنا ایئرپورٹ بنایا۔ اپنی ایئرلائن۔ شہر کو خوبصورت بھی بنایا مگر وہاں جو نئی نسل جوان ہورہی تھی، اس کی ذہنی تعمیر ایسی کیوں ہوئی؟ کیا اہل صنعت و تجارت نے ان کی بہبود کے لیے کوئی سرمایہ کاری نہیں کی؟

اور بھی بہت کچھ ہورہا ہے۔ لیکن ہمیں اس انارکی کے سامنے بے بس نہیں ہونا چاہئے۔ مایوسی سے گھر نہیں بیٹھ جانا چاہئے۔ مسئلے انسان سے بڑے نہیں ہوسکتے۔ انسان اللہ تعالیٰ کی احسن تقویم ہے۔ یہ اکیسویں صدی ہے۔ انسان اتنی ایجادات کرچکا ہے۔ بہت سی بیماریاں ناپید ہوچکی ہیں۔ اتنی تحقیق کہ آفاق تسخیر ہوچکے ہیں۔ اس انارکی کو روکنے کا موثر راستہ صرف اور صرف بھرپور سیاسی جمہوری عمل ہے۔ سیاسی شعور کا پھیلائو ہے۔ قومی سیاسی جماعتیں یہ سب کچھ کرسکتی ہیں۔ بہت سے ملکوں میں یہ تجربات ہوئے ہیں۔ برطانیہ میں نشاۃ ثانیہ یا تحریک احیائے علوم سے استفادہ کیا جاسکتا ہے۔ ان کے پاس بے لوث سیاسی کارکن ہیں۔ پیروکار ہیں۔ تاریخ ان سے تقاضا کررہی ہے کہ وہ حقیقی سیاسی جماعتیں بن کر دکھائیں۔ شہر در شہر مطالعاتی مراکز قائم کریں۔ ملکی وسائل سے ملکی مسائل کے حل کے لیے مشاورت کریں۔ کارکنوں کی میٹنگیں مسلسل منعقد کریں۔ سوشل میڈیا پر ان کی وڈیوز پھیلائیں۔ نوجوانوں کو ملکی دولت سے آگاہ کریں۔ پاکستان میں کئی کئی ہزار سال قدیم تہذیب کے مراکز ہیں۔ ہر علاقے ہر صوبے کی اپنی اپنی صدیاں ہیں۔ ثقافت۔ تاریخی ورثے سے مالا مال۔ یہ علاقے ادب، تمدن کے لیے پوری دنیا میں ایک مثالی حیثیت رکھتے ہیں۔جو سر زمین صوفیا اور اولیا اللہ کی تعلیمات سے گونجتی رہی ہے۔ ہماری میراث داتا گنج بخش ہجویریؒ ہیں۔ سلطان باہو ؒہیں۔ شاہ لطیفؒ ہیں۔ سچل سرمستؒ۔ شہباز قلندرؒ۔ بابا فریدؒ۔ بلھے شاہ ؒ ہیں۔ کیا یہ سر زمین خواجہ غریب نواز معین الدین چشتی اجمیریؒ سے فیضیاب نہیں ہوئی؟ نوجوانوں کو اپنی طاقت کا احساس دلائیں کہ وہ ملک کو خوشحالی اور ترقی کے راستے پر لے جاسکتے ہیں۔

سیاسی جماعتیں نوجوانوں کے ذہنوں سے اندھیرے نکالنے کے لیے ہر شہر میں کنونشن منعقد کریں۔ پہلے تحصیل کی سطح پر، پھر ضلع در ضلع، اس کے بعد صوبائی کنونشن، پھر قومی کنونشن۔ ذرا سوچئے کہ اگر پاکستان مسلم لیگ(ن)۔ پاکستان پیپلز پارٹی۔ پاکستان تحریک انصاف۔ عوامی نیشنل پارٹی۔ متحدہ قومی موومنٹ۔ بلوچستان عوامی پارٹی۔ سب ہی ایسے کنونشن منعقد کررہی ہوں گی تو نوجوانوں کی کتنی بڑی تعداد سیاسی شعور اور بیداری حاصل کرنے میں مصروف رہے گی۔ ان کے ذہن صیقل ہورہے ہوں گے۔ وہ مثبت سوچ رہی ہوگی۔ وہ اپنی تہذیب کو اپنے مسلک سے نہیں کچلے گی۔ وہ کسی کے کہنے پر بھی اشتعال میں نہیں آئے گی۔

ان کنونشنوں میں پروفیسرز کو مدعو کیا جا سکتا ہے۔ اقتصادی ماہرین لیکچر دے سکتے ہیں۔ انفارمیشن ٹیکنالوجی پر عبور رکھنے والے بتا سکتے ہیں کہ دنیا میں کیا کیا تبدیلیاں آرہی ہیں۔ انسانی وسائل کی بہبود کے علمبردار ورکشاپس منعقد کر سکتے ہیں۔ نوجوانوں کو تعمیر کی طرف راغب کیجئے۔یہ اکیسویں صدی ہے۔ ہمیں دنیا کے برابر قدم رکھنے ہیں۔ سانحوں سے سبق حاصل کرنا ہے۔ اپنے غم کو اپنی طاقت بنانا ہے۔ نوجوانوں کے دست و بازو کی توانائیوں کو ملکی استحکام کا وسیلہ بنانا ہے۔ بزرگوں کے تجربات اور مشاہدات سے نوجوانوں کی راہ نمائی کرنی ہے۔

دوسری قومیں جب یہ سب کچھ کر سکتی ہیں تو ہم بھی کر سکتے ہیں۔ آئیے آج سے ہی شروع کریں۔

بشکریہ روزنامہ جنگ