نئے پاکستان بلکہ بگڑے ہوئے پاکستان میں سانحات روز کا معمول ہے لیکن سانحہ سیالکوٹ کئی حوالوں سے دردناک اور المناک تھا۔ پہلا یہ کہ انسانیت کے ساتھ ظلم کا یہ ارتکاب اس ہستیﷺ کے نام پر کیا گیا جو رحمت اللعالمینﷺ ہیں اور جنہوں نے کبھی اپنے دشمنوں تک کے لئے بھی بددعا نہیں کی۔
دوسرا یہ کہ جس کو قتل کیا گیا، اس نے توہین نہیں کی تھی بلکہ اپنی فرض شناسی کی وجہ سے کچھ بدبخت مسلمان اس پر برہم تھے حالانکہ فرض شناسی اور اپنی ڈیوٹی سے انصاف کا درس ہمارے دین اور نبی کریمﷺ نے ہم مسلمانوں کو دیا ہے۔
تیسرا یہ کہ یہ کسی فرد کا انفرادی فعل نہیں تھا بلکہ درجنوں افراد جو رحمت العالمینﷺ سے محبت کا دم بھرنے والے ہیں،نے اجتماعی طورپر اس جرم عظیم کا ارتکاب کیا، جو اس بات کا ثبوت ہے کہ ہم بحیثیت قوم ظالم اور بے حس ہوگئے ہیں۔
چوتھا یہ کہ جنوبی ایشیا میں سری لنکا واحد ملک ہے کہ جس کے انڈیا کے مقابلے میں پاکستان کے ساتھ نہایت خوشگوار تعلقات ہیں(حالانکہ دشمن۔ ملک کے شہری کے ساتھ بھی ایسا سلوک ظلم ہے) اور سری لنکن شہری کے ساتھ اس سلوک کے ساتھ دنیا کو پاکستان کے بارے میں اچھا پیغام نہیں ملا۔
پانچواں یہ کہ سری لنکا نے ڈینگی کے معاملے میں مدد کرکے کئی پاکستانیوں کی زندگیاں بچانے میں مدد کی تھی لیکن جواب میں ہم اس کے شہری کی زندگی نہ بچاسکےجس کے جان و مال کا تحفظ ریاست پاکستان کی ذمہ داری تھی۔
چھٹا یہ کہ ہزاروں سری لنکن آنکھیں عطیہ کرکے ہرسال پاکستان بھیجتے ہیں لیکن سانحہ سیالکوٹ کے ذریعے ہم نے یہ پیغام دیا کہ اگرچہ ہماری آنکھیں تو سلامت ہیں لیکن ہم روحانی،انسانی اور جذباتی حوالوں سے اندھے ہوگئے ہیں۔ساتواں یہ کہ ایسے عالم میں جبکہ کوئی کرکٹ ٹیم پاکستان نہیں آ رہی تھی تو سری لنکا نے اپنی ٹیم بھجوادی، جس پر یہاں حملہ ہوگیا۔
شکرہے اس وقت ان کے کھلاڑی بچ گئے لیکن سری لنکا کو کوئی اچھا پیغام نہیں گیا۔آٹھواں یہ کہ ان دنوں کوئی سرمایہ کار اور پروفیشنل پاکستان آنے کو تیار نہیں۔ لیکن جب سری لنکا کے پروفیشنل یہاں آکر ہمارے اوپر احسان کررہے تھے تو ہم نے انہیں مروا دیا۔
اب کوئی اور سرمایہ کار یا پروفیشنل کیوں کر پاکستان آنے کا رسک لے گا۔ نواں یہ کہ سری لنکن قوم کی اکثریت اپنے عقیدے کے مطابق اپنی لاشوں کو جلاتی ہے۔ کورونا کی شدت کے موقع پر زیادہ ہلاکتوں کی وجہ سے وہ کورونا سے وفات پانے والے مسلمانوں کی لاشوں کو بھی جلارہے تھے، جس پر وہاں کے مسلمان جو اقلیت میں ہیں، نے احتجاج کیا۔
اس دوران پاکستانی وزیراعظم نے سری لنکن وزیراعظم سے بات کی تو انہوں نے خصوصی احکامات جاری کئے اور سری لنکن مسلمانوں کو اسلامی طریقے سے تدفین کی اجازت مل گئی۔ سری لنکن حکومت نے عزت کی یہ پگڑی اپنے شہریوں یا کسی اور اسلامی ملک کی بجائے حکومت پاکستان کے سر پر رکھ دی۔
اس کے جواب میں ہمارے پاکستانیوں نے سری لنکن باشندے کو قتل کرنے پر اکتفا نہیں کیا بلکہ اس کی لاش کو آگ لگا دی حالانکہ لاش جلانا ہمارے دین کی رو سے حرا م ہے۔ یوں سانحہ سیالکوٹ سانحہ نہیں بلکہ ام السانحات ہے، جو بیک وقت اسلام اور پاکستان کی بدنامی کا موجب بنا۔
سوال یہ ہے کہ اسلام کے نام پر بننے والے پاکستان میں اس طرح کے سانحات کیوں رونما ہورہے ہیں، ذمہ دار کون ہے اور کم ہونے کی بجائے اس کا سلسلہ بڑھ کیوں رہا ہے؟۔
میری ناقص سمجھ کے مطابق پہلی فرصت میں ذمہ دار وہ لوگ ہیں جو مذہب کو سیاسی، اسٹرٹیجک اور گروہی مقاصد کے لئے استعمال کررہے ہیں۔ اسی طرح وہ مذہبی لیڈران اور مذہب فروش ذمہ دار ہیں جو نبی کریم ﷺ کے نام پر عوام کو جذباتی تو بناتے ہیں لیکن قرآن وسنت کی حقیقی تعلیمات پر خود عمل کرتے ہیں اور نہ عوام کو اس کا شعور دیتے ہیں۔ ہمارے سیاسی اور عدالتی نظام کا بھی اس میں کردار ہے لیکن بنیادی ناکامی ریاست کی ہے جو مذہبی کارڈ استعمال کرنے والوں کا راستہ روکنے کی بجائے انہیں استعمال کرتی ہے۔
مثلاً ماضی قریب میں ہم نے دیکھا کہ میاں نواز شریف اور شاہد خاقان عباسی کے خلاف تحریک لبیک اور عمران خان کے ذریعے مذہبی کارڈ اور وہ بھی(نعوذباللہ) توہین رسالت کے کارڈ کو بری طرح استعمال کیا گیا۔ اسی طرح ہم نے دیکھا کہ پاکستان کے مغربی اور مشرقی محاذوں پر اسٹرٹیجک مقاصد کے لئے مذہبی کارڈ کو استعمال کیا گیا۔
کچھ لوگ توہین رسالت کے قانون کو وجہ قرار دیتے ہیں لیکن میں ذاتی طور پر اس سے اتفاق نہیں کرتا۔ میرے نزدیک توہین رسالت سنگین ترین جرم ہے۔ جو بدبخت اس کے مرتکب ہوتے ہیں، وہ فساد فی الارض کے مجرم قرار پاتے ہیں اور فساد فی الارض کے قانون کے تحت توہین رسالت کے مرتکب افراد کو سخت ترین سزا ملنی چاہئے۔
اگر کسی بدبخت کے بارے میں ثابت ہوجائے کہ اس نے شعوری طور پر توہین رسالت کا ارتکاب کیا ہے تو ایسا شخص کسی ہمدردی کا مستحق نہیں لیکن پھر جو شخص کسی بے احتیاطی سے کام لے کر کسی ذاتی عداوت کی بنیاد پر یا پھر سیاسی اور گروہی مقاصد کے لئے کسی پر ناجائز توہین رسالت کا الزام لگاتا ہے تو وہ شخص بھی کسی ہمدردی کا مستحق نہیں اور اسے بھی سخت ترین سزا ملنی چاہئے۔
جیسا کہ ہم دیکھ رہے ہیں کہ سانحہ سیالکوٹ کے ذمہ دار کتنے بڑے اور ہمہ پہلو فساد کا موجب بنے۔ اس تناظر میں ہم جیسے طالب علم یہ تجویز دیتے ہیں کہ توہین رسالت کے موجودہ قانون اور توہین رسالت کی موجودہ سزا کو برقرار رکھ کر اس کے ساتھ اس قانون کا اضافہ کیا جائے کہ جو شخص کسی کے خلاف توہین رسالت کا الزام لگا کر ثابت نہ کرسکے تو پھر اس شخص کو بھی سزائے موت ملے تاکہ لوگ الزام لگانے میں احتیاط سے کام لیں۔
اس کے جواب میں مذہبی جماعتیں اور علمائے کرام یہ اعتراض اٹھاتے ہیں کہ صرف توہین رسالت کے قانون کے ساتھ یہ شرط کیوں نتھی کی جائے۔ اس ملک میں روز لوگ قتل کا الزام لگا کرایف آئی آر کٹواتے ہیں لیکن عدالت میں ثابت نہیں کرپاتے۔ اس صورت میں تو الزام لگانے والے کو الٹا قتل کی سزا نہیں ملتی۔
اسی طرح لوگ دوسروں کے خلاف چوری اور کرپشن کا الزام آئے روز لگاتے ہیں لیکن عدالتوں میں ثابت نہیں ہوتا۔ تاہم الزام لگانے والے کے خلاف پھر کوئی کارروائی کیوں نہیں ہوتی۔ پھر صرف توہین رسالت کے معاملے میں یہ اصول کیوں اپنایا جائے؟۔ ظاہر ہے ان جماعتوں یا علمائے کرام کا یہ اعتراض بالکل بجا ہے۔
اس صورت حال میں میری یہ رائے ہے کہ صرف توہین رسالت نہیں بلکہ قتل، غداری یا کرپشن جیسے جتنے بھی سنگین جرائم ہیں، ان قوانین کو اپنی جگہ رکھ کر سب کے ساتھ یہ اضافی قانون سازی کی جائے کہ اگر کوئی ان سنگین جرائم سے متعلق اپنے الزام کو عدالت میں ثابت نہ کرسکا تو پھر اسے وہی سزا ملے گی جو اس جرم کی سزا ہے۔
بشکریہ روزنامہ جنگ