سری لنکا سے تعلق رکھنے والا ایک محنتی اور جفاکش انسان، پاکستانیوں کے ایک بد مست اور سرکش گروہ کے ہاتھوں بہیمانہ انداز میں قتل ہوا۔ اس قتل نے دل و دماغ کی ساری چولیں ہلا کر رکھ دیں۔
محسوس کرو گے تو گزر جاؤ گے جاں سے
وہ حال ہے اندر سے کہ باہر ہے بیاں سے
مذہب کے نام پرفساد فی الارض کا یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں۔ ایسے درجنوں سانحات تو ابھی پچھلے چند سالوں ہی میں وقوع پزیر ہوچُکے ہیں۔ البتہ پاکستان میں کسی غیر ملکی شہری کے ساتھ پیش آنے والا اس نوعیت کا غالبا” یہ پہلا واقعہ ہے۔
اور اگر ہوش مندی سے پیش بینی اور پیش بندی نہ کی گئی تو تباہ کن نتائج کچھ زیادہ فاصلے پر نہ ہو نگے۔
پاکستان کے اسلامی تشخص کا یہ اہم حصہ ہے کہ یہاں اللہ ،اس کے بھیجے گئےرُسل اور قرآن پاک کے حوالے سے کسی کو توہین اور بے حرمتی کی اجازت نہ دی جائے۔ یہ کام جتنا اہم ہے اتنا ہی یہ نازک بھی ہے۔
ہم جس معاشرے میں زندہ ہے وہ اخلاقی اعتبار سے بہت ہی زوال پذیر ہے۔ جھُوٹ بولنا، دھوکہ دینا، حسد میں مبتلا ہونا اور الزام تراشی کرنا روز مرہ کا معمول ہے۔
مالکان اور مزدوروں کے جھگڑے، گھریلو کام کرنے والی باجیوں اور بیگمات کی الجھنیں، وڈیرے اور اُن کے ماتحت کام کرنے والے ہاری روزانہ بے دردی سےایک دوسرے کے حقوق پامال کرتے اور پھر ایک دوسرے کو جھُوٹے الزامات میں پھانسنے کی ترکیبیں نکالتے رہتے ہیں۔ ایک دوسرے سے انتقام لینے کے بے شمار حربوں میں ایک حربہ مذہبی بنیاد پر الزام تراشی بھی ہے۔
بدلہ لینے کا یہ حربہ تیز رفتار بھی ہے، محفوظ اور مہلک بھی۔
خدا کا خوب اور اُس کے سامنے جواب دہی کا احساس نہ ہو تو “مذہب کارڈ” معمول اورمشغلہ بن جاتا ہے۔
ایسے میں دین سے محبت کرنے والوں کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ صرف ہوشیار ہی نہ ہوں بلکہ چاک و چوبند بھی ہوں اور وہ تدابیر اختیار کریں جس کے نتیجے میں فساد کے راستوں کو رُوکا اور دینی قوانین کی تضحیک بند کئے جا سکنے کے ساتھ دیگر مذاہب کے ماننے والوں کے ساتھ اعتماد کی فضاء بھی قائم رکھی جا سکے۔
• پہلے قدم کے طور پر معاشرے کے ہر طبقے کو یہ قائل و آمادہ کرنےاور منوانے کی ضرورت ہے کہ الزام کی شنوائی اور جرم کی سزا کا اختیار (عدالتوں کے ذریعے)صرف اور صرف حکومت کے پاس ہوتا ہے۔
یہ کسی طور ممکن نہیں کہ کوئی فرد یا کوئی جتھہ چلتے پھرتے کسی کی بات یا جملے پر “توہین” کا لیبل چسپاں کرے، خود ہی مدعی بنے ، خود ہی سزا کے احکامات بھی جاری کرے اور پھر خود ہی چوکوں ، چوراہوں میں اسے نافذ کر کے جشن منانے کا اہتمام بھی کر ڈالے۔
اس پہلو سے معاشرے کی ذہنی تربیت کے لئے یکسوئی کے ساتھ علماء کو مساجد ، وکلاء کو بار رومز اور اساتذہ کو تعلیمی اداروں کے پلیٹ فارم فوری طور پراستعمال کرنے کی ضرورت ہے۔
• تمام سیاسی جماعتوں اور ملک کے اصل حکمرانوں کو باالاتفاق یہ بات “قبول” کرنے کی ضرورت ہے کہ کچھ حقیر اور وقتی “ضرورتوں” کے لئے انہوں نے اس کارڈ کو جب جب ایک بار استعمال کیا تو ملک و ملت کو اور خود انہیں اِس کی دس گنا بھاری قیمت ادا کرنا پڑی۔ آگ کے الاؤ میں کودنے کے اس کھیل کو اب مستقلا” بند ہونا چاہئے۔
• ایسی قانون سازی کی ضرورت ہے کہ جس کے نتیجے میں غلط اور جھوٹا الزام لگانے والے کو سخت اور عبرتناک سزا ملے تاکہ “موقع پرستوں” کو آسانیاں نہیں سامنے کھائیاں دکھائی دیں۔
• سری لنکن شہری پریانتھا کمارا کے یتیم بچوں کو حکومت پاکستان گود لے کر تعلیم کے تمام مراحل تک سپورٹ کرے۔ خاندان اور بیوہ کے لئے ضرورت ہو تو انکے آبائی علاقے میں گھر تعمیر کر کے دینا چاہئے۔
• پریانتھا کمارا تو اب واپس نہیں آ سکتا مگر اُس کے خاندان کو جلد انصاف ملنا ضروری ہے۔ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ سپیڈی ٹرائل کرکے اس تاثر کو زائل کرے کہ وہ قوتِ فیصلہ و نافذہ سے محروم ہے۔
• سری لنکا کے عوام اور حکومت تک پاکستانیوں (سیالکوٹ چیمبر آف کامرس ، بار ایسوسی ایشن اور شہری نمائندوں) کےخیر سگالی اور محبت کے پیغامات جانے چاہئیں۔
معاشروں میں سنگین غلطیوں اور جرائم کے واقعات انہونی چیز نہیں مگر مشکل کی گھڑیوں میں کون کیسے رویے کا اظہار کرتا ہے وہی رویہ قومی پہچان بنتا ہے۔دُکھ کے ان لمحات میں ہمیں ایک باوقار اور ذمہ دار قوم ہونے کا اظہارکرنے کی اشد ضرورت ہے۔