بات تو سوچنے والی ہے کہ ہم
اپنی زمہ داری کو کس حد تک پورا کر رہے ہیں یہ معزور افراد بھی جو کہ اس معاشرے کا حصہ ہیں ان کی تکلیف کا اندازہ ہ
نہی لگا سکتے ان کی تکلیف کے بارے میں جاننا چاہتے ہیں تو ان کے والدین سے پوچھ کر دیکھے ان معزور لوگوں سے پوچھے کہ وہ کس درد اور قرب سے گزر رہیں ہیںان کی طرف بھی ایک قدم بڑھائے ان کے درد کو اپنا درد سمجھ کر ان کو پیار اور محبت کا اظہار کرے تا کہ وہ بھی معاشرے میں خوشی سے زندگی گزار سے
دنیا بھر میں 03 دسمبر کو عالمی سطح پر معذور افراد کا دن اس مناسبت سے منایا جاتا ہے کہ ریاستیں اور رعایا خصوصی افراد پر توجہ مرکوز کر کے ان کی معاشی،اخلاقی وسماجی سطح پر معاونت کرتی ہیں تا کہ وہ زندگی کے آخری سانس تک احساس محرومی کا شکار نہ ہو سکیں رحمتہ للعالمین نے مدینہ کی اسلامی فلاحی ریاست میں نادراوں،یتیموں،بیواوں،مسکینوں،معذور افراد کی کفالت کا ایسا رول ماڈل سٹرکچر بنایا جو خلفائے راشدین کے دور خلافت کے بعد قائم رہا۔ وفاقی اور تمام صوبائی حکومتوں سے گزارش ہے کہ وہ معذور افراد کی کفالت،انہیں روز گار فراہم کرنے اور اندرون و بیرون ملک بنیادی سہولیات جن کی سرکاری سطح پر منظوری ہو چکی ہے اس حوالے سے آگاہی مہم چلائے۔پاکستان میں قابل قدر رفاعی تنظیمیں الخدمت فاؤنڈیشن، ایدھی، ، اپنی اپنی سطح پر بے لوث خدمت سرانجام دے رہی ہیں۔بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام جو 130 ارب روپے سالانہ قومی بجٹ کا حصہ ہے اس میں جسمانی معذور اور نابینا افراد کو ماہانہ 30 ہزار روپے کفالت کیلئے وقف کر دے تو یہ اقدام دنیا بھر کو جب نظر آئیگا ۔معذور افراد اور انکے اہلخانہ کا سرکاری و نیم سرکاری ہسپتالوں میں فری علاج کا قانون نافذ ہو چکا ہے۔جسمانی،ذہنی معذور افراد کو انصاف صحت کارڈ کے قومی پروگرام میں شامل کر کے انہیں صحت کارڈ دئیے جائیں تاکہ وہ بھی مفت علاج کی سہولت سے مستفید ہوسکیں۔ معذور آفراد کو مالی امداد میرج گرانٹ اور انکے لواحقین کو ڈیتھ گرانٹ باآسانی ملنے کی راہ نکالی جائے۔ دنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی 3 دسمبر عالمی یومِ معذوراں یعنی خصوصی افراد کے عالمی دن کے طور پر منایا گیا۔ یہ دن اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں 14 اکتوبر 1992 کو منظور ہونیوالی قرار داد نمبر 3/47کے تحت ہر سال منایا جاتا ہے۔ اقوام متحدہ نے ہی 2006 میںکنونشن برائے حقوق ِمعذور اں منظور کیاجس میں دستخط کنندہ ممالک سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ تمام شعبہ ہائے زندگی میںجسمانی اور ذہنی طور پر معذور یعنی خصوصی افراد کو مساوی مواقع فراہم کرنے کیلئے قانونی ڈھانچہ تشکیل دیں۔ایک ذمہ دار مملکت کی حیثیت سے پاکستان نے بھی اس کنونشن پر دستخط کئے۔ اسکے باوصف خصوصی افراد کے حوالے سے پاکستان کی مجموعی صورتِ حال حوصلہ افزا نہیں۔ قومی مردم شماری رپورٹ 1998 کے مطابق پاکستان کی مجموعی آبادی کا 2.49 فیصدخصوصی افراد پر مشتمل ہے۔ ۔ مردوں کی تعداد دیہی اورشہری دونوں علاقوں میں خواتین سے زیادہ ہے۔ پچھلے اکیس برس میںبوجوہ پاکستان میں خصوصی افراد کی تعداد میں پریشان کن حد تک اضافہ ہوا ہے۔ ایک محتاط اندازے کیمطابق اس وقت پاکستان میں 13.4فیصد یعنی 2کروڑ 0 8 لا کھ افراد مختلف جسمانی معذوریوں سے ہمہ وقت نبردآزما ہیں۔ جسمانی معذوری ایک وسیع ،پرت داراور قدرے غیر مانوس اصطلاح ہے جو بنیادی طور پرکسی فرد کی مخصوص جسمانی کیفیت کے علاوہ اس کیفیت کے سبب پیدا ہونے والے معاشرتی مسائل کا احاطہ بھی کرتی ہے۔ جسمانی معذوری کی تین اقسام ہیں: نمبر ایک disabilityیعنی جسم کے کسی حصّے یا عضو بشمول ذہن غیر فعال ہونا؛نمبر دو handicap یعنی انسان کا اپنے جسم یا دماغ میں کسی قسم کی کمی یا کمزوری کے سبب بعض افعال سر انجام دینے سے معذور ہونا اور نمبر تین impairment یعنی جسم کے کسی حصّے میں کسی بگاڑ کا پیدا ہو جانا۔ نتیجتاًوہ تمام افراد خصوصی کہلاتے ہیں جن میں سمجھنے، دیکھنے، سننے، سونگھنے ،بولنے ، مناسب انداز میں نقل و حرکت کرنے اور معمول کیمطابق معاشرتی تعلقات استوار کر نے کی صلاحیت مفقودہویا عام لوگوں کے مقابلے میں کم ہو۔ بدقسمتی سے خصوصی افراد کے حوالے سے ہمارا معاشرے کا عمومی رویہ غیر مناسب اور قابل ِمذمت ہے۔ ہم ان افراد کو جو جسمانی اعتبار سے ہم سے مختلف ہیںیا تمسخر اور تحقیر کا نشانہ بناتے ہیں یا انھیں ترحم اور حیرت کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ یہ رویئے خصوصی افراد کی زندگی کو نہ صرف مذید مشکل اور تکلیف دہ بناتے ہیں بلکہ ان کیلئے گہرے نفسیاتی مسائل بھی پیدا کرتے ہیں۔ کارپردازانِ ریاست کیلئے ضروری ہے کہ خصوصی افراد کی فلاح و بہبودکیلئے معنی خیزپالیسی سازی کریں۔خصوصی افرادکے حوالے سے ترتیب دی گئی کسی بھی حکومتی اور معاشرتی پالیسی کے چاربنیادی مقاصد ہونے چاہئیں۔ اوّل،ملک بھر میں درست سروے کروا کر خصوصی افراد کی اصل تعداداور انکے عوارض کی نوعیت معلوم کرنا؛دوئم،ان افراد کو معاشرے کا مفید رکن بنانے کیلئے علاج کی سہولیات کی فراہمی یقینی بنانا ؛ سو ئم، خصوصی افراد کی مشکلات اور انکے معاشی ، قانونی اور سماجی حقوق کے حوالے سے عوا م النّاس میں آگاہی پیدا کرنا، اورچہارم، معاشرے کو ان افراد کی دلجوعی کرنے کیجانب مائل کرنا۔یہ حقیقت خوش آئند ہے کہ پاکستان میں اس سلسلے میں بنیادی قانون سازی کی جا چکی ہے۔ معذور افراد (ملازمت و بحالی)آرڈیننس 1981،قومی ایکشن پلان برائے معذوراں 2006،مخصوص شہری ایکٹ 2008 اور مخصوص شہری (حق برائے رعایت نقل و حرکت) ایکٹ 2009مقننہ سے پاس کروائے جا چکے ہیں۔ قومی ایکشن پلان ایک اہم دستاویز ہے جس میں مختلف مختصراور طویل مدتی اقدامات کا ذکر ہے۔ مثال کے طور پر مخصوص افراد سے متعلق ڈیٹا بینک کا قیام؛منتخب اضلاع میں معذور افراد کیلئے نمونہ سروے؛ابتدائی اور ثانوی طبی امدادکے ذریعے معذوری کے خاتمے کی سعی؛ معذوری کی بروقت اطلاع اور اس حوالے سے فوری ادارہ جاتی مداخلت کے انتظامات،بحالی کی معیاری طبی خدمات کی دستیابی اور ان میں اضافہ؛مخصوص افراد کی امداد کیلئے غیر سرکاری تنظیموں کی حمایت کا حصول ؛تمام سرکاری، عوامی؛ نجی اور تجارتی عمارتوںکے اندازِ تعمیر میں ایسی تبدیلی جس سے مخصوص افرادآسانی سے ان تک رسائی حاصل کر سکیں اور ان میںبہ سہولت نقل و حرکت کر سکیں اور سوشل سکیورٹی کے منصوبوںمیں مخصوص افراد کے حوالے سے توسیع و افزونی۔ قانون کی کتابوں میں ان قوانین کی دستیابی کے باوجود مخصوص شہریوں کے مسائل میں اضافہ اس امر کی نشاندہی کرتا ہے کہ اصل مسئلہ نفاذ کے ناپید ہونے کا ہے۔ خصوصی افراد کا سب سے اہم مسئلہ انکی ذہنی و جسمانی بحالی اور معاشرے میں باعزت مقام کا حصول ہے۔ انکی تعلیمی ضروریات احسن طریقے سے پوری کی جانی چاہئیں اور انھیںمناسب روزگار فراہم کرکے معاشرے کا کارآمد شہری بنایا جا نا چاہیئے ۔اس عمل کے ذریعے ہی مخصوص افراد معاشرے میں بطریقِ احسن ضم ہو سکیں گے اور انھیں اپنے مختلف ہونے کا احساس پریشان نہیں کریگا۔ ان افراد سے بہتر برتاؤ کی تربیت دینے کیلئے ذرائع ابلاغ اورمحکمہ ہائے تعلیم کو موثر کردار ادا کرنا پڑیگا۔ معاشرے کی روشِ عام کو بدلنا ہمیشہ کارِدارد رہا ہے لیکن بہرحال حکمت ، دانائی،انتظام اور سعئی مسلسل سے زندگی کے مسائل کا حل تلاش کیا جا سکتا ہے پشاور،اضلاع الخدمت فاؤنڈیشن خیبر پختونخواکے تحت عالمی یوم معذوران کے سلسلے میں پریس کلب پشاور میں 30خصوصی افراد میں مفت ویل چیرز تقسیم کئے گئے اس موقع پر الخدمت فاؤنڈیشن کے صوبائی صدر خالد وقاص کی صدارت میں منعقدہ تقریب میں پریس کلب پشاور کے صدر سید بخار شاہ باچا مہمان خصوصی تھے۔تقریب میں الخدمت فاؤنڈیشن کے ضلعی صدر حافظ حمید اللہ،جنرل سیکرٹری ارباب عبدالحسیب،صوبائی منیجرز محمد وسیم،نورالواحدجدون سمیت دیگر ذمہ داران بھی موجود تھے۔اس موقع پرخطاب کرتے ہوئے الخدمت فاؤنڈیشن کے صوبائی صدر خالد وقاص نے کہا کہ الخدمت فاؤنڈیشن صوبہ بھر میں دکھی انسانیت کی بلاتفریق خدمت کے لئے کوشاں ہے جوصحت،تعلیم،پینے کے صاف پانی کی فراہمی،کمیونٹی سروسز،یتیم بچوں کی کفالت،مواخات پروگرام سمیت زندگی کے سات شعبوں میں مصروف عمل ہے انہوں نے کہا کہ گزشتہ ایک سال کے دوران الخدمت فاؤندیشن نے1400خصوصی افراد کو مفت ویل چیئرز فراہم کئے ہیں۔13ہزار سے زائد یتیم بچوں کی کفالت کے ساتھ ساتھ اس وقت صوبہ بھر میں سات ہزار سے زائد بچوں کو تعلیم کی سہولیات فراہم کر رہا ہے جبکہ پشاور سمیت صوبے دیگر اضلاع میں سٹریت چلڈرن کے لئے قائم 9سنٹرز کے زریعے 350سے زائد سٹریٹ چلڈرن کو تعلیم کی جانب راغب کرنے کے لئے کوشاں ہے۔اس موقع پر پریس کلب پشاور کے صدر سید بخار شاہ باچا نے الخدمت فاؤنڈیشن کی گرانقدر خدمات کو سراہتے ہوئے کہا کہ الخدمت فاؤنڈیشن ملک بھر میں حقیقی معنوں میں دکھی انسانیت کی بلاامتیاز خدمت کر رہی ہے اور دیگر فلاحی اداروں کے لئے الخدمت کی خدمات مشعل راہ ہیں ٭معذور افراد بھی ہمارے معاشرے کا حصہ ہیں انہیں بھی وہی حقوق حاصل ہیں جو کہ معاشرے کے دیگر عوام کو حاصل ہیں حکومت فوری طور پر معزور افراد کیلئے سرکاری محکموں میں ملازمتوں میں مختص کوٹے میں اضافہ کرے اور معذور افدار کو درپیش مشکلات کے حل کیلئے اقدامات اٹھائیں یہ مطالبہ معذور سے منعقدہ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے سول ڈیفنس کے چیف وارڈ نعمت علی ایڈوکیٹ نے کیا انہوں نے کہا کہ افسوس کا مقام ہے کہ ہمارے معاشرے میں معذور افراد کو ان کیلئے مختص حقوق سے محروم رکھا جاتا ہے اور انہیں عزت کی نگاہ سے نہیں دیکھا جاتا خالانکہ معذور افراد سب سے زیادہ عزت اور توجہ کے مستحق ہیں اور ہمارے ملک میں معذور افراد کے حقوق کے حوالے سے قوانین بھی موجود ہیں لیکن ان پر کسی قسم کا عمل درآمد نہیں کیا جاتا انہوں نے کہا کہ معذور افراد میں صلاحیتوں کی کوئی کمی نہیں ہوتی لہذا ان کا معذور ہونا کوئی جرم نہیں روزگار اور عزت نہ ملنے کی وجہ سے اکثر معذور افراد معاشرے اور خاندان کیلئے بوجھ سمجھے جاتے ہیں لیکن اگر حکومت ان معذور افراد کو سرکاری ملازتوں میں قابلیت کے مطابق کوٹہ دیں تومعذور افراد کو بھی معاشرے اور خاندان کے لوگ عزت کی نگاہ سے دیکھیں گے انہوں نے کہا کہ ہمارے ملک میں معذور افراد کے عالمی دن پر صرف تقاریب کا انعقاد کرکے ایک سال تک انہیں بھلادیا جاتا ہے لیکن ہم حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ معذور افراد کیلئے ٹرانسپورٹ کرایوں میں نصف کرایہ معاف کرانے،انکے تعلیمی اخراجات معاف کرانے،انہیں مفت علاج معالجے کی سہولیات اور روزگار فراہم کرنے کیلئے نہ صرف قانون سازی کرے بلکہ اس پر سخت عملدرآمد بھی یقینی بنایا جائے٭معذور افراد کے مسائل انتہائی گھمبیر اور حل طلب ہیں جنہیں حل کرنا وقت کی ناگزیر ضرورت ہے۔شرکاء۔ھلال احمر پاکستان اور سہارا سنٹر کے زیر اہتمام ضلع ڈیرہ اسماعیل خان میں عالمی یوم معذوراں کا دن منایا گیا۔جس میں ھلال احمر پاکستان کے ڈسٹرکٹ سیکرٹری شفقت اللہ بلوچ’سیدہ افشین زیدی’سہارا سنٹر کے عامر سہیل سدوزئی سمیت عنایت اللہ ٹائیگر انچارج بم ڈسپوزل اسکواڈ سے خصوصی شرکت کی۔عالمی یوم معذوراں کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے شرکا کا کہنا تھا کہ معذور افراد کے مسائل گھمبیر اور حل طلب ہیں اور اب وقت آچکا ہے کہ ان کو ترجیحی بنیادوں پر حل کیا جائے۔ ہمارے معاشرے جہاں دیگر پسماندہ طبقات مختلف مسائل سے لڑ رہے ہیں وہیں معذور افراد اپنی معذوری کے ساتھ ساتھ ان مسائل کابھی سامنا کررہے ہیں۔معذور افراد جہاں غربت،بے روزگاری، مہنگائی کے ہاتھوں مشکلات سے دوچار ہیں وہیں ہمارے معاشرتی رویے بھی ان کی مشکلات میں اضافے کا سبب بن رہے ہیں۔ہمارے معاشرے میں آج بھی معذور نوجوان خصوصا لڑکیوں کے لیئے شادی ایک بہت بڑا مسئلہ ہے اکثر نامکمل،لاچار اور کمزور سمجھ کر رشتہ نہیں کیا جاتا ہے اور وہ ساری عمر کنواری رہ جاتی ہے ضرورت اس امر کی ہے کہ معاشرے میں ایسی شعور بیداری کی جائے جس سے اِ ن رویوں کو بدلا جاسکے۔اِن خیالات کا اظہار سھارا سماجی تنظیم کے صدر عامر سھیل سدوزئی نے آواز سنٹر فار ڈویلپمنٹ سروسز کے پروگرام اجالا اور پاکستان ہلالِ احمر کے ڈسٹرکٹ سیکرٹری سمتی دیگر شرکا نے کیا۔انہوں نے مزید کہا کہ آج کا دن منانے کا بنیادی مقصد دنیا بھر میں بسنے والے معذور افراد سے اظہارِ یکجہتی کرنا اور ان کے مسائل کو اجاگر کرکے ایسے عملی اقدام کرنا جن سے معاشرے میں انکی بلاتفریق شرکت اور معاشرتی ترقی میں کردار ادا کرنے کے قابل بنانا ممکن ہوسکے۔ ان کا مزید کہناتھا کہ جیسا کہ اِ س وقت ہمارے جیسے معاشروں معذور افراد کی ایک بہت بڑی تعداد نہ صرف انتہائی برے حالات میں زندگی گزارنے پر مجبور ہے بلکہ ان کو دیگر کئی طرح کے خطرات کا بھی سامنا ہے٭ڈپٹی کمشنر لوئر دیر سعادت حسن نے کہا ہے کہ خصوصی افراد ہماری خصوصی توجہ کے مستحق ہیں خصوصی فراد کو معاشرہ کا با عزت شہری بنانا سب کی مشترکہ،زمہ داری ہیں انھوں نے کہا کہ قومیں جذبوں سے بنتی ہیں معذ ور کھلاڑیوں کے درمیان کرکٹ ٹور نا منٹ کا انعقا خوش ائیند اقدام ہے ان خیا لات کا اظہار انھوں نے تیمرگرہ ریسٹ ہاوس گراونڈ پر معزور افرادکے عا لمی دن کے منا سبت سے صدا فاونڈیشن اور سوشل ویلفئیرکے زیر اہتمام ڈپٹی کمشنر ویل چئیر ٹور نا منٹ کے افتتا حی تقریب سے مہمان خصوصی کی حثیت سے خطاب کرتے ہوئے کیا اس موقع پر اے سی لوئر دیر شاہ جمیل خان، ٹی ایم او پرویز اختر،سب انجنئیرز اسیوسی ایشن پاکستان کے صدر ملک بشیر احمد خان، ممبر قومی اسمبلی محبوب شاہ، ارکان صوبائی اسمبلی شفیع اللہ خان، ہمایون خان، ڈسٹرکٹ سپورٹس افیسر لوئر دیر بخت شاہ زیب اسسٹنٹ سپورٹس آفیسرسراج خان صدا فا ونڈیشن کے صدر خور شید عالم سمیت مختلف سکولوں کے طلباء موجود تھے سپیشل افراد کی کرکٹ ٹور نا منٹ سے لوگ محظوظ ہوئے ٹور نامنٹ میں لوئر دیر کے ٹا یگر، باجوڑ گلونہ اور پشاور کے زلمی معزور کرکٹ ٹیموں نے حصہ لیا ٹور نامنٹ کا فائنل دیر ٹایگر اور پشاور زلمے کے کرکٹ ٹیموں کے درمیان کھیلا گیا جو دیر ٹا یگر نے پشاور زلمے کو شکست دیکر ٹورنامنٹ اپنے نام کر لیا پشاور زلمے معزور کرکٹ ٹیم رنر اپ رہی ڈپٹی کمشنر لوئر دیر سعادت حسن، اور اے سی لوئر دیر شاہ جمیل خان نے کھلاڑیوں ٹرافیاں اور انعامات تقسیم کئے٭پاکستان سمیت دنیا بھر میں معذور افراد کا عالمی دن 3 دسمبر کومنایا جا تا گا اس دن کے منانے کا مقصد خصوصی افراد کی تکالیف اور ان کے معاشی و سماجی حقوق سے لوگوں میں آگاہی پیدا کرنا اور سپیشل افراد کو ملک کا مفید شہری بنانے کیلئے اقدامات کرنا ہے پروگرام میں مہمان خصوصی ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر شاہ نواز خان تھے اس کے علاوہ ضلعی سوشل ویلفئر آفیسر امجد آفریدی، نشتر اسپیشل ایجوکیشن کے پرنسپل طارق محمود، کاروان عمل صدر سلیم الطا ف ایڈوکیٹ کے علاوہ دیگر سول سوسائٹی اور معذور تنظیموں کے نمائندوں نے شرکت کی۔اس روزکوہاٹ سمیت ملک بھر میں حکومتی سرپرستی اور سماجی تنظیموں کے زیر اہتمام تقاریب منعقد کی جاتی ہیں کوہاٹ سے تعلق رکھنے والے خصوصی افراد نے عالمی دن کو منانے کیلئے کوہاٹ میں ایک تقریب منعقد کی جس میں کوہاٹ بھر سے اسپیشل افراد نے شرکت کی۔تقریب کے اختتام پر اپنی حقوق کے لیے آواز بلند کرنے کے لیے انھوں نے ٹیبلوز پیش کئے اور اسپشل افراد کوعلاج معالجے،تعلیم اور روزگار سمیت دیگر معاملات میں درپیش مشکلات کو حل کرنے کا حکومت سے مطالبہ کیا۔انہوں نے معذور افراد کے کوٹہ سسٹم دس فیصد بڑھانے کا بھی مطالبہ کیا٭سوات میں معذوروں کی عالمی دن کے مناسبت سے ڈی سی سوات کے قیادت میں واک کا اہتمام، سوات پریس کلب سے نکالی جانیوالی واک میں صحافیوں اوردیگرلوگوں نے بھی بھرپور شرکت کی، واک میں شامل سپیشل افراد نے شرکت کرکے اس عالمی دن کے حوالے سے لوگوں کی توجہ اپنی طرف مبذول کرائی، تفصیلات کے مطابق معذوروں کی عالمی دن کی مناسبت سے ملک کے دیگر حصوں کی طرح سوات میں بھی واک کااہتمام کیاگیا، سوات پریس کلب سے نکالی جانیوالی واک کی قیادت ڈپٹی کمشنر سوات ثاقب رضا اسلم اور اے سی بابوزئی عامرعلی شاہ کررہے تھے،جبکہ سوات پریس کلب کے چیئرمین شہزادعالم، سینئرصحافیوں غفورخان عادل جاوید اقبال میرخانخیل، خورشیدعمران، حضرت بلال ماماجی اور دیگرصحافیوں کے علاوہ معذوروں افراد کے یونین کے صدر سجادخان، طارق، عبداللہ، ادریس خان اوردیگربھی شریک تھے، اس موقع پر ڈی سی سوات نے اپنے پیغام میں کہا کہ مجبوری کو مجبوری نہ بنانے والے خصوصی افراد کی کردارقابل ستائش ہے۔
Load/Hide Comments