سپریم کورٹ: ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ کالعدم، چوہدری پرویز الہی وزیر اعلی پنجاب قرار


اسلام آباد (صباح نیوز ) سپریم کورٹ آف پاکستان نے وزیرِ اعلی پنجاب کے انتخاب میں ڈپٹی اسپیکر پنجاب اسمبلی کی رولنگ کے خلاف پرویز الہی کی درخواست منظور کرتے ہوئے ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ کالعدم قرار دیدی اور پرویز الہی کو پنجاب کا وزیراعلی قرار دیدیا۔

چیف جسٹس عمر عطابندیال کی سربراہی میں جسٹس اعجازالاحسن اور جسٹس منیب اختر پر مشتمل سپریم کورٹ کے 3 رکنی بینچ نے محفوظ فیصلہ سنادیا اور فیصلے کا آغاز قرآن پاک کی آیت سے کیا گیا۔سپریم کورٹ کا 11 صفحات پر مشتمل مختصر فیصلہ چیف جسٹس نے سنایا اور کہا کہ پرویز الہی کی درخواست منظور کی جاتی ہے اور آئین کے آرٹیکل 63 اے کی تشریح درست کی گئی اور اس حوالے سے ڈپٹی اسپیکر پنجاب اسمبلی کی رولنگ غیر آئینی قرار دی جاتی ہے۔

فیصلے میں ڈپٹی اسپیکر پنجاب اسمبلی کی رولنگ کالعدم قرار دیتے ہوئے کہا گیا کہ پرویز الہی وزیراعلی پنجاب ہیں، اور چیف سیکریٹری پرویز الہی کی وزیراعلی تعیناتی کا نوٹیفیکیشن جاری کرے۔سپریم کورٹ نے کہا کہ حمزہ شہباز کی بنائی گئی کابینہ تحلیل کردی گئی ہے اور پرویز الہی رات ساڑھے گیارہ بجے حلف اٹھائیں۔فیصلے میں ہدایت کی گئی ہے کہ عدالتی فیصلے کی کاپی گورنر کو ارسال کی جائے، گورنر اگر حلف لینے سے انکار کرے تو صدر مملکت حلف لیں۔

سپریم کورٹ نے مزید کہا ہے کہ حمزہ شہباز کے لگائے گئے تمام مشیران، معاونین کو بھی فارغ کرنے کا حکم دیا جاتا ہے۔قبل ازیں سپریم کورٹ نے وزیر اعلی پنجاب کے انتخاب کے حوالے سے ڈپٹی اسپیکر دوست مزاری کی رولنگ کے خلاف دائر درخواست پر حکومتی اتحاد کے بائیکاٹ کے بعد درخواست گزاروں کے وکلا کے دلائل مکمل ہونے پر فیصلہ محفوظ کرنے کے بعد شام پونے چھ بجے پر سنانے کا اعلان کیا تھا تاہم تاخیر کے بعد ساڑھے سات  بجے سنانے کا اعلان کیا لیکن بڑی تاخیر کے بعدآٹھ بجکر باون منٹ پر سنادیا گیا،

اس سے قبل چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے ڈپٹی اسپیکردوست محمد مزاری کی رولنگ کیخلاف اسپیکرپنجاب اسمبلی پرویز الہی کی جانب سے دائر درخواست کی سماعت کا آغاز کیاتو دوست محمد مزاری کے وکیل عرفان قادر روسٹرم پر آ ئے اور موقف اپنایا کہ مجھے کہا گیا ہے عدالتی کاروائی کا حصہ نہیں بنیں گے اس لئے ہم مزید کاروائی کا حصہ نہیں بنیں گے،عرفان قادر نے کہاکہ ہم فل کورٹ بنچ بنانے کی استدعا مسترد کرنے کے حکم کیخلاف نظر ثانی کی درخواست دائر کرینگے۔۔

پیپلزپارٹی کے وکیل فاروق ایچ نائیک  نے بھی روسٹرم پر پہنچ کر موقف اپنایا کہ ان کی موکل جماعت پیپلز پارٹی بھی عدالت میں پیش نہیں ہوگی۔جس پر چیف جسٹس نے کہاکہ ٹھیک ہے آپ سیٹ پر بیٹھ جائیں لیکن فاروق نائیک صاحب آپ نے کل عدالت کی اچھی معاونت کی تھی۔چیف جسٹس نے کہاکہ ابھی پیپلز پارٹی کو کیس میں فریق ہی نہیں بنایا گیا تھا۔عدالت میں صرف پارٹی سربراہ کی ہدایات پر عمل کرنے کے حوالے سے دلائل دیئے گئے،  ہم نے یہ فیصلہ کیا کہ موجودہ کیس میں فل کورٹ بنانے کی ضرورت نہیں ہے،

چیف جسٹس  پاکستان نے کہاکہ فریقین کے وکلا کو بتایا تھا کہ آئین گورننس میں رکاوٹ کی اجازت نہیں دیتا،صدر کی سربراہی میں 1988 میں نگران کابینہ سپریم کورٹ نے کالعدم قرار دی تھی، عدالت کا موقف تھا کہ وزیراعظم کے بغیر کابینہ نہیں چل سکتی، چیف جسٹس عمر عطابندیال نے کہاکہ فل کورٹ کی تشکیل کیس لٹکانے سے زیادہ کچھ نہیں تھا، ستمبر کے دوسرے ہفتے سے پہلے ججز دستیاب نہیں، چیف جسٹس نے پرویزالٰہی کے وکیل علی ظفر کو مخاطب کرتے ہوئے کہاکہ سوال یہ ہے کہ  کیا سترہ میں سے آٹھ ججز کی رائے کی سپریم کورٹ پابند ہو سکتی ہے؟فل کورٹ بنچ کی اکثریت نے پارٹی سربراہ کے ہدایت دینے سے اتفاق نہیں کیا تھا،عدالتی بائیکاٹ کرنے والوں نے اتنی گریس دکھائی ہے کہ بیٹھ کر کارروائی سن رہے ہیں،

چیف جسٹس کا کہنا تھاکہ اپنے کام کو عبادت سمجھ کر کرتا ہوں،پرویزالہی کے وکیل علی ظفر کادلائل شروع کرتے ہوئے کہنا تھاکہ اکیسویں آئینی ترمیم کے خلاف کیس میں جسٹس جواد خواجہ نے آرٹیکل 63 اے کو خلاف آئین قرار دیا تھا، جسٹس جواد خواجہ کی رائے تھی کہ آرٹیکل 63 اے ارکان کو آزادی سے ووٹ دینے سے روکتا ہے تاہم جسٹس جواد خواجہ نے فیصلے میں اپنی رائے کی وجوہات بیان نہیں کیںاس لئے ان  کی رائے سے اتفاق نہیں کرتا،علی ظفر ایڈووکیٹ کا کہنا تھاکہ پرویز مشرف دور میں پارٹی سربراہ کی جگہ پارلیمانی سربراہ کا قانون آیا تھا، اٹھارہویں ترمیم میں پرویز مشرف کے قانون کو ختم کیا گیا، جسٹس منیب اخترنے سوال اٹھایاکہ پارٹی سربراہ کی کیا تعریف ہے؟  کیا پارٹی سربراہ صرف سیاسی جماعت کا سربراہ ہوتا ہے؟ علی ظفر نے کہاکہ میری نظر میں جسٹس عظمت سعید کی آبزرویشن آئین کے خلاف ہے، اکیسویں ترمیم میں آرٹیکل 63 اے ایشو نہیں تھا،

جسٹس عظمت سعید کی آبزرویشن کی سپریم کورٹ پابند نہیں،جسٹس اعجازالاحسن نے کہاکہ پارلیمانی لیڈر والا لفظ کہاں استعمال ہوا ہے؟علی ظفر ایڈووکیٹ کا کہنا تھاکہ 2002 میں سیاسی جماعتوں کے قانون میں پارلیمانی پارٹی کا ذکر ہوا،جسٹس اعجازالاحسن نے کہاکہ پارلیمنٹری پارٹی کی جگہ پارلیمانی لیڈر کا لفظ محظ غلطی تھی چیف جسٹس نے علی ظفر سے مکالمہ کے دوران سوال کیا کہ آئین کیا کہتا ہے کہ کس کی ہدایات پر ووٹ دیا جائے،علی ظفر نے کہاکہ آئین کے مطابق ووٹ کی ہدایات پارلیمنٹری  پارٹی  دیتی ہے،چیف جسٹس نے سوال کیا کہ کیا پارلیمنٹری  پارٹی، پارٹی سربراہ سے الگ ہے؟ علی ظفر نے جواب دیا کہ پارلیمانی جماعت اور پارٹی لیڈر دو الگ الگ چیزیں ہیں،

جسٹس اعجاز الاحسن کا کہنا تھاکہ آئین کے تحت پارٹی سربراہ پارلیمانی پارٹی کے فیصلے پر عملدرآمد کراتا ہے، چیف جسٹس نے کہاکہ  پارلیمانی جماعت اپنے طور پر تو کوئی فیصلہ نہیں کرتی، سیاسی جماعت کا فیصلہ ہوتوپارلیمانی جماعت کو آگاہ کیا جاتا ہے جس کی روشنی میں وہ فیصلہ کرتی ہے، جسٹس منیب اختر نے سوال اٹھایا کہ پارٹی سربراہ کی کیا تعریف ہے؟کیا پارٹی سربراہ صرف سیاسی جماعت کا سربراہ ہوتا ہے؟ جسٹس اعجازالاحسن نے کہاکہ اٹھارہویں اور اکیسویں ترامیم کے کیسز میں آرٹیکل 63 کی شقوں کا سطحی جائزہ لیا گیا ، آرٹیکل 63 اے کے حوالے سے پارٹی لیڈر کا معاملہ ماضی میں کبھی تفصیل سے نہیں دیکھا گیا،

چیف جسٹس نے کہاکہ جج کا بار بار اپنی رائے تبدیل کرنا اچھی مثال نہیں ہوتی، جج کی رائے میں یکسانیت ہونی چاہیے، ٹھوس وجہ کے بغیر اپنی رائے تبدیل نہیں کر سکتا، چیف جسٹس نے کہاکہ اگر کوئی واضح قانون سامنے آئے تو معذرت کر کے رائے تبدیل کر لوں گا، آئین کے آرٹیکل 63 اے کی تشریح میں اکیسویں ترمیم کیس کا حوالہ نہیں دیا گیا،اس دوران ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامر رحمان روسٹرم پر آگئے اور موقف اپنایاکہ عدالت کی خدمت میں چند گزارشات پیش کرنا چاہتا ہوں،جسٹس منیب اخترنے ان سے سوال کیاکہ کیا وفاقی حکومت حکمران اتحاد کے فیصلے سے الگ ہوگئی ہے؟

ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہاکہ آئین کے آرٹیکل 27 اے کے تحت عدالت کی معاونت کروں گا تاکہ فیصلے میں کوئی غلطی نہ ہو جائے چیف جسٹس نے کہاکہ  اس لئے سب کو معاونت کی کھلی دعوت ہے، ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامر رحمان کا کہنا تھاکہ عدالت نے معاونت کیلئے اٹارنی جنرل کو رولز 27 اے کا نوٹس کیا۔ عدالتی معاونت کے نوٹس پر پیش ہو رہا ہوں، اس دوران پی ٹی آئی کے وکیل امتیاز صدیقی کا کہنا تھاکہ پارٹی سربراہ کی ہدایات بر وقت آنے چاہیے۔ڈپٹی اسپیکر نے کہا کے مجھے چوہدری شجاعت کا خط موصول ہوا۔چوہدری شجاعت کے وکیل نے کہا خط ارکان کو بھیجا گیا؟۔

جسٹس اعجازالاحسن نے کہاکہ کیا ووٹنگ سے پہلے خط پارلیمانی پارٹی کے  اجلاس میں پڑھا گیا۔پرویز الہی کے وکیل بیرسٹر علی ظفر نے دلائل مکمل کر لئے تو پی ٹی آئی کے وکیل امتیاز صدیقی نے دلائل کا آغاز کر تے ہوئے کہا کہ سوال یہ ہے کہ خط پولنگ سے پہلے پارلیمنٹری پارٹی کے سامنے پڑھا گیا تھا یا نہیں،عدالت کے سامنے سوال یہ بھی ہے کہ فیصلے کو ٹھیک سے پڑھا گیا یا نہیں،اس موقع پر عدالت نے کیس کی سماعت میں ،ڈھائی بجے تک وقفہ کا اعلان کردیا اور کہاکہ دوسرے فریق سن رہے ہیں لیکن کارروائی میں حصہ نہیں لے رہے،  اس وقت انکی حیثیت ایسے ہی ہے جیسے اقوام متحدہ میں مبصر ممالک کی ہوتی ہے،اس موقع پرجسٹس اعجاز الاحسن اور فاروق نائیک میں دلچسپ مکالمہ ہوا ،

جسٹس اعجازالاحسن نے کہاکہ نائیک صاحب اگر کچھ بہتری آ سکتی ہے تو عدالت سننے کیلئے تیار ہے،فاروق نائیک نے کہاکہ مسئلہ یہ ہے کہ ان مقدمات میں ہم پارٹی پالیسی کے پابند ہوتے ہیں،وقفہ کے بعد سماعت دوبارہ شروع ہوئی تو سابق ایڈووکیٹ جنرل پنجاب احمد اویس نے روسٹرم پر آ کر موقف اپنایا کہ سپریم کورٹ فیصلے سے قبل کچھ باتیں سامنے رکھے کہ تین ماہ سے وزیر اعلی پنجاب کا معاملہ زیر بحث تھا،تحریک انصاف کے وکیل علی ظفر نے کہاکہ ق لیگ کے تمام ارکان کو علم تھا کہ کس کو ووٹ دینا ہے،پارٹی سربراہ پارلیمانی پارٹی کو ہدایات دے سکتا ہے لیکن ڈکٹیٹ نہیں کر سکتا۔ووٹ کا فیصلہ پارلیمانی پارٹی نے کرنا ہے، چیف جسٹس عمر عطابندیال کا کہنا تھاکہ فریق دفاع نے الیکشن کمیشن کے منحرف ارکان کیخلاف فیصلہ کا حوالہ دیا ہے۔

علی ظفر نے کہاکہ ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ میں الیکشن کمیشن کے فیصلہ ذکر نہیں۔چیف جسٹس نے کہاکہ اختیارات پارٹی ہیڈ کے ذریعے ہی منتقل ہوتے ہیں، کوئی شبہ نہیں پارٹی سربراہ کا اہم کردار ہے، لیکن ووٹنگ کیلئے ہدایات پارلیمانی پارٹی ہیڈ جاری کرتا ہے،علی ظفر نے کہاکہ ڈپٹی سپیکر نے رولنگ الیکشن کمیشن کے فیصلے کے مطابق نہیں دی، ڈپٹی سپیکر الیکشن کمیشن کے فیصلے کا پابند بھی نہیں ہے، چیف جسٹس نے کہاکہ کل عدالت میں بھی الیکشن کمیشن کے فیصلے کا حوالہ دیا گیا تھا، سپریم کورٹ کس قانون کے تحت الیکشن کمیشن کے فیصلوں کی پابند ہے؟علی ظفر نے جواب دیا کہ کوئی قانون سپریم کورٹ کو الیکشن کمیشن فیصلے کا پابند نہیں بناتا، جسٹس اعجازالاحسن نے سوال کیا کہ کل کتنے منحرف ارکان نے ضمنی الیکشن میں حصہ لیا؟

فیصل چوہدری ایڈووکیٹ کا کہنا تھاکہ بیس میں سے 16 نے ن لیگ، دو نے آزاد الیکشن لڑا، کل 18 نے الیکشن لڑا ان میں سے 17 کو شکست ہوئی، چیف جسٹس نے فیصل چوہدری  کو ہدایت کی کہ ڈسپلن کے تحت آئندہ روسٹم پر آ کر ہی بات کیا کریں، جسٹس اعجازالاحسن نے کہاکہ فریق دفاع کے مطابق منحرف ارکان کے کیس میں ہدایات پارٹی ہیڈ عمران خان نے دی۔فریق دفاع کا کہنا ہے الیکشن کمیشن کا فیصلہ کالعدم ہوا تو 25 ارکان بحال ہو جائے گے۔فریق دفاع کاکہنا ہے اپیل منظور ہونے سے حمزہ کے ووٹ 197 ہوجائیںگے۔جسٹس الیکشن کمیشن کے فیصلہ کے بعد بہت ساری پیشرفت ہو چکی ہے،علی ظفر نے کہاکہ وزارت اعلی کے الیکشن پر ہائیکورٹ کا فیصلہ آ چکا ہے۔الیکشن کمیشن کا فیصلہ پاسٹ اینڈ کلوز ٹرانزیکشن ہو چکی ہے،

یکم جولائی کو سپریم کورٹ نے وزارت اعلی کے الیکشن پر متفقہ فیصلہ دیا۔جسٹس اعجازالاحسن نے کہاکہ عدالت کو رضا مندی دی گئی ضمنی الیکشن ہونے دیا جائے۔یہ یقین دہانی بھی دی گئی کہ ضمنی الیکشن کے نتائج پر رن آف الیکشن کرایا جائے۔چیف جسٹس نے کہاکہ یکم جولائی کو وزیراعلی کا الیکشن ضمنی انتخابات کے بعد ہونے کا حکم فریقین کے اتفاق رائے سے تھا، کیا ضمنی انتخابات کے بعد منحرف ارکان کی اپیل تک سماعت روکنے کا اعتراض ہو سکتا ہے؟علی ظفر نے کہاکہ اصولی طور پر منحرف ارکان کی اپیلوں کو پہلے سننے کا اعتراض نہیں بنتا، حمزہ شہباز نے سپریم کورٹ میں بیان دی اور ضمنی الیکشن پر کوئی اعتراض نہیں کیا۔اب ضمنی الیکشن پر اعتراض کیسے کر سکتے ہیں؟حمزہ شہبازنے کہا کہ ضمنی الیکشن کے نتائج پر رن آف الیکشن منظور ہے۔چیف جسٹس نے سوال کیا کہ کیا رضامندی دیتے وقت حمزہ شہباز عدالت میں موجود تھے؟

پرویز الہی کے وکیل کا کہنا تھا کہ حمزہ شہباز عدالت میں موجود تھے،دوران سماعت اس قسم کے اعتراضات کرنا بیوقوفی ہے،علی ظفر ایڈووکیٹ کا کہنا تھا کہ وزیراعلی اور ڈپٹی سپیکر کے وکلا میرٹ پر عدالتی سوالات کی جواب نہیں دے سکے،چیف جسٹس نے کہاکہ آئین کے آرٹیکل 63 اے کی تشریح کا معاملہ طے ہو چکا، اب مزید تشریح کی ضرورت ہی نہیں،چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے بھی آرٹیکل 63 اے کی تشریح کی کوشش کی ہے،کوشش اچھی ہے لیکن ایڈووکیٹ جنرل کی تشریح درست نہیں،

چیف جسٹس نے کہاکہ اگر کسی اور نے دلائل دینے ہیں تو آجائے اس پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامر رحمان اور اظہر صدیق ایڈووکیٹ روسٹرم پر آ گئے ، اظہر صدیق ایڈووکیٹ نے دلائل دینا چاہے تو عدالت نے کہاکہ علی ظفر کے دلائل کافی مفصل تھے اس لئے انہیں دلائل دینے کی ضرورت نہیں جسٹس منیب اختر نے کہاکہ آئین کے آرٹیکل 63 اے کے مطابق پارلیمانی پارٹی کو اختیار دینا ضروری ہے، پارلیمانی پارٹی کو مضبوط کرنا پارلیمانی جمہوریت کو مضبوط کرنے کے مترادف ہے،ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہاکہ 2015 کے سپریم کورٹ کے فیصلے کے مطابق پارٹی سربراہ ہدایت دے سکتا ہے،سپریم کورٹ کے فیصلے پر جب تک نظر ثانی نہ ہو اس پر عملدرآمد لازمی ہے،

جسٹس منیب اختر نے کہاکہ سپریم کورٹ کے ہر فیصلے پر عملدرآمد لازمی نہیں،ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہاکہ فیصلے موجود ہیں کہ سپریم کورٹ کے فیصلے ہرعدالت کیلئے بائنڈنگ ہیں،جسٹس منیب اختر نے کہاکہ آپ کی دلیل عجیب و غریب ہے،جسٹس اعجاز الاحسن نے کاکہ وہاں اس کیس میں تو ووٹنگ کا سوال ہی نہیں تھا،آپ نے کیسے تعین کر لیا کہ ڈپٹی اسپیکر نے کس فیصلے کا حوالہ دیا ہے؟ سپریم کورٹ نے فیصلہ محفوظ کر لیاجو بعد میں سنایا گیا۔