کراچی (صباح نیوز)مشیر خزانہ وریونیو شوکت فیاض احمد ترین نے کہا ہے کہ ہماری معیشت کو بڑھانے کے حوالے سے پوری حکمت عملی ہے کہ کس طرح ہم نے معیشت کو بڑھانا ہے۔ ہم ٹیکس ٹو جی ڈی پی کو تقریباًچھ سے سات سال میں 20فیصد پر لے کر جائیں گے اور اس وقت ہم ریونیو اکٹھا کرنے کے حوالے سے گذشتہ برس کے مقابلہ میں 36فیصد زیادہ ہیں۔ ہماری انکم ٹیکس کی آمدنی میں اضافہ 32فیصد ہے
۔ آئندہ چار، پانچ برس میں آئی ٹی کی ایکسپورٹس کو تقریباً50ارب ڈالرز تک لے کر جاسکتے ہیں اور یہ وہ شعبہ ہے جو ہماری ایکسپورٹس اور امپورٹس کے فرق کو پورا کرنے میں مدد دے گا۔ زراعت کے شعبہ میں کافی خوشحالی آئی ہے ۔اس وقت لگ رہا ہے کہ ہماری معیشت پانچ فیصد سے زائد ترقی کرے گی۔آئی ایم ایف پروگرام کے حوالے سے ہم منزل پر پہنچ گئے ہیں لیکن آئی ایم ایف پروگرام کا اعلان میں نہیں کرسکتا وہ آئی ایم ایف ہی کرے گا۔آئی ایم ایف پروگرام غیر یقینی صورتحال کو ختم کردے گا۔مووجودہ حکومت عام آدمی کے ساتھ کھڑی ہے اور ہم پر عزم ہیں کہ جیسے جیسے ہمارے پاس اور گنجائش پیدا ہو گی ہم اور سہولتیں دیں گے۔
ان خیالات کااظہار شوکت ترین نے کراچی میں ہسپتال کے سنگ بنیاد رکھنے کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ انہوں نے کہا کہ میں آج وہی کہوں گا جو مجھے آتا ہے اور وہ بھی شاید زیادہ نہ آتا ہو اور وہ پاکستانی معیشت۔ انہوں نے کہاکہ تین سال قبل جب موجودہ حکومت نے باگ ڈور سنبھالی تو کچھ بحران تھے، کرنٹ اکائونٹ خسارے کا بحران تھا اور ہمارے پاس ڈالرز نہیں تھے، ڈالرز جمع کرنے کی تگ و دو تو کی لیکن آئی ایم ایف پروگرام میں چلے گئے اور لوگوں کو معلوم ہے کہ آئی ایم ایف پروگرام سخت ہوتا ہے اس کی وجہ سے معیشت ایک قسم سے کسولیڈیٹ ہوئی اور شرح نمو جو ساڑھے پانچ فیصد پر تھی وہ تقریباًڈیڑھ دو فیصد پر آگیا اور ساتھ ہی کوروناوائرس بھی آگیا۔
کوروناوائرس کی وجہ سے منفی 0.5شرح نمو ہو گئی۔ جس طرح وزیر اعظم عمران خان نے کوروناوائرس کو ہینڈل کیا اس کی داد تو انہیں پوری دنیا نے دی،جب کوروناوائرس ہو رہا تھا اور معاشی سرگرمیاں رکی ہوئی تھیں تو بھی وزیر اعظم دو تین چیزوں میں سرمایاکاری کرتے رہے ، ایک ہائوسنگ کے شعبہ میں سرمایاکاری کی۔ ہمارے بینک رئیل اسٹیٹ کے شعبہ میں سرمایاکاری نہیں کرتے تھے ، ہمارے پاس فور کلوثر لاء ہی ہمارے پاس نہیں تھا، عمران خان نے عدالتوں میں جاکر اس قانون کو منظور کروایا جس سے ہمارے ہائوسنگ کے شعبہ میں معاشی سرگرمیاں شروع ہو گئیں، دوسرا انہوں نے زراعت کے شعبہ پر زور دیا اور تیسرا انہوں نے صنعت اور خاص طور پر ایکسپورٹ کی صنعت کو بڑھاوا دیا۔ اس سے 2020.21کی شرح نمو تقریباًچار فیصد پر آگئی اور ایک طرح سے ساڑھے چار فیصد کی ترقی تھی۔
شوکت ترین نے کہا کہ ہمیں ہر سال 15سے20لاکھ نوکریاں چاہیں بلکہ اس سے بھی کچھ زیادہ چاہئیں، ہماری60فیصد آبادی30سال سے کم ہے اور اس کو نوکریاں چاہئیں۔ ہم نے کہا کہ ہم اس شرح نمو کو چار سے پانچ اور پھر چھ پر لے کر جائیں گے لیکن ہمیں کس طرح کی ترقی چاہیئے، ہم نے فیصلہ کیا کہ ہمیں انکلوزو اور پائیدار شرح نمو چاہئے ، سب کے لئے پائیدار ترقی چاہئے۔ ہمیں ترقی چار، یاپانچ سال کے لئے نہیں بلکہ 20یا30سال کے لئے چاہیئے۔ جو ملک معاشی ترقی میں ایک مدار سے دوسرے مدار میں گئے انہوں نے آٹھ یا10فیصد کی شرح سے20یا30سال ترقی کی جن میں چین سب سے آگے ہے جس نے30سال تک 10فیصد کی شرح سے ترقی کی۔
ترکی کو دیکھیں اور بھارت کو بھی دیکھیں تو انہوں نے بھی ایک طرح سے ترقی کی اور پائیدار ترقی کی۔ ہماری امپورٹ اور ایکسپورٹ میں بڑا فرق ہے ، ہماری ایکسپورٹ جی ڈی پی کی آٹھ سے نو فیصد ہے اور امپورٹ 20سے22فیصد ہے، اس دفعہ ہماری ایکسپورٹس 10فیصد ہوں گی اور امپورٹس25فیصد ہوں گی، یہ بہت بڑا فرق ہے۔ ہم نے ٹیکس ٹو جی ڈی پی کو تقریباًچھ سے سات سال میں 20فیصد پر لے کر جائیں گے اور اس وقت ہم ریونیو میں گزشتہ برس کے مقابلہ میں 36فیصد زیادہ ہیں۔ ہماری انکم ٹیکس کی آمدنی میں اضافہ 32فیصد ہے۔ ہم رواں سال کوشش کریں گے کہ ریونیو کو نو فیصد سے ساڑھے11فیصد پر لے جائیں اور آئندہ برس 14فیصد پر لے جائیں ، میراہدف تو تھا کہ سات یا آٹھ سال میں ہم 20فیصد پر جائیں گے لیکن اگر ہم موجودہ رفتار سے ترقی کرتے رہے تو ہم یہ ہدت پانچ سال میں حاصل کر لیں گے۔
ہم نے زراعت کے شعبہ کو نذرانداز کیاجس کی وجہ سے ہم خوراک کی کمی کا شکار ملک بن گئے تاہم اب ہم زراعت کے شعبہ پر بھرپور توجہ دے رہے ہیں ہماری فصلیں شاندار سے شاندار ہو رہی ہیں ، رواں سال ہماری کپاس کی فصل کی پیداوار بھی 95لاکھ گانٹھوں تک آجائے گی۔زراعت کے شعبہ میں کافی خوشحالی آئی ہے ۔ہم نے انڈسٹری اور ایکسپورٹس کو بڑھانا ہے اور اس مقصد کے لئے ہم نے کام مال پر ڈیوٹیاں اڑا دی ہیںتاکہ مقامی صنعت بھی ترقی کرے اور ایکپورٹ کی صنعت بھی ترقی کرے۔ ایکسپورٹس32فیصد کی شرح سے ترقی کررہی ہیں۔
آئی ٹی کی ایکسپورٹس گزشتہ برس47فیصد بڑھیں اور رواں برس ہم اس کو 75فیصد پر لے کر جارہے ہیں اور ان کو مزید سہولیات دی جارہی ہیں تاکہ وہ آئندہ برس سے100فیصد کے حساب سے ترقی کریں۔ آئندہ چار، پانچ برس میں آئی ٹی کی ایکسپورٹس کو تقریباً50ارب ڈالرز تک لے کر جاسکتے ہیں اور یہ وہ شعبہ ہے جو ہماری ایکپورٹس اور امپورٹس کے فرق کو پورا کرنے میں مدد دے گا۔ ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ ہم 40لاکھ گھرانوں کی مدد کریں گے ، ان کو زراعت میں بلاسود قرضے دیں گے، شہروں کے رہائشیوں کو کاروباری کے لئے بلاسود قرضے دیں گے ، گھروں کی تعمیر کے لئے بلاسود قرض دیں گے ان کو صحت کارڈ بھی ملے گا اور انہیں ہنر بھی سکھایا جائے گا، یہ پیکج اگلے تین سے چار سال کا پیکج ہے اور پر 1400ارب روپے خرچ کیئے جائیں گے۔ ہم عام آدمی کو سہولت دینے کے لئے کوشش کررہے ہیں۔