افغانستان اقتصادی بحران، امریکہ اور خطہ۔۔۔تحریر سلیم صافی


شروع دن سے ”جرگہ“ میں یہ دہائی دے رہا تھا کہ امریکی فوج نکلی ہے لیکن امریکہ افغانستان سے نہیں نکلا۔ اس نے حکمت عملی تبدیل کردی ہے اور اس کی نئی حکمت عملی افغانستان اور علاقے کے لئے پہلے سے زیادہ خطرناک ہے۔ امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے اپنی افواج نکال دیں۔

دوسری طرف ان کا اتحادی اشرف غنی اچانک اور پراسرار طور پر کابل چھوڑ کر چلا گیا۔ چنانچہ طالبان کو اپنے منصوبے سے پانچ ماہ قبل کابل میں داخل ہونا پڑا۔ ایک مثبت پہلو یہ تھاکہ بغیر کسی بڑی جنگ اور خونریزی کے افغانستان میں انتقال اقتدار ہوگیا۔

ایک اور مثبت پہلو یہ ہے کہ جنگ کا خاتمہ ہوگیا اورمجموعی طور پر طالبان کے سخت کنٹرول کی وجہ سے امن بھی آگیا۔ جس طرح افغانستان خلاف توقع اچانک طالبان کی جھولی میں آگرا اسی طرح خلاف توقع اب کی بار طالبان نے تمام مخالفین کے لئے عام معافی کا اعلان کیا۔

مثالی نہیں لیکن خواتین اور میڈیا سے متعلق بھی اب کی بار ان کا رویہ مختلف تھا لیکن سب سے بڑا مسئلہ پیسے اور روزگار کا آگیا۔امریکہ اور اس کے اتحادی ہر سال اربوں ڈالر افغانستان میں خرچ کررہے تھے۔

بے شک ان کا بڑا حصہ جنگ اور کرپشن کی نذر ہوتا تھا لیکن وہ پیسہ کسی نہ کسی شکل میں افغان مارکیٹ میں گردش کررہا تھا اور گزشتہ سال کے دوران بھی افغانستان کے افراط زر اور جی ڈی پی کے انڈیکیٹرز پاکستان سے بہتر تھے۔

امریکہ اور نیٹو کے انخلا سے وہ پیسہ افغان مارکیٹ میں آنا بند ہوگیا۔ دوسری طرف بیشتر پیسے والے لوگوں، جن میں زیادہ تر کرزئی اور اشرف غنی دور کے حکمران تھے، نے اپنا پیسہ بیرون ملک منتقل کیا۔

طالبان نے اب کی بار عام معافی کی پالیسی اپنائی لیکن ان کے ماضی کے خوف کی وجہ سے ذہانت اور فن کے حامل پروفیشنلز کی بڑی تعدادبھی افغانستان سے نکل گئی۔ ابتدا میں طالبان کو بینک بھی بند کرنے پڑے اور کئی دن تک سرکاری دفاتر میں بھی کام نہ ہوسکا، جس کی وجہ سے معیشت کا پہیہ جام ہوگیا۔

گزشتہ برسوں میں امریکی، افغان حکومت کے ایک ملین سے زائد سرکاری ملازمین کی تنخواہیں ادا کرتے تھے لیکن طالبان کے آتے ہی انہوں نےوہ سلسلہ بند کردیا بلکہ افغان حکومت کے اثاثے بھی منجمد کردیے جس کی وجہ سے طالبان حکومت دنیا کے ساتھ اس طرح تجارت بھی نہیں کرسکتی جس طرح کہ غنی حکومت کیا کرتی تھی۔ چنانچہ افغانستان میں بدترین معاشی بحران اور انسانی المیہ جنم لے چکا ہے۔

عملاً سب ممالک بشمول امریکہ، چین اور روس کے رابطے میں ہیں لیکن باقاعدہ طور پر اب تک کسی بھی ملک نے طالبان کی حکومت کو تسلیم نہیں کیا۔امریکہ کی زیرِقیادت دنیا کا مطالبہ ہے کہ طالبان سب دھڑوں پر مشتمل جمہوری حکومت قائم کریں، خواتین کے حقوق کو یقینی بنائیں وغیرہ وغیرہ لیکن دوسری طرف طالبان کا اصرار ہے کہ وہ یہ تمام تقاضے پورے کررہے ہیں۔

گزشتہ روز طالبان حکومت کے وزیرخارجہ امیر خان متقی کو اسلام آباد میں براہ راست سننے کا موقع ملا، ان کا اصرار تھا کہ وہ عالمی برادری کے تمام تقاضے پورے کرچکے ہیں لیکن امریکہ اور مغربی دنیا مفروضوں کی بنیاد پر ان کی حکومت سے تعاون نہیں کررہی۔

ان کا کہنا تھا کہ تسلیم کرنے کے لئے عالمی سطح پر ایسا کوئی پیمانہ نہیں کہ وہ حکومت مغربی طرز پر جمہوری ہو۔ انہوں نے کہا کہ دنیا میں شخصی حکومتیں بھی ہیں، خاندانی آمریتیں بھی ہیں، فوجی ڈکٹیٹرشپ بھی ہے، کمیونسٹ نظام کےحامل ممالک بھی موجود ہیں اور شرعی قوانین پر مبنی نظام رکھنے والے ممالک بھی۔

ان سب کو دنیا نے تسلیم کیا ہے۔ سب اقوام متحدہ کے ممبران ہیں اور اندرونی نظام یا تبدیلیوں کی وجہ سے کسی ملک کی حکومت کو تسلیم کرنے یا نہ کرنے کا سوال ہی نہیں اٹھایا جاتا لیکن صرف طالبان کی حکومت سے متعلق یہ سوال اٹھایا جارہا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ جو لوگ کل تک حکمران اور امریکہ کا اتحادی ہونے کی وجہ سے ہم سے لڑرہے تھے، ہمیں مار رہے تھے، ہمیں جیلوں میں ڈال رہے تھے، ان لوگوں کو نہ صرف یہ کہ ہم نے معاف کردیا ہے بلکہ ہمارے لوگ ان کے گھروں پر پہرے دے رہے ہیں۔ ان کے دور میں ہیومین رائٹس کی خلاف ورزی کا کوئی سوال نہیں اٹھایا گیا جبکہ ہمیں الزام دیا جارہا ہے۔

متقی صاحب کا کہنا تھا کہ دنیا میں کہیں ایسی حکومت نہیں جس میں سیاسی مخالفین بھی ساتھ شامل ہوں۔ کیا جوبائیڈن، اپنی حکومت میں ڈونلڈ ٹرمپ کو شامل کرسکتے ہیں ؟ کیا کسی اور ملک میں سیاسی مخالف کے حکومت میں شامل ہونے کی کوئی مثال ہے لیکن ہم سے کہا جارہا ہے کہ ہماری حکومت تب انکلوسیو ہوگی جس میں ہم اپنے ساتھ ان لوگوں کو شامل کرلیں جو نہ صرف ہمارے سیاسی حریف ہیں بلکہ کل تک بمباریوں اور ٹینکوں سے ہمیں ماررہے تھے۔

زبان کے لحاظ سے دیکھیں تو ہماری حکومت میں ازبک بھی ہیں، تاجک بھی اور پختون بھی۔ علاقوں کے لحاظ سے دیکھیں تو ہماری حکومت میں پنجشیری بھی ہیں، مزار شریف والے بھی، بدخشانی بھی اور قندھاری بھی، لیکن پھر بھی ہماری حکومت کو انکلوسیو نہیں مانا جارہا۔ ہمارے ساتھ مسئلہ پیسے کا ہے۔

جوں جوں وسائل آرہے ہیں،اس حساب سے آگے بڑھ رہے ہیں۔ لیکن ہماری تو حالت یہ ہے کہ اشرف غنی حکومت نے کئی ماہ کی تنخواہیں نہیں دی تھیں جو اب ہم دے رہے ہیں۔ اور تو اور ایران، ازبکستان اور ترکمانستان سے آنے والی بجلی کے کئی ماہ کے بقایہ جات بھی سابق حکومت نے ادا نہیں کئے۔

یہ تو متقی صاحب اور ان کی حکومت کا موقف ہے اور اس سے اختلاف کیا جاسکتا ہے لیکن ایک دلیل ان کی ایسی ہے کہ جس سے کوئی بھی اختلاف نہیں کرسکتا اور وہ یہ کہ عالمی اصولوں اور قوانین کے تحت عوام اور حکومت کو الگ الگ رکھا جاتا ہے لیکن ہماری حکومت کے آنے کے بعد انسانی بنیادوں پر جو امداد افغانستان کو مل رہی تھی، اسے بھی معطل کردیا گیا ہے، جس کی وجہ سے انسانی المیہ جنم لے رہا ہے۔

لگتا یہ ہے کہ امریکہ جو کام طاقت کے ذریعے نہ کروا سکا، اب وہ چاہتا ہے کہ خطے میں اپنے وہ مقاصد افغانستان کو اقتصادی تباہی اور انارکی سے دوچار کرکے حاصل کرے۔

میرے اندازے کے مطابق امریکہ اور اس کے اتحادیوں سے پاکستان اور چین یا روس وغیرہ افغانستان کے اثاثوں وغیرہ سے متعلق جو اپیلیں کررہے ہیں، ان کا کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہوگا۔

افغانستان کے اس المیے کا حل پڑوسی ممالک یا پھر چین اور روس کو مل کر نکالنا ہوگا لیکن طالبان کوبھی چاہئے کہ مغرب نہیں تو کم ازکم پڑوسی اور روس یا چین جیسے ممالک کے مطالبات تو پورے کریں۔

بشکریہ روزنامہ جنگ