دو میٹھے بول۔۔۔ تحریر،روبینہ لیاقت ندیم


میری گاڑی اپنی سپیڈ سے جا رہی تھی تھوڑا سا ہی آگے  چور راستہ تھا مگر اس  سے تھوڑا پیچھے مجھے پتہ ہی نہی چلا کہ میرے دائیں جانب سے اچانک ایک موٹر سائیکل آکر دھڑام سے میری گاڑی سے ٹکرائی اور اچھل کر دور جا گری میری خود کی خوف سے چیخیں نکل گئی سمجھ نہیں آئی تھی کہ ہوا کیا ہے میں نے گاڑی کو حادثہ پیش انےوالی جگہ سے چند قدم آگے روکا اور خود اتر کر واپس آیا اتنے میں وہاں پر کافی لوگ جمع ہو گئے تھے مجھے کسی نے بھی نہیں دیکھا تھا اور اسی لیے پہچانا بھی نہیں میں لوگوں کی رنگ رنگ کی باتیں سن رہا تھا کوئی کہہ رہا تھا تو کوئی کچھ میں ان کے درمیان سے ہوتا ہوا آگے بڑھا جب دیکھا تو وہ ایک پندرہ سے بیس سال کی عمر کا بچہ تھا میں نے کہا کہ اس کی مدد کی جائے تو سب ہی خاموش ہو گئے۔

کوئی بھی تیار نہیں تھا اس کی مدد کو ہر کوئی یہ کہہ رہا تھا کہ یہ پولیس کیس ہے اس لیے سب ڈر رہے تھے میں جلدی سے بھاگ کر گیا اور گاڑی کو لے کر آیا اور بچے کو اٹھا کر گاڑی میں ڈالا اور اس کی موٹرسائیکل کوپاس کے پٹرول پمپ پر کھڑا کیا اور دو افراد کو مدد کرنے کو کہا انہوں نے میرے ساتھ مل کر بچے کو میر گاڑی کی پچھلی سیٹ پر لیٹانے میں میری مدد کی، میں نے لوگوں سے پوچھا کہ کیا یہاں کوئی قریب ہسپتال ہے تو انہوں نے مچھے قریب یہ ایک، ہسپتال کے بارے میں مجھے بتایا تو میں نے جلدی سے گاڑی کو اسٹارٹ کیا ؛

تقریباً دس منٹ کے فاصلے پر واقع ایک پرائیویٹ ہسپتال مل گیا میں نے گاڑی کو ایمرجنسی گیٹ کے سامنے گھڑا کیا اور جلدی سے بھاگ کر سیڑھیوں کو عبور کرتا ہوا ایک بڑےسے ہال میں تھا میں وہاں پر ہیلپ کے، لیے ہیلپر اور اسٹریچر کو تلاش کرنے لگامجھے وہاں پر مشکل سے، ایک، آدمی کے ہاتھ، میں اسٹریچر نظر آئی میں پاگلوں کی طرح سے اس اسٹریچر کی، طرف لپکا قریب جا کر میں نے اس آدمی سے کہا کہ بھائی صاحب یہ اسٹریچر آپ کچھ دیر لے لیے مجھے دے دیں میرا مریض باہر ہے وہ آدمی جلدی سے سے اسٹریچر پر بیٹھ گیا اور لگا سوال وجواب کرنے میں نے اسے کہا کہ بھائی آپ نے میرے دس منٹ ضائع کر دیے، ہیں مہربانی ہوگی کہ اب اگر آپ مجھے اسٹریچر دیے دیں تووہ بڑے تحمل  سے اٹھا اور بڑے مستانہ انداز میں بولا کہ بتاو مریض کہا ہے اور ہاں ایک بات سن لو کہ مریض کو لانے کے میں پانچ سو روپے لونگا گا،

کیا مطلب،، میں یہ سن کر ایک دم چونک سا گیا بھائی میرے آپ پانچ سو کیوں لو گے
جناب نمبر ایک یہ کہ یہ پرائیویٹ ہسپتال ہے اور دوسرا یہ کہ میں اس وقت یہاں ڈیوٹی پر ہوں اور آپ کا مریض میں لینے کے لیے جاو گااس لیے پانچ سو روپے لگے گے، یہ میرے لیے اور بھی حیران کن بات تھی خیر میں نے اس کو پانچ سو روپے دیے اور کہا کہ اب چلو ایتنے میں کچھ ڈاکٹرز اور اورمیڈکل کے سٹوڈنٹس اور سرجن وغیرہ باتیں کرتے ہوئے ہال کے درمیان آ کر کے کھڑے ہو گئے اور اونچی اونچی آواز میں ہسنے لگ گئے اور اپن خوش گپیوں میں مصروف ہو گئے

وہ واڈ مین بولا جناب آپ کو کچھ دیر انتظار کرنا پڑے گا بھی کیوں انتظار کرنا پڑے گا مجھے غصہ آگیا کہ مریض تڑپ رہا ہے دوسرا خون جما دینے والی سردی حد ہو میں غصے سے اس واڈ بوائے سے بولنے لگا تو وہ بڑی سفاقی سے بولا کہ جناب اگر آپ کا مریض اتنا ہی مر رہا ہے تو آپ اس کو کسی اور ہسپتال لے جائے یہ سن کر تو میرا خون گھول اٹھا اور میں آپے سے باہر ہو گیا کہ حد ہو گئی ہے آپ لوگوں کے سینے میں کیا دل نہیں درد نہیں کسی کے لیے احساس نہیں کس چیز کے آپ ڈاکٹر ہیں

ان میں سے ایک ڈاکٹر بولا کہ جناب کیا بات ہے کہ آپ ایتنی زور زور سے چلا رہے ہیں
مجھے پھر ساری کہانی اس کو سنانی پڑی،،،، اب،،،،چھوٹے میاں تو چھوٹے میاں بڑے میاں سبحان اللہ،،،، ان کیا کہنے جناب ساری بات سننے کے بعد بڑیے تحمل سے بولا دیکھو بھائی اس کی طرف سے میں معافی چاہتا ہوں کہ اس نے آپ کے سارھ سلوک اچھا نہیں کیا گر جس طرح سے آپ نے بتایا کہ اس بچے کا ایکسیڈنٹ ہوا ہے اور پھر وہ بچہ آپ کا بھی نہیں ہے تو آپ پہلے جا کر پولیس اسٹیشن میں رپورٹ لکھوائے جب اجازت ملے گی تو پھر ہم کچھ کرے گے میں اس ڈاکٹر کے پاوں پڑ گیا ہر طرح کی منت سماجت کی مگر ڈاکٹر نہی مانا میں حد سے زیادہ پریشان ہو گیا کہ اب میں اس بچے کو کہا لے کر جاؤ میں بھاکتا ہوا بچے کی طرف لپکا آکر جلدی سے بچے کو دیکھا الحمدللہ بے اختیار ہی منہ سے نکلا اللہ تعالیٰ کا بہت احسان تھا کہ بچہ زندہ تھا مکر یخ سردی میں اس کا جسم برف کی ماند ٹھنڈا پڑ چکا تھا میں نے جلدی سے اپنا کوٹ اتارا اور بچے پر دے دیا اور جرسی سے اس کی ٹانگوں کو ڈھانپ دیا اب میں یہ سوچ میں پڑ گیا کہ اس بچے کو کسی اور ہسپتال میں لے جاؤں مگر ساتھ ہی دوسرا خیال آیا کہ اگر میں دوسرا ہسپتال ڈھونڈنے میں لگ گیا تو پھر کہی بچ کا نقصان نہ ہو جائے بس میں پھر ایمرجنسی ہال کی طرف لپکا جب وہاں پہنچا تو وہاں پر کوئی بھی نہیں تھا اور بس میں مزید پرشرشانی میں گھیر گیا

میں نے جلدی سے پرچی کونٹر سے ڈاکٹر کے بارے میں پوچھا انہوں نے بتایا کہ ڈاکٹر صاحب تو اپنے کیبن میں چلے گئے ہیں میں جلدی سے ڈاکٹر صاحب کے کمرے کی طرف بھاگا میں نے دروازہ کھولا اور دیکھا کہ ڈاکٹر صاحب اپنے دو دوستوں سے گپ شپ میں مصروف ہیں مجھے دیکھ کر بولے کہ آپ تھانے اطلاع کر آئے ہیں میں نے نفی میں سر ہلا کر بولا ڈاکٹر صاحب میں تھانے میں بھی اطلاع کر دیتا مگر آپ بچے کو تو فرسٹ ایڈ دے اندر ایمرجنسی میں لا کر لٹائیں ڈاکٹر بولا کہ ہاں ہم مریض کو اند لائےاور بچے کو ہمارے پلے ڈال کر چلے جاے نہی ڈاکٹر صاحب جس بچے کے لیے میں نے اتنی زیادہ پریشانی مول لی میں اس کو چھوڑ کر کہا جا سکتا ہوں آپ پلیز کچھ کرے بہت زیادہ منت سماجت کے بعد آخر کار ڈاکٹر صاحب کچھ راضی ہو گئے

اچھا ٹھیک ہے لیکن آپ کاونٹر پر فیس جمع کروا دے جی ٹھیک بہت شکریہ ڈاکٹر صاحب میں ابھی فیس جمع کروا دیتا ہوں مگر فیس ہے کیتنی آپ پچاس ہزار روپے جمع کروا دیں،، اوہ مگر ڈاکٹر صاحب میرے پاس تو اتنے نہی ہیں،، او بھائی اس کی سرجری کرنی ہے چلے کوئی بات نہیں میں انتظام کر لیتا ہوں ٹھیک ایک آپ پہلے رپورٹ کرے دوسرا پیسوں کا بندوبست کرے جی ڈاکٹر صاحب ابھی میرے پاس بیس پچیس ہزار روپے ہیں آپ وہ رکھے میں باقی انتظام کرتا ہوں میں بچے کو ایمرجنسی میں لٹوا دیتا ہوں آپ ان پیسوں کا بندوبست کرے

علاج ہم تب ہی شروع کرے گے،،، میں کچھ دیر سوچنے کے بعد اپنی گاڑی کی چابی ڈاکٹر صاحب کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا کہ آپ یہ مری گاڑی کی چابی رکھ لے اور بچے کا علاج شروع کر دیں او کے آپ جاواور بندوبست کرومم میں نے اللہ کا شکر ادا کیا اور ڈاکٹر صاحب سے ایک گھنٹے کا وقت لے کر وہاں سے باہر آگیا اور گاڑی کے پاس ا کر میں نے بچے کے سر پر ہاتھ پھیرا اس کو اللہ حافظ کہا اور چلا گیا، میں نے باہر سے آکر رکشہ لیا اور لاہور میں مجھے اپنے جس عزیز کے گھر میں جانا تھا وہاں پر پھنچا جوکہ میں بہت لیٹ ہو چکا تھا، وہاں پر موجود ہر کوئی مجھ سے صرف ایک ہی سوال پوچھے جا رہا تھا کہ آپ اتنا لیٹ کیوں ہوے خیر تھی تو سب کا ایک ہی سوال بار بار پوچھے جانے پر آخر بتانا ہی پڑا  سارا واقعہ میں نے جلدی جلدی سے سنا ڈالہ آخر میں نے اپنی بیوی سے پیسے لینے اور سب کو اللہ حافظ کہہ کر وہاں سے چل پڑا میں جلدی سے باہر روڈ پر آیا وہاں سے رکشہ لیا اور وقت ضائع کیے بغیر میں سیدا تھانے پہنچا اور ایس ایچ کو سارا وقع سنایا ایس ایچ او تھانہ نے اچھا تعاون کیا اور ڈاکٹر صاحب کی نے حسی پر بہت زیادہ غصہ بھی آخر ایس ایچ او نے اپنے دو ملازم میرے ساتھ بھیجے  خیر ہم الحمدللہ ہسپتال آ گیے میں سیدا ڈاکٹر صاحب کے کمرے میں پہنچا جب میں کمرے میں داخل ہوا تو کیا دیکھتا ہوں کہ وہاں کا تو منظر ہی بدل چکا تھا

ڈاکٹر صاحب نے جیسے ہی مجھے دیکھا تو زاروقطار رونے لگا کمرے میں موجود دوسرے ڈاکٹرز باہر نکل گئے اور ڈاکٹر شراز اور ایک اور دوسرا سرجن موجود رہے ڈاکٹر شراز تو بس زاروقطار روے جا رہا تھا میں نے دوسرے ڈاکٹر سے معلوم کرنے کی کوشش کی کہ کیا ایسا واقعہ پیش آیا ہے کہ ڈاکٹر صاحب کی یہ حالت ہو گئی ہے میں تو ان کو اچھا بھلا چھوڑ کر گیا تھا اب اس ڈاکٹر نے بتانا شروع کیا کہ،،، آپ جب چلے گئے تھے تو بعد میں ہم سب واپس وہی ایمرجنسی حال میں آگے وہاں جا کر ہم سب دوبارہ باتوں میں مصروف ہو گئے مگر اس بچے کا زہن سے نکل گیا کافی وقت اسی طرح باتیں کرتے ہوئے نکل گیا تھا کہ اچانک سے ایک ایک وارڈ بوائے دھوڑتا ہوا ہمارے پاس آیا اور بولا کہ ڈاکٹر صاحب وہ. جو صاحب گھر کیا ہے اس کا مریض ابھی تک گاڑی میں ہے ڈاکٹر صاحب،، اوہ یار میرے زہن میں نہیں رہا اچھا دوسرے ساتھی کو لے جاو اور اس کو یہاں اسٹریچر پر لے آو میں دیکھ لیتا ہوں وہ دونوں وارڈ بوائے گئے اور اس بچےکو اسٹریچر پر ڈال لاے اور اس پر کپڑا ڈال دیا جہاں ہم کھڑے ہوئے تھے وہاں قریب ہی لا کر اس کی اسٹریچر کو لا کر دیوار کے ساتھ لگا دیا

ہم نے غور نہ کیا اور باتوں میں مصروف رہے اس سے پہلے کہ وہ ڈاکٹر مزید اور آگے کچھ کہتا میں جلدی سے بولا کہ ڈاکٹر صاحب وہ بچہ اب کہا ہے ڈاکٹر صاحب بولے کہ جہاں اسے ہونا چاہیے کیا مطلب  میں آپ کو بتا تو رہا ہوں تو کیا یہ سب آپ مجھے ڈاکٹر شرار کے سامنے نہیں بتا سکتے تھے جو مجھے باہر لے آئے ہاں نہی بتا سکتا تھا،، اچھا پھر کیا ہوا وہ بچہ،،، پھر ڈاکٹر شراز وہاں حال سے واپس اپنے کیبن میں جاتے جاتے مجھے کہہ گئے کہ اس بچے کو اندر آپریشن تھیٹر میں لے چلو اور آپریشن کی تیاری کرو اور پھر مجھے اطلاع بھیج دینا میں ا جاو گا تب تک اس کا دیوانہ بھی باقی فیس لے آئے گا یہ کہہ کر ڈاکٹر شراز اپنے کیبن کی طرف چل پڑے کہ کچھ دور جانے کے بعد دیکھا

کہ ڈاکٹر شراز تیز تیز قدموں سے واپس آرہے تھے  میں جلدی سے ان کی طرف مڑا کہ نہ جانے کیا ہوا ہے کہ وہ اس طرح پریشانی میں تیز قدموں سے آ رہے ہیں جب میں نے پوچھا تو مجھے پیچھے کو ہٹاتے ہوے اس بچے کی طرف اشارہ کیا کہ اس کے منہ سے کپڑا ہٹاو ڈاکٹر صاحب اس کا ہاتھ پکڑ کر دیکھنے لگا اور بار بار گھڑی کی طرف اشارہ کرتے رہے اور جب میں نے کپڑا ہٹایا تو اس، وقت ڈاکٹر صاحب کی حالت بہت بگڑ گئی اور زور زور سے رونے لگ گئے اور واڑہ بوائے کو اشارہ کیا کہ جلدی کرو اس بچے کو تھیٹر میں لے چلو ایک کال پر سب آپریشن تھیٹر میں پونچھ گئے بہت کوشش کے باوجود بھی وہ بچے کو نہ بچا سکے ابھی ساتھی ڈاکٹر یہ واقعہ سنا ہی رہا تھا

کہ ڈاکٹر صاحب کے زور زور سے چیخنے کی آوازں نے مجھے اندر ڈاکٹر صاحب کے کیبن کی طرف متوجہ کیا تو میں جلدی سے اندر کی طرف لپکا کیا دیکھتا ہوں کہ ڈاکٹر صاحب دیوانہ وار خود کے ہی بال نوچے جا رہے ہیں اور بس چیخوپکار مجھے دیکھتے ہی مجھ سے آ لپیٹے اور کہنے لگے او بھائی تیری بڑی مہربانی تم یہ اپنی گھڑی یہ اپنی گاڑی کی چابی سب کچھ رکھو میری ساری جائیداد رکھ لو میری گاڑی گھر ہر چیز یہ ہسپتال سب سب کچھ رکھ لو مگر مجھے میرا بیٹا دے دو

،بس خدا کا  واسطہ مجھے میرا بیٹا دے دو،،،، میں بہت زیادہ حیران ہوا یہ سن کر کہ میرا بیٹا دے دو میں نے ڈاکٹر صاحب سے پوچھا کہ کیا وہ بچہ ہاں ہاں وہ بچہ میرا بیٹا ہے،،، اور ڈاکٹر صاحب میرے ساتھ لپٹ کر بہت روے میری آنکھوں سے بھی بے ساختہ آنسو-بہانا شروع ہو گے پتہ نہیں یہ سلسلہ کب تک جاری رہا پتہ تب چلا کہ جب جونیئر ڈاکٹروں نے آ کر کہا کہ ڈاکٹر صاحب لاش کو ایمبولینس میں شفٹ کر دیا ہے ڈاکٹر صاحب پاگلوں کی طرح ایمبولینس کی طرف بھاگا میں بھی اسی طرف لپکا ایمبولینس کے قریب پہنچ کر میں نے ڈاکٹر صاحب سے پوچھا کہ ڈاکٹر صاحب یہ یہاں تک نوبت کیوں پہنچی تو زاروقطار روتے ہوئے ڈاکٹر صاحب نے جواب دیا کہ صرف میرا لالچ اور بے حسی اور غرور نے آج مجھے یہاں تک پہنچایا ہے

آج اس کی سالگرہ تھی تو یہ باضید تھا کہ میں آج اس کے ساتھ ہی رہو بس میں تو آج اس کے ساتھ نہ رہا مگر یہ صبح سے ہی میرے ساتھ ہے اتنی ہی بات کرنا تھی کہ ڈاکٹر صاحب زمین پر گر پڑے اور بے ہوش ہو گئے ان کو ایمرجنسی وارڈ میں لگے جایا گیا جہاں پر ان کو ٹریٹمنٹ دی گئی ڈاکٹر صاحب کو تقریباً دو  گھنٹے بعد ہوش آیا ہوش میں آنے کے بعد وہ سب کے ساتھ عجیب سا سلوک کرنے لگے تو  جو ڈاکٹر صاحب ان کا علاج کر رہے تھے انہوں نے بتایا کہ یہ اپنی یادداشت کھو چکے ہیں اس صدمے نے ان کے دماغ پر کافی گہرا اثر کیا ہے شاید وقت کے ساتھ ساتھ یہ نارمل ہو جائے اب ان کے گھر والوں کو اطلاع کی گی ان کی بیوی اور بھائی ان کو لینے آئے تو میں ایک زمہ داری سے فارغ ہوا. اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ اس طرح کا خوف ناک واقعہ کسی کے ساتھ بھی نہ ہو