اسموگ، ڈینگی، انسانی کمائی۔۔۔تحریر ڈاکٹر صغرا صدف


یہ ڈینگی، یہ اسموگ اور اس جیسے دیگر روگ انسان کی اپنی کمائی ہیں۔ خدا نے تو ہمیں ایک ایسی کائنات دی جس میں شفاف پانی کے دریا اور چشمے تھے۔ زمین جو ملاوٹ سے پاک فصلیں پیدا کرتی تھی، خوشبوؤں سے معطر ہوا، صاف ستھرا ماحول جس میں زندگی چہک سکتی تھی مگر انسان اپنے وقتی مفاد اور طمع کے باعث فطرت سے دور ہوتا گیا اور ظاہر وباطن میں آلودگی پھیلتی گئی۔ اب یہ آلودگی اس حد تک بڑھ چکی ہے کہ سوچ کے شر نے انسانیت کو تباہی کی دلدل میں اتار دیا ہے۔ زندگی سے اس کے رنگ چھین لئے ہیں۔ ہر منظر کا حُسن گہنا گیا ہے۔

لاہور کا نومبر کبھی میلوں کا مہینہ کہلاتا تھا۔ معتدل موسم میں لوگ اوپن ایئر میں بڑی بڑی تقریبات منعقد کرتے تھے مگر پچھلے کچھ برس سے یہ نکھرا اور خوشگوار مہینہ اسموگ سے اٹا نظر آتا ہے۔ آلودگی کا یہ عالم ہے کہ سانس لینا دوبھر، بات کرنا مشکل، آنکھ، ناک، گلا مسلسل اذیت کے عالم میں رہتے ہیں۔ یہ آلودگی ہر عمر کے افراد پر اثرانداز ہوتی ہے مگر یونیسیف کے مطابق پانچ سال سے کم عمر کے بچوں کی دس اموات میں سے ایک کی وجہ آلودگی ہے۔ برصغیر میں ہر سال کروڑوں افراد فضائی آلودگی میں سانس لینے سے سانس کی تکلیف، پھیپھڑوں کے امراض، دمہ،حلق کے انفیکشن، نزلہ وزکام اور شدید کھانسی کی اذیت سہتے ہیں اور لاکھوں جان سے جاتے ہیں۔فضائی آلودگی دل کی بیماریوں کا باعث بنتی ہے۔

ماہرین کے مطابق پاکستان اور انڈیا کے شمال میں پہاڑی سلسلے واقع ہیں جو دیوار کا کام کرتے ہیں۔ فصلوں کی باقیات جلانے سے پیدا ہونے والا دھواں فضا میں جا کر معلق ہو جاتا ہے اور پھر اس طرف آنے والی ہوا کے ساتھ پاکستان میں داخل ہو جاتا ہے۔ ان دنوں ہریانہ اور پنجاب میں کسانوں کی جانب سے بڑے پیمانے پر فصلوں کی باقیات جلائی جاتی ہیں اور ایسا ہی پاکستانی پنجاب میں بھی ہوتا ہے۔ لاہور انڈیا کی سرحد کے قریب ہونے کی وجہ سے دھوئیں سے زیادہ متاثر ہوتا ہے۔ پوری دنیا میں واویلے اور صحت کے خدشات کے باوجود ناسا کے مطابق انڈیا میں اس مرتبہ آگ جلانے کے واقعات گزشتہ برسوں کے مقابلے میں زیادہ دیکھے گئے ہیں۔ لاہور میں اسموگ کی صورتحال بہت سنگین ہوتی جا رہی ہے۔ لاہور میں نصب فضا کے معیار کی نگرانی کرنے والے آلات سے حاصل کردہ اعداد و شمار کے مطابق اس ماہ میں متعدد بار لاہور کا ایئر کوالٹی انڈیکس 580 تک پہنچ گیا تھا۔ اے کیو آئی کے مطابق 130 کی شرح حساس طبیعت کے مالک افراد کے لئے تاحال غیرصحتمندانہ ہے جبکہ 580 کی شرح تو ہر فرد کے لئے انتہائی خطرناک تصور کی جاتی ہے۔

فضائی آلودگی کو کنٹرول کرنے کے حوالے سے لاہور ہائی کورٹ کے حکم پر اسموگ کمیشن تشکیل دیا گیا تھا جس نے 2018ء میں اسموگ کمیشن رپورٹ میں تجویز کیا کہ صرف لاہور ہی پر توجہ دے کر فضائی آلودگی کو کنٹرول کر کے کمی نہیں کی جا سکتی۔ اس کے لئے ضروری ہے کہ پنجاب ماحول تحفظ اتھارٹی (ای پی اے) کو صوبہ بھر میں 30 ایئر کوالٹی جانچنے کے اسٹیشن بنانے ہوں گے تاکہ صوبہ بھر کی معلومات اور صورتحال کا جائزہ لیا جا سکے۔ تاہم اگر آپ ای پی اے پنجاب کی ویب سائٹ پر جائیں تو وہی دو اسٹیشنز ٹاؤن ہال اور ٹاؤن شپ اور ایک موبائل وین کا ڈیٹا ملتا ہے۔ فضائی آلودگی سے بچنے کے لئے عام شہری اسی وقت ہی احتیاطی تدابیر اپنا سکتے ہیں جب ان کی رسائی بھی ایسی معلومات تک ہو جو ہر منٹ ان کو صورتحال سے آگاہ رکھے۔

وزیر اعظم عمران خان تو کہہ چکے ہیں کہ فضائی آلوگی پر قابو پانا ان کی حکومت کی اولین ترجیح ہے لیکن اس پر عملدرآمد کو یقینی بنانا بہت اہم ہے۔ حکومت کو سب سے پہلے پورے ملک میں فضائی آلودگی کو جانچنے کے لئے اسٹیشنز قائم کرنے کی ضرورت ہے اور غیر معیاری ایندھن کے استعمال، دھواں دینے والی گاڑیوں، اینٹوں کے بھٹوں وغیرہ کی کڑی نگرانی ہنگامی بنیادوں پر کرنے کی ضرورت ہے اور یہ اقدامات صرف اسموگ کے سیزن کے دوران ہی نہیں بلکہ پورا سال کرنے کی ضرورت ہے۔ ہرسال دو مہینے اذیت میں گزارنے، آلودگی کے حوالے سے نمبر ایک پر رہنے کے باوجود اس مسئلے کے تدارک کے لئے متعلقہ محکموں کی طرف سے کوئی پیش رفت نہیں ہوئی۔ عالمی اداروں میں یہ مسئلہ اٹھایا جانا چاہئے۔ لوگوں کو اس کے خطرات سے آگاہ کرنے کے لئے میڈیا پر کمپین چلائی جانی چاہئے۔ حکومت کے ساتھ ساتھ ہر فرد کی ذمہ داری ہے کہ آلودگی کے دیگر اسباب کو کم کرنے میں اپنا کردار ادا کرے۔

بشکریہ:روزنامہ جنگ