گزشتہ تیس برسوں میں ترکی کے متعدد دورے ہوئے مسلم دنیا میں ترکی کی تعمیر وترقی ‘جمہوریت کے فروغ اور موجودہ قیادت میں امت مسلمہ کے مسائل کے حل کے حوالے سے فعال کردار ادا کرنے کی وجہ سے امید کی کرن بن چکا ہے ۔گزشتہ دو برس کے دوران میںکرونا وباء کی وجہ سے ساری دنیا میں آمدورفت معطل رہی اس لیے ترکی جانے کابھی موقع نہ مل سکا۔ قائد تحریک سید علی گیلانی کی شہادت پر دلی خواہش تھی کہ سرینگر جاکر وہاں ان کے اعزہ و اقارب سے تعزیت ہو سکے ‘لیکن بھارت کی استعماری ہٹ دھرمی کی وجہ سے جانا تو ایک طرف وہاں ٹیلی فون پر رابطہ تک مشکل بنا دیا گیا۔ چنانچہ ان کے داماد سید افتخار گیلانی جو فیملی کے ساتھ انقرہ ترکی میں مقیم ہیں اور اس وقت ترکی کی نیوز ایجنسی انادولو کے شعبہ انگریزی کے چیف ایڈیٹر ہیں ‘کے پاس اظہار تعزیت کے لیے جانے کی خواہش برادر طلحہ شیخ جو کراچی کے ممتاز بزنس مین ہیں اور طویل عرصہ سے تحریک میں ہمارے دست راست بھی رہے کی وساطت سے پور ی ہوئی وہ حال ہی میں سرمایہ کاری کرتے ہوئے ترکی کے شہری بن چکے ہیں ۔ان کا اصرار تھا کہ استنبول میں ان کی رہاش گاہ کا افتتاح ہو اور وہاں کی بزنس کمیونٹی سے وہ متعارف بھی ہو سکیں ۔چنانچہ یہ دورہ ان ہی کی میزبانی اور معیت میں ہوا ۔سفر کی تیاری جاری تھی کہ ترکی کے عظیم مدبر اور جدید اسلامی ترکی کے معمار پروفیسر نجم الدین اربکان مرحوم کے جانشین اور ان کے دست راست سابق وزیر حکومت اور سعادت پارٹی کے رہبر اوزجان اصیل ترک کے انتقال کی خبر ملی ۔یوں سعادت پارٹی کی قیادت سے بھی اہل کشمیر کی طرف سے تعزیت پہنچانے کا موقع ملا ۔استاد اوزجان اصیل ترک کشمیریوں کے بہترین ترجمان اور پشتیبان تھے ۔اس سلسلے میں وہ قاضی حسین احمد مرحوم کی دعوت پر لاہور اور اسلام آباد میں منعقدہ کانفرنسوں میں شریک ہوکر یکجہتی کشمیر کا پیغام پہنچاتے رہے ۔ترکی کے دوروں کے موقع پر بھی دوروں کی کامیابی میں وہ اہم کردار ادا کرتے رہے ۔یوں ان کی تعزیت بھی واجب تھی جس کا اس سفر میں موقع ملا۔انقرہ میں افتخار گیلانی اور ان کی اہلیہ گیلانی صاحب کی صاحبزادی اور بچوں سے تعزیت کے موقع پر حالات سے تفصیلی آگاہی ہوئی کہ کس طرح بھارتی استعمار نے گیلانی صاحب کی میت چھین کر عزیز واقارب کو آخری رسومات میں شرکت سے محروم رکھا اور وہاں کئی روز تک کرفیو نافذ کرتے ہوئے لوگوں کو گھروں میں محبوس کردیا اور خاندان کس اذیت سے گزرا۔بلا شبہ اگر ان کی نماز جنازہ میں شرکت کا موقع دیا جاتاتو لاکھوں لوگ اپنے قائد کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لئے جمع ہوتے ‘ تاہم پوری مقبوضہ ریاست میں غائبانہ نماز جنازہ اور دعائیہ تقاریب کا انعقاد ہوا’ بلکہ ساری دنیا میں ہی ان کے عقیدت مندوں نے غائبانہ نماز جنازہ اور تعزیتی اجتماعات کے ذریعے امت کے اس عظیم قائد کو خراج عقیدت پیش کیا اور یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے۔ افتخار گیلانی کا اپنا خاندان بھی تحریک سے وابستگی کی وجہ سے بھارتی مظالم کا نشانہ بنتا رہا ۔خود انہیں بھی قید و بند کی صعوبتوں سے گزرنا پڑا۔ دہلی میں ایک بڑے میڈیا گروپ سے وابستگی کی وجہ سے انہیں بھارتی حکومت اس کے اداروں اور سیاست دانوں کے کشمیر کے حوالے سے عزائم کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا۔ مودی کے فکری فلسفہ، آر ۔ایس ۔ایس کی تنظیم کی حکمت عملی اور عزائم کے بارے میں وہ ایک اتھارٹی رکھتے ہیں۔ اس ملاقات کے موقع پر بالمشافہ بھی انہوں نے پنے مشاہدات اور تجاویز سے مستفید کیا۔ انقرہ میں پاکستان کے سفیرسائرس سجاد قاضی جو پیشے کے اعتبار سے ڈاکٹر ہیں ‘ان کویہ سب وقت یاد ہے جب وہ جنیوا میں ایک جونیئر سفارت کار تعینات تھے اور کشمیر ہی کے حوالے سے سردار مسعود خان کے دست راست کی حیثیت سے کشمیری وفود کی معاونت کیا کرتے تھے ۔ان کا ننھیال بھمبر آزاد کشمیر میں ہے ۔یوں وہ کشمیر کے ساتھ ایک جذباتی وابستگی رکھتے ہیں اور اس نسبت سے کشمیرکاز کے لیے خود اور پورے سفارتی مشن کو متحرک رکھتے ہیں۔ سفارت خانے میں انہوں نے اپنی پوری ٹیم کے ساتھ بریفنگ کی نشست رکھی ۔سفارتی سطح پر ہونے والی پیش رفت سے آگاہ کیا ۔بھارتی سفارت خانے کی حکمت عملی اور سرگرمیوں کے بارے میں بتایا۔ تازہ ترین صورت حال کے حوالے سے ہمیں بھی تجاویز رکھنے کا موقع ملا۔ ذرائع ابلاغ میں پریس اتاشی عبد الاکبر خان بہت متحرک کردار اداکر رہے ہیں کی وساطت سے وہاں کے سارے رحجانات سے آگاہی ہوئی۔ اکبر خان طویل قیام کے بعد ابھی اسلام آباد میں ٹرانسفر ہو رہے ہیں لیکن ترکی میں انہوں نے شاندار نمائندگی کی۔ وزیر اعظم پاکستان کے مجوزہ دورے میںہوم ورک کے حوالے سے پورا سفارت خانہ تیاریوں میں مصروف تھا ۔ترکی سے باہم تجارتی اور دفاعی سمیت کئی میدانوں میں مشترکہ منصوبے جاری ہیں جن کے فالو اپ کے لیے اعلی سطحی دورہ جات کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔ یوں ترکی کا سفارت خانہ ہمیشہ متحرک اور فعال رہتا ہے۔ اس کی فعالیت اس موقع پر بھی بھر پور نظر آئی۔
سعادت پارٹی کے صدر جناب تامل کرام اللہ اوغلو ایران میں ایک کانفرنس میں شرکت کی وجہ سے ملک سے باہر تھے۔ ان کے نائب صدر ڈاکٹر ارسان گنجلک اور ان کے رفقاء سے ملاقات ہوئی۔ اہل کشمیر کی طرف سے تعزیت پہنچائی ۔مرحوم استاد اور سعادت پارٹی کی کشمیریوں کی مستقل پشتیبانی اور ترجمانی پر شکریہ ادا کیا۔ ڈاکٹر ارسان نے بھی یقین دلایا کہ سعادت پارٹی اور ترکی کی پوری قوم اہل کشمیر کے شانہ بشانہ ہے۔اس لیے کہ ڈاکٹر نجم الدین اربکان مرحوم نے ہماری جو تربیت کی ہے اس کی روسے ہم کشمیر اور امت کے دیگرمسائل سے لاتعلق نہیں رہ سکتے ۔سعادت پارٹی ہمیشہ کشمیریوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لیے کانفرنسوں اور سیمینارز کا اہتمام کرتی رہتی ہے۔ انہوں نے یقین دلایا کہ یکجہتی کا یہ سلسلہ جاری رہے گا۔ انہوں نے سید علی گیلانی کی خدمات کو خراج عقیدت پیش کیا۔
انقرہ ترکی میں عیصام جو پروفیسر اربکان مرحوم کا قائم کردہ ایک اہم بین اقوامی تھینک ٹینک ہے اور اب اس کے چیئرمین استاد اربکان کے دست راست استاد رجائے کوتان ہیں ‘سے بھی تفصیلی ملاقات ہوئی۔ رجائے کوتان سعادت پارٹی کے صدر بھی رہے ہیں اور زلزلے کے موقع پر ایک بڑے وفد کے ہمراہ پاکستان اور آزاد کشمیر کا دورہ کر چکے ہیں۔ا ن کی قیادت میں پارٹی اوراس سے متعلقہ ریلیف اداروںتعمیرنو میں ہم کردار ادا کیا، نوے سالہ رجائے کوتان ابھی تک ذہنی طورپر چاک و چوبند ہیںاور یاداشت بھی کمال کی ہے۔ سابق وزیر داخلہ رہ چکے ہیں۔ ہم نے تحریک کے آغاز پر ڈاکٹر فائی صاحب کی میزبانی میں 1991 میں واشنگٹن میں منعقدہ ایک کانفرنس میں ایک ساتھ شرکت کی تھی۔ اس کانفرنس کی جزئیات تک کا انہوں نے تذکرہ کیا۔ بہرحال یہ ادارہ ہر سال امت کے مسائل پر ایک کانفرنس کرتا ہے ۔یہ سلسلہ کرونا کی وجہ سے رک گیا۔ کشمیر کی تازہ ترین صورر حال پر تفصیلی تبادلہ خیال ہوا۔ میں نے تجویز دی کہ ایک بین الا قوامی کانفرنس صرف کشمیر پر منعقد کی جائے جس پر اتفاق کرتے ہوئے ہوم ورک کے لیے اپنی ٹیم کو اہداف دیے اور یہ واضح کیا کہ ترکی کا بچہ بچہ اس جائز جدوجہد میں آپ کے ساتھ ہے۔ یوم سیاہ 27 اکتوبر کے موقع پر ادارے نے ایک کانفرنس بھی طے کر لی جس میں شرکت کے لیے پاکستانی سفیر کے ساتھ مجھے بھی مدعو کیا گیا۔ پروگرام کی تشہیر بھی ہو گئی لیکن اس روز استنبول یونیورسٹی میں ایک کانفرنس سے فارغ ہو کر ائیر پورٹ کی طرف روانہ ہوئے توٹریفک کے اژدھام کی وجہ سے فلائٹ چھوٹ گئی ۔یوں اس کانفرنس میں شرکت سے محروم رہے لیکن بھرپور پروگراہوا جس کی ذرائع ابلاغ نے بھی اچھی کویج دی۔انقرہ میں اس طرح کے ایک اور ادرے انادولہ قومی نیوز ایجنسی کا دورہ ہوا،یہاں شعبہ بین القوامی امور کے ڈائریکٹر محمود اوغلواور سینئر سٹاف کے ساتھ تفصیلی نشست ہوئی یہ قومی ادارہ دنیا کی 34زبانوں میںاپنی سروسز فراہم کررہاہے،مسلم دنیا کی واحد نیوزایجنسی ہے جو رائٹر اور اے ایف پی کا مقابلہ کررہی ہے،ابلاغ کے محاذپر بڑی پیش رفت ہے،اسی طرح کا ٹی آرٹی ایک اور ادارہ ہے جس کے زیر اہتمام ٹی وی اور رریڈیو سروس فراہم کررہاہے جو دنیا کی 30زبانوںمیں ہے جس میں کشمیراور پاکستان کی بھی نمائندگی موجود ہے۔یوں ان دونوں اداروں نے یقین دلایاکہ وہ ابلاغ کے محاذ پر کشمیرمیں ہونے والے مظالم سے دنیاکو آگاہ کرنے کے لیے اپنا کردار ادا کریںگے۔ اس دورے کے موقع پر عوامی اور سیاسی سرگرمیاں کرنے کے بجائے اہل دانش اور تھینکس ٹینکس سے زیادہ روابط رکھنے کی کوشش کی گئی۔ اس سلسلے میں ادارہ تہذیب انسانیت کے سربراہ انجینئر جنئے جن کو ہم برادرجواد کے کوڈ نام سے پکارتے ہیں سے بھی تفصیلی ملاقات ہوئی۔ برادر جواد 80 کی دھائی میں ترکی میں اسلام پسند طلبہ تنظیم کے سربراہ رہے ہیں۔ موجودہ صدر جناب طیب اردگان ان کے کارکن رہے ہیں ۔دونوں کا یہ برادرانہ تعلق آج بھی برقرار ہے۔جناب اردگان آج بھی ان کا بے پناہ احترام کرتے ہیں اور ان سے رہنمائی بھی لیتے رہتے ہیں ۔ ان کا یہ ادراہ پالیسی سازی میں حکومت کی بڑی رہنمائی کرتا ہے ۔ان کے تربیت یافتہ کارکنان حکومت کے اداروں اور زندگی کے مختلف شعبوں میں ہیں ۔80 کی دہائی میں مارشل لاء کے دور میں انہیں سزائے موت سنائی گئی تھی۔ وہ ترکی سے چپکے سے نکلنے میں کامیاب ہو گئے اور جناب قاضی حسین احمد کی میزبانی میں کئی برس پاکستان میں مقیم رہے۔افغان جہاد کو بھی انہوں نے بہت قریب سے دیکھا۔ملاقات میں وہ پرانی یادیں بھی تازہ ہوئیں۔ کشمیر کے حوالے سے عالمی سطح پر رائے عامہ کس طرح ہموار کی جائے ؟بھارتی عزائم کیسے بے نقاب کیے جائیں ؟اس پر بھی تفصیلی مشاورت ہوئی۔ باہم رابطہ جاری رکھنے پر اتفاق ہوا۔اس طرح استقامت فائونڈیشن کے سربراہ ڈاکٹر زبیر اور ان کی پوری ٹیم سے بھی ملاقات رہی۔ یہ ادارہ نوجوانوں کی فکری تربیت کرتا ہے ۔کشمیر کی صورر حال کے تناظر میں ان سے بھی کئی مفید تجاویز پر مشاورت ہوئی۔ ڈاکٹر نجم الدین اربکان کی سرپرستی میں ترکی میں کئی رفاعی اور فکری ادارے قائم ہوئے جو وقت کے ساتھ ترقی کرتے کرتے آج ملکی اور بین الاقوامی سطح پر اپنا ایک مقام بنا چکے ہیں۔ یہ تمام ادارے یوں تو اپنا الگ تشخص رکھتے ہیں لیکن ان سب کا ہدف ایک ہی ہے کہ کس طرح ترکی کااسلامی تہذیبی کردار بحال ہو اور کس طرح امت کے مسائل میں تعاون کی راہیں پیدا کی جائیں۔ اسلامی تحریکوں کو ترکی کے اس تجربے سے سیکھنا چاہئے۔ محض تنظیمی شکنجوں میں کسے ہوئے ادارے نہ ترقی کر سکتے ہیں اور نہ اپنا مقام وسائل بنا سکتے ہیں۔ ان تمام اداروں کی جہاں داخلی خود مختاری قائم ہے ‘وہیں اجتماعی ہدف سب ہی کے پیش نظر ہیں اور آپس میں تال میل بھی ہے۔ حکمت فائونڈیشن ڈاکٹر یونس کی سربراہی میں ایک ایسا ہی اور ادارہ ہے جو افراد سازی میں اہم کردار ادا کررہا ہے ۔اسی طرح جان سو’I.H.H ایسی ریلیف ایجنسیاں ہیں جو بین الاقوامی سطح پر ایک سو ممالک تک اپنا دائرہ کاررکھتی ہیں۔ جان سو سعادت پارٹی کی سرپرستی میں کام کر رہی ہے۔ان کے ہیڈ کواٹر میں امور خارجہ کے ذمہ دار ڈاکٹر حسن سے تفصیلی ملاقات ہوئی۔ اس طرح کی ملاقات آئی ایچ ایچ کے ہیڈ کواٹر میں امور خارجہ کے ذمہ دار ڈاکٹر حسن عروج سے ہوئی۔ آئی ایچ ایچ کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ غزہ کے محاصرہ کے خاتمے کے لیے فریڈم فوٹیلا کے زیر اہتمام ساری دنیا کو اپنی طرف متوجہ کیا ‘جسے اسرائیلی جارحیت کا سامنا بھی کرنا پڑا۔ اس کے نتیجے میں غزہ کا محاصرہ ختم ہوا۔ جان سو 84ممالک میں اپنا نظام رکھتی ہے ۔دونوں پاکستان میں الخدمت کی پارٹنر ہیں ۔جان سو نے زلزلہ کے موقع پر بے پناہ تعاون کیا ۔کشمیر کے حوالے سے انہیں اہداف دیئے کہ دیگر بین الاقوامی ایجنسیوں کے تعاون سے کشمیر کے اندر متاثرین تک ریلیف پہنچانے کا اہتمام کیا جائے اور بھارت کو سفارتی سطح پر مجبور کیا جائے کہ وہ رفاعی اداروں کو رسائی فراہم کرے ۔دورے کے دوران اخبارات’ ٹی وی چینلز میں انٹرویوز بھی ہوئے جو نمایاں طور پر شائع ہوئے۔
دورے میں کئی اہل دانش سے خصوصی ملاقاتوں کا اہتمام رہا ۔بالخصوص ممتاز ماہر تعلیم اور صحافی ترگیااورن جو سوشل میڈیا پر بھارتی مظالم بے نقاب کرنے میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں اور وقتا فوقتا مزاحمتی نغمے بھی تیار کرتے رہتے ہیں ۔ترکی میں اپنی پہنچان رکھتے ہیں،کشمیر پر ان کا ایک انگریزی کا نغمہ جو ایک امریکی گلوکارہ نے گایا ۔دنیا میں داد حاصل کر چکا ہے جس کے نتیجے میں بھارت میں کھلبلی مچی اور ان کا ٹیوٹر اکائونٹ بند کرنے کی کوشش کی گئی۔ ان سے سوشل میڈیا کے ذریعے پہلے سے رابطہ تھا ۔سفارت خانہ کے ذریعے ان سے ملاقات کا اہتمام ہوا۔ پرتکلف ظہرانے پر ان سے تفصیلی نشست ہوئی۔ تحریک آزادی کشمیر بالخصوص سید علی گیلانی پر ایک ترانہ تیار کرنے پر یکسو ہوئے۔ انہیں پاکستان اور آزاد کشمیر دورے کی دعوت دی گئی جو انہوں نے قبول کرلی۔ اورن صاحب بلاشبہ ون مین آرمی کا کردار ادا کر رہے ہیں اور اس بات کے مستحق ہیں کہ انہیں بڑے سے بڑا اعزاز دیا جائے ۔اسی طرح استنبول یونیورسٹی میں اردو اور فارسی شعبہ کے سربراہ ڈاکٹر خلیل طوقار کی دعوت پر یونیورسٹی کا دورہ کیا۔ 27 اکتوبر یوم سیاہ کے حوالے سے انہوں نے یونیورسٹی میں ایک شاندار کانفرنس کا اہتمام کیا تھاجس میں طلبہ اور اساتذہ نے بڑی تعداد میں شرکت کی۔ کشمیر کی تازہ ترین صورتحال سے آگاہی دی ۔یہ طے پایا کہ ترکی دیگر جامعات میں بھی کشمیر پر کانفرنسوں کا انعقاد کیا جائے گا ۔ڈاکٹر طوقاراردواور فارسی کے بہترین شاعر ہیں ۔اردو میں کئی کتابوں کے مصنف بھی ہیں ۔اہل زبان کی طرح شستہ اردو بولتے ہیں ۔کشمیر اور پاکستان پر کئی کتابوں کے مصنف ہیں اور بلا شبہ علمی اور فکری حلقوں میں ہمارے بہترین سفیر بھی ہیں ۔ دو سال قبل بھی ان کے زیر اہتمام سردار مسعود خان کے ساتھ ایک کانفرنس میں شرکت کا موقع ملا ۔ ترکی اور پاکستان میں کئی کانفرنسوں میں ایک ساتھ شریک ہوئے ۔کشمیر ‘ فلسطین ‘ اوربھارتی مسلمانوں پر مظالم کے حوالے سے ان کے فکر انگیز مقالات اور تقایر ضمیر کے تار جھنجوڑنے کا ذریعہ بنتے ہیں ۔ ان کی خدمات پر بر صغیر کے اہل قلم نے شاندار خراج عقیدت پیش کیا اور حکومت پاکستان نے انہیں اعلیٰ سول اعزاز سے نوازا۔ ان کی خدمات کے لیے تفصیلات کے حوالے سے ایک الگ مضمون تیار کرنے کا ارادہ ہے کہ ایسے محسنوں کی قدر افزائی ہماری اخلاقی ذمہ داری ہے ۔
دورے دوران میں سیمینارز،انٹرویوز،اور مختلف اداروں کے ذمہ داران سے ملاقاتوں کے ذریعے ترکی کے صدر رجب طیب اردگان کی حکومت اور اہل ترکی کا ہل کشمیرکی مسلسل پشتیبانی اور ترجمانی پر شکریہ اداکیا،بالخصوص اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے خطاب میں صدر اردگان نے جس بھرپور اندا ز سے کشمیریوں کے حق خودارادیت کی حمایت کی اس کی تحسین کی اظہار تشکر کے ساتھ بین الاقوامی او آئی سی اور دوطرفہ سطح پرترکی کی قیادت سے مزید فعال کردار ادا کرنے کا تقاضاہے کیا۔
دورے کے دوان میں فلسطین شام،عراق اور بوسنیاکے قائدین سے ملاقاتیں ہوئیں اور وہاں کے حالات سے آگاہی ہوئی۔
اس دورے کو کامیاب بنانے میں برادرطلحہ شیخ کے علاوہ اہل کشمیر اور پاکستان کے عوامی سفیر برادر ندیم جو ہمیشہ ہماری میزبانی کرتے ہیں اپنی پیشہ وارانہ مصروفیات کے باوجود پاکستان سے جانے والے ہر مہمان کی عزت افزائی کرتے ہیں نے اہم کردر اداکیا ان کی کاوشوں سے سینکڑوں پاکستانی طلبہ اس وقت ترکی کی جامعات میں زیر تعلیم ہیں ۔ سب کو مربوط کرنے میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں ۔ برادر طلحہ شیخ اس سارے سفر میں ہمارے ساتھ رہے ااور بہترین میزبانی کا حق ادا کیا ۔ کشمیر کے ایک اور سپوت جو تحریک کا عظیم اثاثہ ہیں بھی شریک سفر رہے ۔ برادر طلحہ کے بچے اورس اہلیہ جنہوںنے خود بے آرام ہو کر بھی ہمارے قیام و سفر کو آسائش بخشی سب کا شکریہ ۔ اﷲ سب کو اجر عظیم سے نوازے۔ آمین ۔