احساس کے نشتر۔۔۔تحریر: محمد اظہر حفیظ


کسی کا احساس ھونا بھی ایک احساس ھے۔ گورنمنٹ آف پاکستان نے غریبوں کے احساس کیلئے احساس پروگرام شروع کیا ھے۔ بہت خوش آئند بات ھے۔ غریب خاندانوں کی مدد کی جائے۔ ڈاکٹر ثانیہ نشتر صاحبہ کی زیر نگرانی یہ پروگرام چل رھا ھے۔ میرے خیال میں اگر اس پروگرام کا کسی غریب کو سربراہ لگایا جاتا تو بہتر تھا۔
اس کا ممبر شپ طریقہ کار اتنا آسان ھے کہ ھر غریب کے پاس اپنا موبائل فون اور اپنے نام کی فون سم کا ھونا لازمی ھے۔ دو کروڑ خاندان اس سیکم سے مستفید ھونگے۔ ماشااللہ اس کی رجسٹریشن بہت آسان ھے اس کیلئے ایک ویب سائٹ اور ایپ ڈیولپ کی گئی ھے۔ کیا یہ ممکن ھے ماہانہ ایک ھزار کی رعایت کیلئے سمارٹ فون اور ٹیلی فون سم رکھی جاسکے۔

اگر ممکن ھو تو ڈاکٹر صاحبہ کا بیان کردہ طریقہ کار آپ انکی زبانی سن سکتے ھیں ۔ پھر آپ کو بھی سمجھ آجائے گا کہ نشتر انکے نام کا حصہ کیوں ھے۔
میں پچھلے 33سال سے شعبہ کمپیوٹر سے وابستہ ھوں اور 27 سال سے موبائل فون کا استعمال کنندہ ھوں۔ مجھے اس ایپ کا طریقہ کار سن کر مشکل لگا۔ کون لوگ ھیں جو حکومت وقت کو ایسے مشورے دیتے ھیں۔ ان کے پاس دوکروڑ خاندانوں کا ڈیٹا پہلے سے موجود ھے یہ انکو ممبر شپ کارڈ جاری کرتے اور دوکاندار اپنی ایپ سے شناختی کارڈ نمبر اور ممبر شپ نمبر ڈال کر تصدیق کرتا اور یہ سہولت مہیا کردیتا۔ لیکن پھر کسی کو احساس کیسے ھوتا کہ وہ غریب ھے۔ اس پروگرام کا نام بلکل درست ھے احساس پروگرام۔ کہ ھر سفید پوش اور غریب کو احساس دلایا جائے کہ وہ غریب ھے۔

مہربانی فرماکر یہ غریبوں پر نشتر برسانے بند کئے جائیں اور نشتر کی بجائیکسی غریب پرور کو اس پروگرام کا انچارج لگایا جائے۔ پاکستان میں لاکھوں لوگ فری دستر خوانوں پر کھانا کھاتے ھیں پر کسی پر بھی کسی کی پہچان نہیں پوچھی جاتی۔ آج وہ شناختی کارڈ دیکھنا شروع کردیں سارے دستر خوان خالی ھوجائیں گے۔ ھمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم فرماتے ھیں۔ کہ جب کسی کی مدد کرو تو دوسرے ھاتھ کو پتہ نہ چلے۔ پر یہ کونسی ریاست مدینہ ھے۔ جس میں غریب کے پاس سمارٹ فون ھوگا تو وہ غریب سمجھا جائے گا۔ پھر اس کو ویب سائٹ چلانا آتی ھو۔ اردو پڑھنا آتی ھو۔ اس کے بعد وہ ممبر بنے۔ ھر دوکاندار کو بھی وہ ایپ چلانا آتی ھو۔ کیا کبھی آپ نے گاوں کے دوکاندار دیکھے ھیں۔ اس پر تین چیزیں خرید سکتے ھیں آٹا، دالیں اور کوکنگ آئل۔ اب اس حساب کتاب کی تصدیق ھوگی تو سامان ملے گا۔

ابھی گورنمنٹ نے چینی 90 روپے کی دینا شروع کی ھے ۔ اس کیلئے بھی رجسٹریشن ضروری ھے ۔ 88 روپے کلو چینی دوکاندار کو ملے گی۔ وہ اس کو مزدور سے رکشہ یا سوزوکی پر لوڈ کرائے گا پھر اس کا کرایہ ادا کرے گا۔ شاپنگ بیگ میں ڈال کر بیچے گا ۔ اس کو کیا فائدہ ھے کہ وہ اس نیٹ ورک میں آئے۔ مجھے وہ دور یاد ھے جب ڈپو سے چینی ملا کرتی تھی۔ لوگ لائنوں میں لگ کر چینی لیتے تھے۔ اب وہ سب لوگ سارا دن یوٹیلیٹی سٹور پر لائن میں لگ کر یہی سہولت حاصل کرتے ھیں۔ ھمارے وزیراعظم جو مغرب کو سب سے بہتر جانتے ھیں بتانا پسند کریں گے یہ طریقہ کار کس ملک میں دیکھا یا سنا ھے۔ یا ڈاکٹر ثانیہ نشتر صاحبہ بتانا پسند کریں گی کیا وہ کبھی گھر کی خریداری کرنے یوٹیلیٹی سٹور پر گئیں ھیں۔ سٹور کا افتتاح کرنا اور چھاپہ مارنا ایک علیحدہ فریضہ ھے اور خریداری کرنا ایک اور کام ھے۔ برائے مہربانی عوام میں آئیے ان کے مسائل دیکھئے، جانچئے اور ان کو عوامی سطح پر حل کیجئے۔ احساس کسی پروگرام کانام نہیں ھے۔ یہ احساس کرنے کا فعل ھے۔ مہربانی فرماکر احساس کیجئے۔ پروگرام نہ بنائے۔ ڈاکٹر ثانیہ نشتر صاحبہ کا یہ فیصلہ بہت شاندار ھے کہ اس ویب سائٹ اور ایپ کو چلانے کا طریقہ بھی وہ خود ھی بیان کر رھی ھیں ۔ حالانکہ یہ کام کوئی بھی کرسکتا تھا حتی کہ وزیراعظم صاحب بھی۔ کیونکہ ان کے آس پاس لوگ سوشل میڈیا کے استعمال کو ھی کامیابی سمجھتے ھیں۔ وزیراعظم صاحب اور انکی قابل صد احترام ٹیم کو عوام کے پاس آنا چاھیئے تاکہ ان کے مسائل کا انکو احساس ھو نہ کہ سنی سنائی باتوں پر احساس پروگرام ترتیب دیا جاسکے۔ آپ کا پروگرام بہت اچھا ھے پر طریقہ کار غلط ھے۔ احساس کیجئے۔ اللہ تعالی آپ کا احساس کریں گے انشااللہ

ایک ظالم بادشاہ سے کسی نے سوال کیا کہ آپ کو کبھی زندگی میں رحم آیا تو انھوں نے فرمایا صرف ایک دفعہ جب ایک ماں نہر کنارے کپڑے دھو رھی تھی اور اس کا بچہ نہر میں گر گیا وہ مدد کیلئے چیخ و پکار کر رھی تھی مجھے احساس ھوا کہ مجھے اس کی مدد کرنی چاھیئے۔ میں نے فورا اپنا نیزہ اس ڈوبتے بچے کی چھاتی پر مارا اور بچہ نکال کر اس کی ماں کے حوالے کردیا۔ اس کے علاوہ کبھی یہ احساس مجھ میں نہیں جاگا۔