جبری گمشدگی کا مسئلہ روکنے اور اس کا حل تلاش کرنے کیلئے ریاستوں کو ملکر ایک جامع طریقہ کار تیار کرنا چاہیے، آمنہ مسعود جنجوعہ


اسلام آباد(صباح نیوز)چیئرپرسن ڈیفنس آف ہیومن رائٹس آمنہ مسعود جنجوعہ نے کہاہے کہ جبری گمشدگی کا مسئلہ صرف پاکستان تک محدود نہیں۔بنگلہ دیش،ہندوستان، انڈونیشیا، فلپائن وغیرہ میں بھی جبری گمشدگی کے واقعات بڑھتے جا رہے ہیں۔اس تشدد کو روکنے اور اسکا حل تلاش کرنے کیلئے ریاستوں کو ملکر ایک جامع طریقہ کار تیار کرنا چاہیے،جبری گمشدگی کی روک تھام اور خاتمے میں خواتین کی موثر اور یکساں شراکت کو تقویت دینے کیلئے تمام شعبوں میں مثبت اقدامات اٹھانے چاہیئیں۔لاپتہ افراد کی تلاش کے علاوہ، معاشرے میں بقا کیلئے خواتین مستقل جنگ میں ہیں۔خاندان کی معاشی ذمہ داری نبھانا خواتین کیلئے ایک سب سے بڑا چیلنج ہے،  عالمی یوم خواتین کے موقع پر اپنے بیان میں آمنہ مسعود جنجوعہ نے کہاکہ 8 مارچ بین الاقوامی سطح پر خواتین کی معاشی،سماجی،جدوجہد اور کاوشوں کو سراہنے کیلئے یہ دن دنیا بھر میں منایا جاتا ہے۔خواتین کی معاشرتی ،معاشی،ثقافتی،سیاسی  تقسیم کے خاتمے،صنفی مساوات کو مستحکم اور با اختیار بنانے کے عزم کا اعادہ کیا جاتا ہے۔عرصہ دراز سے،عالمی یوم خواتین نے یکساں طور پر ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ممالک میں خواتین کیلئے ایک نئی عالمی جہت اختیار کی ہے۔خواتین کی بڑھتی ہوئی عالمی تحریک کو اقوام متحدہ کی چار عالمی خواتین کانفرنسوں نے تقویت بخشی ہے،

اس تقریب نے خواتین  کے حقوق اور سیاسی و معاشی میدان میں حصہ لینے کیلئے  اہم  نقطہ بنانے میں مدد کی ہے۔انہوں نے کہاکہ پوری دنیا میں اس دن خواتین کے مختلف حقوق کو اجاگر کیا جاتا ہے۔چیرپرسن ڈیفنس آ ف ہیومن رائٹس نے کہاکہ کہ امسال،ڈیفنس آف ہیومن رائٹس پاکستان  کا مقصد،خواتین کے ان مسائل کو اجاگر کرنا ہے جو جبری گمشدگی کے بعد درپیش آتے ہیں۔جبری گمشدگی انسانی حقوق کی خلاف ورزی کی بدترین شکل ہے،جو نہ صرف جبری گمشدگی کے شکار فرد کو متاثر کرتی ہے بلکہ پورے خاندان پر اثرانداز ہوتی ہے۔جبری گمشدگیوں پر کام کرنے والا ہر شخص جانتا ہے کہ ،لاپتہ ہونے والے افراد کی اکثریت مردوں پر مشتمل ہے،نتیجتا پیچھے رہ جانے والی خواتین لاتعداد مسائل سے دوچار ہوتی ہیں،جس میں مالی ،معاشرتی، نفسیاتی اور قانونی مسائل شامل ہیں۔

انہوں نے کہا کہ لاپتہ افراد کی تلاش کے علاوہ، معاشرے میں بقا کیلئے خواتین مستقل جنگ میں ہیں۔خاندان کی معاشی ذمہ داری نبھانا خواتین کیلئے ایک سب سے بڑا چیلنج ہے،باالخصوص روایتی معاشروں میں خاندان کی کفالت بنیادی طور پر مرد کی ذمہ داری سمجھی جاتی ہے۔حق و انصاف کی جدوجہد طویل اور تھکا دینے والی ہے۔اپنے پیاروں کا اتہ پتہ لگانے کیلئے جواب طلب کرنے والی خواتین کو دھمکیاں بھی دی جاتی ہیں۔آمنہ مسعود نے کہا کہ ڈی ایچ آر کی تحقیق کے مطابق،98 فیصد خواتین اپنے شوہروں کے بغیر غیر محفوظ محسوس کرتی ہیں،90 فیصد کو نفسیاتی دباو کا سامنا کرنا پڑتا ہے،یہ تناو بنیادی طور پر مالی اور جذباتی مسائل کی وجہ سے ہے،جیسے بچوں کی تعلیم میں خلل یا بعض اوقات بچوں کو کھانا مہیا نہ کر پانا شامل ہے۔تحقیق سے واضح ہوتا ہے کہ خواتین جبری گمشدگیوں کے باعث تباہ کن حالات سے دوچار ہیں۔

افنان کا تعلق کے پی کے سے ہے،وہ متعدد دوسری خواتین کی طرح اپنے شوہر عبدالعزیز کی جبری گمشدگی کے بعد بہت سی مشکلات سے دوچار ہوئیں۔انہیں شدید،مالی،نفسیاتی اور معاشرتی مسائل کا سامنا کرنا پڑا۔اپنے بچوں کو تعلیم کی فراہمی کیلئے اسے بچوں کے ہمراہ کسی رشتے دار کے برآمدے میں قائم کردہ خیمے میں رہائش اختیار کرنا پڑی۔ستم بالائے ستم کہ ایک شخص جس نے کسی ایجنسی سے تعلق رکھنے کا دعوی کیا تھا،کو جب اس نے اپنے شوہر کے بارے میں بتایا تو اس شخص نے کچھ رقم کا مطالبہ کر دیا۔اس صورتحال سے اسے غیر محفوظ اور بے بس محسوس کرنے پر مجبور کر دیا۔یہ ان ہزاروں خواتین کی کہانی ہے جو گمشدگی کی وجہ سے اپنے شوہر،بھائی اور باپ کھو بیٹھی ہیں۔

انہو ں نے کہا کہ ڈی ایچ آر نے ملک بھر سے لاپتہ افراد کے  2800  کیسوں کا اندراج کیا ہے،یہ مسئلہ صرف پاکستان تک محدود نہیں۔بنگلہ دیش،ہندوستان، انڈونیشیا، فلپائن وغیرہ میں بھی جبری گمشدگی کے واقعات بڑھتے جا رہے ہیں۔اس تشدد کو روکنے اور اسکا حل تلاش کرنے کیلئے ریاستوں کو ملکر ایک جامع طریقہ کار تیار کرنا چاہیئے،جس میں متعلقہ قانون سازی، مالی وسائل کی فراہمی اور امتیازی سلوک سے نمٹنے کیلئے قومی مشینریوں کا قیام ،خواتین کے حقوق اور مساوات کو فروغ دینا شامل ہونا چاہیئے۔ریاستوں کو نہ صرف شہریوں کیلئے حفاظتی اقدامات اپنانے چاہئیں بلکہ جبری گمشدگی کی روک تھام اور خاتمے میں خواتین کی موثر اور یکساں شراکت کو تقویت دینے کیلئے تمام شعبوں میں مثبت اقدامات اٹھانے چاہیئیں۔

آمنہ مسعود جنجوعہ نے کہاکہ ڈیفس آف ہیومن رائٹس پوری دنیا میں جبری گمشدگیوں کے متاثرین کی تمام خواتین رشتے داروں اور انکے اہل خانہ سے اظہار یکجہتی کرتی ہے۔اس دن ڈی ایچ آر ایسی تمام خواتین کو خراج تحسین پیش کرتی ہے جو اپنے پیاروں کی تلاش کی جدوجہد کر رہی ہیں۔