غزہ !!! ہنگامی و جبری نقل مکانی کا عذاب…تحریر مسعود ابدالی

 غزہ پر ڈیڑھ سال کی مسلسل بمباری و گولہ باری کے باوجود دست قاتل میں تھکن یا رحم کے آثار ہیں نہ مظلوم لیکن پرعزم مزاحمت کاروں کے پائے استقلال میں کوئی جنبش۔ یوں سمجھئے کہ ایک طرف تیر کی برسات ہے کہ تھمنے کا نام نہیں لے رہی تو دوسری جانب سینہ و سر کی فراہمی میں کوئی تعطل بھی نظر نہیں آرہا۔پہاڑوں کو ریزہ ریزہ کردینے والے بموں کے مقابلے میں اہل غزہ صرف نہتے ہی نہیں بلکہ بھوکے پیاسے بھی ہیں۔ جبر اور صبر کا ایسا ٹکراو تاریخ نے اس سے پہلے شائد ہی کبھی دیکھا ہو۔زخموں سے چور اہل غزہ کی مزاحمت بھی جاری ہے۔ہنگری سے امریکہ کی طرف محو سفر اسرائیلی وزیراعظم نے اپنے خصوصی طیارے میں صحافیوں سے باتیں کرتے ہوئے ایک بار پھر اپنا یہ دعویٰ دہرایا کہ ‘دہشت گردوں’ کی کمر توڑ دی گئی ہے اور یہ لوگ بھیس بدل کر ایمبیولنسوں میں اِدھر سے اُدھر بھاگتے پھر رہے ہیں۔اللہ کی شان کہ 6 اپریل کی صبح جب نیتن یاہو یہ شیخی بگھار رہے تھے، مزاحمت کاروں نے عین اسی وقت دس راکٹ اشدود کے بحری اڈے اور عثقلان عسکری کالونی کی طرف داغ دئے۔ پانچ کو امریکی ساختہ آئرن ڈوم نے فضا ہی میں غیر موثر کردیا لیکن حفاظتی نظام کو غچہ دے کر ہدف تک پہنچنے والے راکٹوں سے کئی جگہ آگ بھڑک اٹھی۔


بمباری اور قتل عام کے ساتھ گزشتہ دس دنوں سے اہل غزہ کو نقل مکانی کے عذاب کا سامنا ہے۔ ہرروز انتباہ جاری ہوتا ہے کہ اگلے تین گھنٹوں میں فلاں علاقے پر خوفناک فوجی کاروائی ہونے والی ہے، وہاں سے نکل جاو۔بے خانماں لوگ میلوں پیدل سفر کرکے دوسرے مقامات پر پہنچ کر خیمے گاڑہی رہے ہوتے ہیں کہ نئی نقل مکانی کا حکم جاری ہوجاتا ہے۔ اہل غزہ عید کی شب سے مسلسل سفر میں ہیں۔اب تھکن کا یہ عالم کہ 6 اپریل کو جب الشجاعیہ محلہ خالی کرانے کا حکم آیا تو نڈھال لوگوں نے صاف صاف کہدیا کہ’صاحبو، اب کوئی ہجرت نہیں ہوگی ہم سے’ (افتخار عارف)۔دوسری طرف مزاحمت کاروں نے عربی، انگریزی اور عبرانی میں پیغام جاری کردیا کہ ‘بہت سے اسرائیلی قیدی الشجاعیہ میں رکھے گئے ہیں جنکو یہاں سے نہیں ہٹایا جائیگا اور اگر بزور قوت قیدی چھڑانے کی کو شش کی گئی تو اسکے نتیجے میں اسرائیلیوں کو نقصان پہنچ سکتا ہے’۔ اسرائیلی عوام کے نام پیغام میں ترجمان نے مزید کہا کہ اگر نیتن یاہو حکومت کو اپنے قیدیوں کی فکر ہوتی تو وہ جنوری میں ہونے والے معاہدے کی پاسداری کرتے اور جنگ دوبارہ نہ چھیڑتے اور یہ قیدی اسوقت اپنے پیاروں کے درمیان ہوتے۔ اب غزہ میں کوئی جگہ محفوظ نہیں۔ اگر اسرائیلی قیدی بھی بمباری سے ہلاک ہوجائیں تو ہم سے شکوہ نہ کرنا۔
مزاحمت کاروں کے اس اعلان کے بعد قیدیوں کے لواحقین نے تل ابیب میں فوجی ہیڈکوارٹر پر زبردست مظاہرہ کیا۔ لوگ نعرے لگارہے تھے کہ ‘بی بی تمہاری جنگ کی قیمت، ہمارے پیاروں کی زندگی’۔ مظاہرین نے فوج کے سربراہ جنرل ایال ضمیر سے ملاقات کی۔سخت مشتعل لوگوں نے مطالبہ کیا کہ فوج، جنگجو نیتن یاہو کا تختہ الٹ دے۔جنگ بندی اور قیدیوں کی رہائی کیلئے تل ابیب میں مظاہرہ روز کا معمول ہے لیکن مغربی دنیا کی غیر مشروط سرپرستی کی بنا پر نیتن یاہو کسی کی کچھ سننے کو تیار نہیں۔ تین اپریل کو امریکی سینیٹ نے اسرائیل کو اسلحے پر پابندی کی قرارداد جس بری طرح مسترد کی اس نے اسرائیل کے جنگجو حکمرانوں کو مزید “دلیر” کردیا ہے۔ امریکی وزیرخارجہ ہردوسرے روز نیتن یاہو کو فون کرکے امریکی حمائت کا اعادہ کرتے رہتے ہیں۔مزید فوجی امداد کی ضمانت لینے نیتن یاہو 6 اپریل کو بنفس نفیس امریکہ پہنچے۔ بظاہر یہ ملاقات محصولات کے تناظر میں ہے لیکن درحقیقت اس چوٹی ملاقات میں “ٹرمپ غزہ” منصوبے کو آخری شکل دی جائیگی۔اسی دوران اسرائیلی وزیر خارجہ گدون سعر نے ابوظہبی میں وزیرخارجہ شیخ عبداللہ بن زید النہیان سے ملاقات کی۔ اماراتی وزارت خارجہ کے مطابق دونوں رہنماوں نے غزہ امن پر بات کی لیکن آزاد صحافتی ذرایع بتارہے ہیں کہ اصل گفتگو ایران پرحملے کی صورت میں ایرانیوں کی جوابی کاروائی سے امارات کو محفوظ رکھنے کیلئے امریکی و اسرائیلی اقدامات اور فلسطینیوں کے انخلا کے بعد مجوزہ ‘ٹرمپ غزہ’ کی تعمیر میں امارات کے کردارپر ہوئی۔
اسرائیل تو اسرائیل، اسکی حمائت پر کمر بستہ ٹرمپ حکومت کی ہٹ دھرمی کا بھی عجیب عالم ہے۔تحقیقات کے بعد اقوام متحدہ نے اس بات کی تصدیق کردی کہ 23 مارچ کو غزہ میں 5 ایمبیولینسوں، ایک فائر انجن اور اقوام متحدہ کی گاڑی کو اسرائیلی ڈرون نے شناخت کے بعد نشانہ بنایا۔ اس واقعہ میں 15 وردی پوش امدادی کارکن جان بحق ہوئے تھے۔ نیویارک ٹائمز نے وہ تصویر بھی شایع کردی جو خود اسرائیلی ڈرون نے حملے سے پہلے لی تھی جس میں ایمبیولنسیں صاف دکھائی دے رہی ہیں۔یکم اپریل کو جب پریس کانفرنس کے دوران کسی صحافی نے یہ معاملہ اٹھایا تو وزارت خارجہ کی ترجمان ٹیمی بروس (Tammy Bruce)نے کہا ‘غزہ میں جو کچھ ہو رہا ہے اسکے ذمہ درا مزاحمت کارہیں’
اقوام متحدہ کے ادارے UNRWA کا کہنا ہے کہ غزہ میں بمباری سے ہرروز 100 بچے جاں بحق یا شدید زخمی ہورہے ہیں اور اسرائیل نے دو تہائی غزہ کو no go ایریابنادیاہے۔اسرائیلی وزیراعظم نے بہت فخر سے کہا کہ اسرائیلی فوج نے فلاڈیلفی راہداری کے متوازی ایک اور راہداری بناکر ر فح کے گرد گھیراو مکمل کرلیاہے اور اب مزاحمت کاروں کیلئے ہتھیار ڈالنے کے سوا کوئی اور راستہ نہیں۔ہتھیار ڈالنے کی اسرائیلی خواہش تو شائد پوری نہ ہو لیکن لگتاہے کہ خون کی ہولی غزہ کے آخری بچے کے قتل تک جاری رہیگی۔ گزشتہ ہفتے ہلال احمر غزہ کے سربراہ نے اپنے جذباتی پیغام میں کہا کہ غزہ پر مسلسل آگ برس رہی ہے، پانی کی آخری بوند بھی ختم ہوچکی، ہر طرف موت نظر آرہی ہے’ اسی کیساتھ غزہ کے ڈائریکٹر صحت ڈاکٹر منیر البرش کا پیغام بھی نشر ہواکہ ‘غزہ آخری سانس لے رہا ہے، دنیا کا بہت انتظار کیا خدا حافظ’
اسرائیلی فوج بمباری کیلئے بنکر بسٹر بم استعمال کررہی ہے۔ جیسا کہ نام سے ظاہر ہے یہ بم پہاڑی علاقوں میں چٹانوں سے تراشے مورچوں کو تباہ کرنے کیلئے استعمال ہوتے ہیں اور شہری علاقوں میں اسکی استعمال پر پابندی ہے لیکن امریکہ اور اسرائیل دنیا کے کسی ضابطے اور قانون کو خاطر میں نہیں لاتے۔ امریکہ نے کنکریٹ کو چیر دینے والے یہ بم افغانستان میں بیدریغ استعمال کئے۔ روائتی بم کسی سخت سطح سے ٹکرانے ہی پھٹ جاتے ہیں جبکہ بنکر بسٹر بم عمارت کی چھت چیرکر دس انچ زمین کے اندر گھس کر پھٹتے ہیں جسکی وجہ سے عمارت کا ملبہ اور وہاں موجود لوگ فوارے کی طرح فضا میں بلند ہوجاتے ہیں۔ مرکزی غزہ پر بمباری کے جو بصری تراشے اسرائیلی فوج نے جاری کئے ہیں اس میں دکھایا گیا ہے کہ کس طرح گردو غبار اور دھویں کے ساتھ بچوں کے لاشے کئی سو فٹ اوپر فضامیں اچھلے اور نیچے گر کر پاش پاش ہو گئے۔
غزہ کے ساتھ غربِ اردن میں بھی معاشرتی تطہیر کی مہم زور شور سے جاری ہے۔ عید کے دن اسرائیلی فوج نے جنین کے مضافاتی علاقے برقین اور وسطی غرب اردن کے شہر سلفیت پر حملہ کیا۔ اس دوران بمباری، ڈرون حملے اور ٹینکوں کے بھرپور استعمال نے دونوں قصبات کو کھنڈر بنادیا۔ بمباری اور فائرنگ سے درجنوں افرادجاں بحق ہوئے، زندہ بچ جانے والوں اور زخمیوں کو اردنی سرحد کی طرف دھکیل دیاگیا۔چھ اپریل کو غربِ اردن کے شہر ترمسعيّا پر فوجی سرپرستی میں قابضین (Settlers)نے حملہ کیا۔گھر، دوکانیں اور گاڑیوں کو آگ لگادی گئی۔ اندھادھندفائرنگ سے امریکی شہریت کا حامل ایک 14سالہ بچہ عمر محمد ربیع جاں بحق ہوگیا۔ ٹرمپ انتطامیہ کا دہرا معیار ملاحظہ فرمائیں کہ غزہ کے قید میں اسرائیل شہری عیدن الیگزنڈر کی رہائی کیلئے ساری ٹرمپ انتطامیہ سرگرم ہے لیکن اس امریکی بچے کے ہییمانہ قتل پر کسی کو کچھ تشویش نہیں۔ حتیٰ کے CNN نے اس واقعے پر امریکی حکومت کے ردعمل کیلئے جب وزارت خارجہ اورقصرِ ابیض کو برقی خطوط بھیجے تو وہ ای میل unreadواپس آگئی یعنی مکتوب الیہ نے متن پڑھے بغیر ہی ای میل حذف کردی۔
غزہ نسل کشی کیخلاف احتجاج کرنے والوں کیخلاف انتقامی کاروائی میں شدت آگئی ہے۔امریکی وزیرتعلیم لنڈا مک ماہون (Linda McMahon) نے جامعات کے سربراہوں کو دھمکی دی ہے کہ وفاق کی مدد چاہئے تو غزہ نسل کشی کے خلاف تحریک پر پابندی لگاو۔ تاہم دھمکیوں اور گرفتاریوں کے باوجود کسی نہ کسی سطح پر طلبہ کا احتجاج جاری ہے۔ چار اپریل کو جامعہ ٹیکسس، آسٹن (UT Austin)میں اسرائیلی طلبہ کی Israel Block Partyکے باہر مظاہرہ کیا گیا جسکی وجہ سے منتظمین نے تقریب ختم کردی۔اس جسارت پر گورنر صاحب سخت برہم ہیں۔امریکہ کے بعد جرمنی میں بھی غزہ نسل کشی کی مذمت کرنے والوں کی پکڑ دھکڑ شروع ہوگئی ہے۔اسرائیل مخالف مظاہروں میں حصہ لینے والے چار غیر ملکی طلبہ کو گرفتار کرلیاگیا، خیال ہے کہ انھیں ملک بدر کردیا جائیگا۔
نسل کشی میں معاونت کرنے والے اداروں کے تعاقب میں بھی کمی نہیں آئی۔چار اپریل کو مائیکروسوفٹ نے مصنوعی ذہانت یا AIمیں کام کے آغاز کی 50 ویں سالگرہ منائی۔اس موقع پر ادارے کے صدر دفتر واقع ریاست واشنگٹن میں تقریب ہوئی جہاں ادارے کے بانی بل گیٹس اور سربراہ اسٹیو بالمر بھی موجود تھے۔ جیسے ہی شعبہ AIکے سربراہ مصطفے سلیمان تقریر کرنے کھڑے ہوئے، مراکشی نژاد لڑکی ابتہال ابواسد غزہ نسل کشی بند کرو کا نعرہ لگاتے ہوئے اسٹیج کی طرف بڑھی۔ حفاظتی عملے نے اسے دبوچ لیا لیکن وہ چیخ چیخ کر کہتی رہی۔شرم کرو سلیمان! تمہاری AIکے مدد سے اسرائیلی فوج بچوں کا خون کررہی ہے۔ مائکروسوفٹ ، بمباری، ڈرون حملوں اور اہل غزہ میں پھوٹ ڈالنے کی غرض سے اسرائیل کیلئے AI کے خصوصی پروگرام (Applications)ترتیب دے رہی ہے۔ تم اندھے ہو اسلئے فرزندِ شام ہونے کے باوجود تمہیں اپنے ہاتھوں پر عورتوں اور بچوں سمیت پچاس ہزار فلسطینیوں کا لہو نظر نہیں آرہا۔جب ابتہال کو محافظین نے ہال س نکال دیا توایک ہندوستانی لڑکی وانیا اگروال کھڑی ہوگئی اور غزہ نسل کشی کے خلاف نعرے لگائے، اسے بھی باہر نکال دیا گیا اوردوسرے دن ان دونوں ملازمین کو مائیکروسوٖفٹ کی طرف سے پروانہ برطرفی تھمادیا گیا۔
اس حوالے سے برصغیر کی خواتین کا جرات مندانہ کردار ابلاغ عامہ پر چھایا رہا۔کچھ عرصہ پہلے پاکستان کی معروف ارکیٹیکٹ محترمہ یاسمین لاری نے ایک لاکھ ڈالر کا اسرائیلی ایوارڈ یہ کہہ کر ٹھکرادیا کہ ‘ اسرائیلی ادارے سے انعام وصول کرکے میں فلسطینیوں کے زخموں پر نمک نہیں چھڑک سکتی’۔یکم اپریل کو بنگلہ دیش کی لڑکی امامہ فاطمہ نے امریکہ کے International Women of Courage (IWOC)انعام کو ٹھوکر ماردی۔ امامہ کو ایوارڈ وصول کرنے کیلئے امریکہ آنے کی دعوت خاتونِ اول ملانیا ٹرمپ اور وزیرخاجہ مارکو روبیو نے دی تھی۔ اپنے جواب میں امامہ نے لکھا ‘خواتین کارکنوں کا اجتماعی اعتراف ہمارے لئے انتہائی قابل احترام ہے۔ تاہم اس ایوارڈ کو اکتوبر 2023 میں فلسطین پر اسرائیل کے وحشیانہ حملے کی براہ راست حمایت کے لیے استعمال کیا گیا ہے۔ فلسطین کی جدوجہد آزادی کو نظر انداز کرتے ہوئے اسرائیل کے حملے کا جواز پیش کرکے ایوارڈ کی غیر جانبداری پر سمجھوتہ کیا گیا ہے۔ فلسطینی عوام طویل عرصے سے اپنے بنیادی انسانی حقوق بشمول زمین کے حق سے محروم ہیں۔ فلسطین کی جدوجہد آزادی کے ساتھ اظہار یکجہتی کرتے ہوئے میں اس ایوارڈ کو مسترد کر رہی ہوں’
قرطاس و قلم کے خلاف کاروائی بھرپور انداز میں جاری ہے۔ گزشتہ ہفتہ ایک صحافی حسام شبات کو ڈرون سے نشانہ بناکر قتل کیا گیا اور اس ہفتے سات اکتوبر کو خان یونس میں صحافیوں کے ایک اجتماع کو نشانہ بنایا گیا جس میں قلم کے چھ مزدور شدید زخمی ہوگئے۔