ریاست کے طاقتور ادارے کا تشکیل کردہ “حکومتی بندوبست”۔…نصرت جاوید

محض سوشل میڈیا ہی نہیں روزمرہّ زندگی کے تجربات اور مشکلات نے بھی ہمارے عوام کی بے پناہ اکثریت کو اعلیٰ متوسط طبقے کے انتہائی پڑھے لکھے افراد سے کہیں زیادہ باشعور اور دور اندیش بنادیا ہے۔ ان کے دلوں میں ابلتے غصے کو تھوڑا برداشت کرنے کے بعد قومی مسائل کے بارے میں ان کے خیالات غور سے سنیں تو اپنے موجودہ سیاستدانوں کے رویے پر حیرت ہوتی ہے۔ 1970ء کی دہائی کا آغاز ہوتے ہی ایوب آمریت کے خلاف متحرک طلباء تحریک کا حصہ ہوتے ہوئے سیاسی معاملات پر توجہ دینے کی عادت اپنائی تھی۔ صحافت کو پیشہ بنانے کے بعد یہ عادت سیاسی موضوعات کے بارے میں خبریں جمع کرنے اور تبصرہ آرائی کے بہت کام آئی۔ میں نے عوامی سوچ اور سیاستدانوں کے عمومی رویے کے درمیان اتنا فاصلہ کبھی محسوس نہیں کیا جو ان دنوں دیکھنے کو مل رہا ہے۔
سیاستدانوں کی بے پناہ اکثریت ایک حوالے سے جائز اور ٹھوس وجوہات کی بنیاد پر یہ طے کرچکی ہے کہ وطن عزیز میں حکومتی بندوبست ریاست کے طاقتور ادارے ہی تشکیل دے سکتے ہیں۔ اس ضمن میں انہیں پیش قدمی یا بازاری زبان میں یوں کہہ لیجئے کہ ازخود ’’پنگا‘‘ لینے کی کوئی ضرورت نہیں۔ بہتر یہی ہے کہ سیاست میں زندہ رہنے کے لئے ’’مقتدرہ‘‘ کی ترجیح تصور ہوتے گروہ میں شامل رہا جائے۔ اپنی بقاء کے لئے دنیا بھر کے سیاستدان ایسی لچک دکھانے کو ہمیشہ آمادہ رہتے ہیں۔ وقت شناسی اور موقع پرستی مگر دو مختلف رویوں کے نام ہے۔ ’’عوامی نمائندگی‘‘ کے دعوے دار افراد کے لئے مناسب وقت پر خلق خدا کے جذبات کے ساتھ کھڑا ہونا لازمی ہے۔ وہ ان کے ساتھ کھڑے دکھائی نہ دیں تو ظالم وقت معاف نہیں کرتا۔
بطور صحافی میاں ممتاز دولتانہ سے میری صرف تین ملاقاتیں ہوئیں۔ مقصد ان کا ’’تاریخ کے لئے‘‘ انٹرویو ریکارڈ کرنا تھا جو ان کا دنیا سے رخصتی کے بعد منظر عام پر لانے کا وعدہ ہوا۔ جس اخبار کے لئے مگر یہ پراجیکٹ تیار ہوا تھا غلط معاشی فیصلوں کے سبب اپنا وجودبرقرار نہ رکھ پایا۔ دولتانہ صاحب سے قربت کے دعوے دار سیاستدانوں سے تاہم جب بھی تاریخی تناظر میں گفتگو ہوتی وہ انہیں ’’انتہائی ذہین‘‘ قراردیتے۔ ان کی ’’ذہانت‘‘ نے مگر قیامِ پاکستان کے فوری بعد پنجاب کو ’’دولتانہ -ممدوٹ کش مکش‘‘ سے روشناس کروایا۔ ’’نوائے وقت‘‘ کو اس کش مکش کے دوران انہوں نے عتاب کا نشانہ بنایا۔ اخبار تو اپنا وجود برقرار رکھنے میں کامیاب رہا۔ پنجاب کے سیاستدانوں کی ’’ذہانت‘‘ اور ’’محلاتی سازشوں‘‘ نے مگر 1953ء میں فوج کو امن وامان یقینی بنانے کا حتمی ادارہ ثابت کیا اور 1953ء کے جزوی مارشل لاء  کے دوران کمائی ’’نیک نامی‘‘ فیلڈ مارشل ایوب خان کے ہاتھوں اکتوبر1958ء کا ’’انقلاب‘‘ لانے کے بہت کام آئی۔ وہ دس سال برسراقتدار رہے۔ عوامی جذبات سے آگاہ نہ رہنے کے سبب مگر 1969ء میں استعفیٰ دے کر جنرل یحییٰ کو ایک اور مارشل لاء  لگانے کی دعوت دینے کو مجبور ہوئے۔ جنرل ضیاء  نے بھی ملک کو ’’خانہ جنگی‘‘ سے بچانے کے لئے 4جنوری 1977ء  کی رات مارشل لاء  لگادیا تھا۔ اس کے بعد 11برس تک بادشاہوں کی طرح برسراقتدار رہے۔ ان کے انجام کے ذکر سے البتہ خوف آتا ہے۔
تاریخ کا ذکر میرے نوجوان قارئین کو اس کالم میں اچھا نہیں لگتا۔ وہ چاہتے ہیں کہ تناظر کو واضح کئے بغیر ’’مکدی گل‘‘ بتادی جائے۔ دنیا کے جدید ترین موٹرویز پربھی برق رفتار سفر کے لئے گاڑی میں لگے اس شیشے پر نگاہ رکھنا لازمی ہے جو آپ کو پیچھے آنے والی ٹریفک کے بارے میں باخبر رکھتا ہے۔ ’’مکدی گل‘‘ البتہ یہ ہے کہ ہر اعتبار سے میں ایک ’’شہری‘‘ بندہ ہوں۔ زراعت کے بارے میں قطعاََ جاہل رہا۔ جنرل ضیاء کے اقتدار کو ’’جمہوریت‘‘ کا لبادہ فراہم کرنے کے لئے 1985ء میں جو ’’غیر جماعتی انتخاب‘‘ ہوئے ان کیلئے جاری انتخابی مہم کے دوران پنجاب اور اْن دنوں سرحد کہلاتے صوبے کے کئی دیہاتوں کا دورہ کیا۔ خلق خدا کی ترجیحات کا اس کی بدولت حقیقی معنوں میں اندازہ ہوا۔ مذکورہ انتخاب کے نتیجے میں جو قومی اسمبلی معرضِ وجود میں آئی تو اس کے بیشتر اجلاس کالا باغ ڈیم کی تعمیر کے خلاف بحث کی نذر ہوجاتے۔ میں نے نہایت دیانتداری سے اس تنازعہ کی وجہ سمجھنے کی کوشش کی۔ دلائل کے بجائے مگر غیر پنجابیوں سے فقط یہ سننے کو ملاکہ ’’ہمارا پانی‘‘ چرانے کے لئے مذکورہ ڈیم تعمیر کرنے کا منصوبہ بنایا گیا ہے۔ بالآخر قضیہ اتنا جذباتی ہوگیا کہ افغانستان کو ایک سپرطاقت -کمیونسٹ روس- سے ’’آزاد‘‘ کروانے والے جنرل ضیاء تمام تر اختیارات کے باوجود اسے تعمیر نہ کرپائے۔ ان کے بعد تشریف لائے جنرل مشرف بھی امریکہ کی سرپرستی کی بدولت بہت طاقتور ہونے کے باوجود اسے تعمیر کرنے کی جرات نہ دکھاپائے۔
کالا باغ ڈیم کی تاریخ نگاہ میں رکھتے ہوئے میں چولستان کو نئی نہروں کی تعمیر سے آباد کرنے کا منصوبہ سنتے ہی پریشان ہوگیا تھا۔چند دوستوں کو جوخود کو دورِ حاضر کے لئے درکار ’’ابلاغی حکمت عملی‘‘ کے حتمی ماہر شمار کرتے ہیں نہایت عاجزی سے عرض کرتا رہا کہ زرعی امور سے قطعی نابلد ہونے کے باوجود مجھے اپنی بیوی کو وراثت میں ملی زمین کے انتہائی چھوٹے رقبے کو آباد کرنے کی کوشش کرتے ہوئے دریافت یہ ہوا کہ اسلام آباد جیسے شہر میں جہاں بارش آج سے چند ہی برس قبل تک معمول تصور ہوتی تھی وہاں پانی نایاب ہونا شروع ہوگیا ہے۔ ماحولیات پر نگاہ رکھنے والے ماہرین 1990ء کی دہائی سے مسلسل چیخ رہے تھے کہ ہمارے گلیشیر بہت تیزی سے پگھل رہے ہیں۔ اس کی بدولت یہ خطہ قحط سالی کی جانب بڑھ رہا ہے۔ 2025ء کو اس حوالے سے وہ سال بتایا گیا تھا جب بارش ’’معمول‘‘ کے بجائے ’’کبھی کبھار‘‘نصیب ہوگی۔ آبادی میں بے شمار اضافے نے پینے کے لئے صاف پانی پہلے ہی نایاب بنادیا ہے۔ اب زراعت اس سے محروم ہونے کی جانب بڑھ رہی ہے۔
دورِ حاضر میں ابلاغ کے جدید ترین ذرائع کو بروئے کار لاکر لوگوں کی ’’ذہن سازی‘‘ کے ماہر بنے ذہین وفطین افراد کے لئے لازمی تھا کہ وہ قوم کو 2025ء کے لئے تیار کرتے۔ اس کی جانب مگر توجہ ہی نہیں دی گئی۔ ’’پانچویں پشت کی ابلاغی جنگ‘‘ لڑتے ہوئے ہم نے عمران خان صاحب کو خلق خدا کے لئے دورِ حاضر کا مسیحا ثابت کیا۔ ان کی ’’مسیحائی‘‘ سے دل بھرگیا تو سمجھ نہ آئی کہ اپنے ہاتھوں سے تراشے صنم کو اب لوگوں کے دلوں سے کیسے نکالیں۔ پانی جیسے حساس موضوع پر لیکن ’’تجربات‘‘ سے گریز لازمی ہے۔ ٹھوس اعدادوشمار کی مدد سے لوگوں کو بآسانی سمجھایا جاسکتا ہے کہ ہمارے دریا?ں میں پانی کی مقدار بتدریج بڑھ رہی ہے یا اس میں کمی آرہی ہے۔ اگر یہ پانی کم ہورہا ہے تو اسے بچانے اور ذمہ داری سے استعمال کرنے کیلئے زندگی میں نئے چلن اختیارکرنے کی ضرورت ہے۔ 
جس موضوع پر کامل توجہ درکار تھی اسے نظرانداز کرتے ہوئے مگر چولستان آباد کرنے کا ذکر شروع ہوگیا۔ چولستان کی ممکنہ ’’آبادی‘‘ نے سندھ کے عام کسان کو اپنی ’’بربادی‘‘ کے بار ے میں متفکر بنادیا ہے۔ ان کی فکر کا ذکر میں نے حکمران مسلم لیگ کے چند دوستوں سے کیا تو انہوں نے رعونت سے کندھے اْچکاتے ہوئے مجھ جاہل کو بتایا کہ پیپلز پارٹی موجودہ حکومتی بندوبست سے ’’پنگا‘‘ لینے کا سوچ بھی نہیں سکتی۔ حکمران جماعت کی ’’اتحادی‘‘ یہ جماعت مگر سندھ میں اپنا وجود برقرار رکھنے کے لئے ’’پنگا‘‘ لینے کو بالآخر مجبور ہوگئی اور اس کی وجہ سے پیر کی شام قومی اسمبلی کا اجلاس ’’اچانک‘‘ غیر معینہ مدت کے لئے ملتوی کردیا گیا ہے۔ فیصلہ ہوا تھا کہ یہ اجلاس رواں ہفتے کے جمعہ کے دن تک جاری رہے گا۔ کل رات سے سرپکڑے سوچ رہا ہوں کہ قومی اسمبلی کاا جلاس جاری رکھنے کی قوت سے محروم ہوا حکومتی بندوبست چولستان آباد کیسے کرے گا۔

بشکریہ روزنامہ نوائے وقت