گزشتہ کالم میں ’عرض‘ کے موضوع پر جومعروضات پیش کی گئی تھیں، طویل و عریض ہونے کے باوجود وہ بہت سی باتوں کا احاطہ نہیں کر پائی تھیں۔ مثلاً یہی کہ ’معروضہ‘ بھی اُس بیان کو کہتے ہیں جو پیش کیا گیا ہو۔ اس کی جمع ’معروضات‘ ہے۔گزارش، درخواست اور التجا کے معنوں میں بھی ’معروضہ‘ بولا جاتا ہے۔پچھلے کالم میں ’معروضی‘ باتوں کا ذکر تو ہوا مگر ’معروضیت‘ کا نہیں ہوا۔ لیجے آج کیے دیتے ہیں۔تو جناب، ’معرضیت‘ ایک فلسفیانہ نظریہ ہے جس کا لب لباب یہ ہے کہ اشیا خیال سے باہر اپنا وجود رکھتی ہیں۔ یہ ’داخلیت‘ کی ضد ہے۔
لفظ’عرض‘ کے اندر ’چوڑائی‘ کا مفہوم مضمر ہے۔طویل لمبے کو کہتے ہیں تو’عریض‘ چوڑے کو۔ چوڑائی میں فاصلہ اور پھیلاؤ ہوتا ہے۔ عرض کے خاندان کا ایک لفظ ’اِعراض‘ بھی ہے،اِعراض کے پہلے الف کے نیچے زیر ہے اور’اِعراض‘ کا مطلب ہے منہ پھیر لینا یعنی رُو گردانی کرنا، دُور ہو جانا، فاصلہ پیدا کر لینااور گریز کرنا۔ بعض اوقات یہ حقارت و نفرت کا اظہار کرنے کے معنوں میں بھی لیا جاتا ہے۔ بقولِ اخترؔ:
جو دلبر نے اِغماز مجھ سے کیا
مرے دل نے اِعراض مجھ سے کیا
’اِغماز‘ کا مطلب ہے غرور کرنا یاناز نخرے دکھانا۔غمزہ سے اِغماز بنا ہے۔غمزہ کا مطلب چشم و ابرو کا اشارہ، ناز، نخرہ، عشوہ و ادا ہے۔’ض‘ پر ختم ہونے والا ’اِغماض‘ الگ لفظ ہے۔اس کا مطلب ہے چشم پوشی کرنا، نظر بچانا، بے پروائی ظاہر کرنا اور نظر انداز کرنا۔
قرآنِ مجید میں ’اعراض‘ کا لفظ فعلی، فاعلی اور مفعولی حالت میں متعدد مقامات پر آیاہے۔سورۂ طٰہٰ کی آیت نمبر 124میں فرمایا گیا:
”اور جو میرے ذکر سے منہ موڑے گا تو اُ س کے لیے یقینا زندگی تنگ ہوگی اور ہم اُسے قیامت کے دن اندھا اُٹھائیں گے“۔
اعراض ہی سے ’اعتراض‘ بھی وارد ہوتا ہے۔ اعتراض کے لفظی معنی تو ’سامنے آکر تیر مارنا‘ ہیں۔مگر محاورتاً ’اعتراض کرنا‘کسی چیز میں عیب یا قباحت نکالنے، نکتہ چینی کرنے،مخالفت کرنے، ٹوکنے اور منظور نہ کرنے کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔اس میں بھی آمنے سامنے ہونے یا مدِ مقابل ہونے کا مفہوم مضمر ہے۔ اعتراض کی جمع اعتراضات ہے اورعتراض کرنے والے کو معترض کہا جاتا ہے۔
اعتراض ہی کی ایک قسم ’تعریض‘ بھی ہے۔جس کے لفظی معنی تو پھیلاؤاور توسیع کے ہیں، لیکن اشارے کنائے میں عیب بیان کرنے یا طعنہ زنی کرنے کے مفہوم میں استعمال ہوتا ہے۔’تعرُّض‘ روکنے ٹوکنے، مزاحمت کرنے اور کسی کے آگے آکر آ کھڑے ہو جانے کا عمل ہے۔ تسلیمؔ نے اپنا گلا کٹ جانے کے بعد (غالباً نرخرے سے) ایک شعر کہااور لوگوں کا گلہ شکوہ کیا:
گلا بے خطا کاٹ کر رکھ دیا
کسی نے نہ اُن سے تعرُّض کیا
تعرُّض کے علاوہ ایک لفظ ’تعارُض‘ بھی ہے، جس کا مطلب مخالفت، مزاحمت، کسی کے سامنے آنا، بیچ میں کود پڑنا، باہم جھگڑا کرنا اور ایک دوسرے کے مد مقابل ہونا ہے۔میرؔ صاحب سے لوگ ”تعارض نہ کرتے تھے دیوانہ جان“۔
ایک اور لفظ ہے ’عُرضہ‘۔ اس کے بھی کئی معانی ہیں:نذر پیش کرنا۔ عمارتوں کو جوڑنے کے لیے استعمال ہونے والا پتھر۔ اظہارِ فن اور عرضِ ہنر۔نیز طاقت توانائی اور ہدف وغیرہ۔ ’ہدف‘ کے معنوں میں ’عُرضہ‘ کا لفظ سورۃ البقرہ کی آیت نمبر 224میں استعمال ہوا ہے:
”اللہ کے نام کو ایسی قسموں کا ہدف نہ بناؤ جن سے مقصود نیکی، تقویٰ اور بندگانِ خدا کی بھلائی کے کاموں سے باز رہنا ہو“۔
مراد یہ ہے کہ اللہ جل جلالہٗ کے عظیم نام کو بے ضرورت اور لایعنی قسموں کے لیے یا ایسی قسموں کے لیے جو نیکی اور بھلائی کے برعکس کاموں کے لیے کھائی جائیں، ہرگز ہرگز استعمال نہ کیا جائے۔مولانا امین احسن اصلاحی اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں کہ ایسی فضول قسموں کے لیے اللہ رب العزت کے نامِ پاک کو استعمال کرنا ”بالکل ایسا ہی ہے جیسے کوئی شخص مچھر مارنے کے لیے توپ داغتا پھرے“۔
پچھلے کالم میں عرض کیا گیا تھا کہ ’مَعرِض‘ کہتے ہیں پیش کرنے کی جگہ، صورتِ حال، کیفیت یا جائے ظہور کو۔اس پر رابغ سعودی عرب سے ڈاکٹر محمد سلیم صاحب نے مطلع فرمایا کہ”عرب “Show Room”کے لیے ’معرض‘ کا لفظ لکھتے ہیں“۔
دمام سعودی عرب سے جناب عرفان انصاری نے بھی یہی اطلاع دی:”عرب میں ’معرض‘ وسیع المطلب ہے۔بڑے ‘Expo’ اور ‘Exhibition’کے لیے ’معرض‘ ہی بولا جاتا ہے۔مثلاً ”معرض الکتاب جدہ“ یا ”معرض البنا الریاض“۔
ڈاکٹر محمد سلیم صاحب نے نمائش کو ’معرض‘ کہنے کی نہایت دلچسپ توجیہ کی ہے۔ فرماتے ہیں:
”اساسی معنی دیکھے جائیں تو ’ع ر ض‘ کے اندر چوڑائی میں پھیلنے پھیلانے کا مفہوم ہے۔گودام میں چیزیں سمیٹ کر رکھی جاتی ہیں تاکہ کم جگہ میں زیادہ مال بھرا جاسکے۔مگرجب چیزیں نمائش کے لیے پیش کی جاتی ہیں تو پھیلا دی جاتی ہیں۔ اسی طرح بابِ افعال میں ’اِعراض‘ کا مفہوم بھی واضح ہو جانا چاہیے کہ جب ہم کسی سے ’اِعراض‘ کرتے ہیں تو بچ کر دُور نکل جانا چاہتے ہیں۔صراطِ مستقیم سے بچ کر دوسرا راستہ لے لیں تو ’اِنحراف‘ کا معنی بھی پیدا ہوگا“۔
سعودی عرب ہی کے شہر جدہ سے برادر سید شہاب الدین نے خبر دی ہے کہ ”گاڑیوں کے شو رُوم کو یہاں ’معرض السیارات‘ کہا جاتا ہے۔عربی میں بھی ’عرض‘ کے متعدد معانی ہیں۔کاروباری دنیا میں یہ لفظ ’پیشکش‘ (Offer)کے معنوں میں خوب استعمال ہوتا ہے۔ کسی دُکان پر ‘Sale’ لگی ہو تو لکھا ہوتا ہے’عرضِ خاص‘ یعنی ‘Special Offer’۔تمام بڑے شو رُوم ’معرض‘ کہلاتے ہیں“۔
عرض و معروض ہی سے متعلق ایک لفظ پرکوئٹہ سے جناب شاہین بارانزئی نے روشنی ڈالنے کی درخواست کی ہے۔پوچھتے ہیں:
”لفظ درخواست ہے یا داد خواست؟ کیوں کہ داد خواست کا مطلب تو سمجھ میں آتا ہے’انصاف مانگنے والا‘۔لیکن درخواست کا مطلب سمجھ میں نہیں آتا۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ لفظ درخواست دادخواست کی بگاڑ ہو؟“
نہیں صاحب، اتنا بھی بگاڑ نہیں۔بلوچستان والے تو اچھے خاصے ’فارسی بان‘ ہوتے ہیں۔آپ جانتے ہی ہیں کہ فارسی مصدر ’خواستن‘ کے معنی ہیں چاہنا یا خواہش رکھنا۔خواہش رکھنے والے کو ’خواستگار‘ بھی کہا جاتا ہے۔ مثلاً ”میں آپ سے معافی کا خواستگار ہوں“۔
درخواست میں ’خواست‘ سے پہلے ’در‘ لگا دیا گیا ہے۔ ’در‘ کے ایک معنی تو دروازے کے ہیں۔ دوسرے، مصدر ’دریدن‘ سے لاحقۂ فاعلی کا مرکب بنایا گیاتو ’در‘ کا مطلب پھاڑنے والا ہو گیا، جیسے ’پردہ در‘ یعنی پردہ پھاڑنے والا۔ حرفِ ربط کی حیثیت سے در کے معنی ’میں‘ یا ’کے اندر‘، پر اور اوپر، وغیرہ ہیں۔ ’در‘ کا سابقہ لگاکر ’سے متعلق‘ کا مفہوم بھی ادا کیا جاتا ہے۔تو یوں کہہ لیجے کہ ’درخواست‘ کچھ ’چاہنے یا خواہش کرنے‘ سے متعلق ہے۔ اسی طرح سے ’در‘ کا سابقہ استعمال کر تے ہوئے فارسی زبان میں متعدد تراکیب بنائی گئی ہیں، جن میں سے بہت سی تراکیب اُردو میں بھی رائج ہیں۔ مثلاً’در پیش‘ یعنی سامنے، روبرو اورآگے۔ ’در کار‘ یعنی ضروری اور مطلوب۔ ’درکنار‘ یعنی الگ، ایک طرف اور جدا۔ ’در گزر‘یعنی معافی اور چشم پوشی وغیرہ وغیرہ۔ ’درخواست‘ بھی اسی طرح کی ایک ترکیب ہے۔ جس کے معنی عرض، عرضداشت، التماس، استدعااورطلب یا مطالبہ وغیرہ ہیں۔ یہ اسمِ مصدر مرکب ہے۔ ’درخواست‘ کا لفظ لغات میں الگ اپنا وجود رکھتا ہے، یہ ’داد خواست‘ کی بگڑی ہوئی شکل نہیں ہے۔ دیکھیے میر تقی میرؔ نے کس طرح اپنے ایک ہی شعرمیں ’در‘ کے دو مرکبات استعمال کر ڈالے:
یہی درخواست پاسِ دل کی ہے
نہیں روزہ نماز کچھ درکار
٭٭
