غزہ پر اسرائیلی حملے، صحافی سمیت کم ازکم پچیس افراد شہید

غزہ(صباح نیوز)غزہ پٹی میں اسرائیل کی جانب سے  کیے گئے تازہ حملوں میں ایک صحافی سمیت کم ازکم پچیس فلسطینی شہید  ہو گئے ہیں۔ جرمن ٹی وی نے  طبی ماہرین کا حوالہ دیتے ہوئے رپورٹ کیا ہے  کہ اسرائیلی افواج نے اتوار کو رات گئے غزہ پٹی میں دو بڑے ہسپتالوں کے باہرنصب کیے گئے خیموں پر حملہ کیا، جس میں ایک مقامی رپورٹر سمیت کم از کم دو افراد شہید اور چھ رپورٹروں سمیت نو دیگر افراد زخمی ہوگئے۔ان ہسپتالوں کے عملے کے پورے رہائشی علاقے میں الگ الگ حملوں میں تیئیس دیگر افراد بھی شہید ہوئے۔

اسرائیل نے گزشتہ ماہ حماس کے ساتھ جنگ بندی ختم کرنے کے بعد سے غزہ پر حملوں کی لہر جاری رکھی ہوئی ہے جبکہ اس کی زمینی افواج نے غزہ کی ساحلی پٹی میں نئے فوجی زونز بھی قائم کیے ہیں۔ اسرائیل نے ایک ماہ سے زائد عرصے سے غزہ میں خوراک، ایندھن، ادویات اور انسانی ہمدردی کی بنیاد پر امداد کی ترسیل پر بھی پابندی عائد کر رکھی ہے، کیونکہ وہ حماس پر جنوری میں ہونے والے جنگ بندی معاہدے میں تبدیلیاں قبول کرنے کے لیے دبا وڈالنا چاہتا ہے۔خان یونس میں ناصر ہسپتال کے باہر میڈیا کے ایک خیمے پر دوپہر کے قریب حملے نے اس خیمے کو آگ لگا دی، جس میں ہسپتال کے مطابق فلسطین ٹوڈے نیوز ویب سائٹ کے رپورٹر یوسف الفقاوی کے علاوہ ایک اور شخص  شہید ہو گیا۔اس حملے میں چھ دیگر صحافی زخمی بھی ہوئے۔

اسرائیلی فوج کا کہنا ہے کہ اس نے حماس کے ایک عسکریت پسند کو نشانہ بنایا تھا۔ اسرائیلی فوج کا مزید کہنا ہے کہ وہ شہریوں کو نقصان پہنچانے سے بچنے کی کوشش کرتی ہے اور فلسطینی عسکریت پسند تنظیم حماس کو ان ہلاکتوں کا ذمہ دار ٹھہراتی ہے۔اسرائیلی فوج کا کہنا ہے کہ حماس شہریوں کو انسانی ڈھال کے طور پر بھی استعمال کرتی ہے، جبکہ حماس اس الزام کی تردید کرتی ہے۔اسرائیل نے غزہ پٹی کے وسطی شہر دیر البلاح میں الاقصی شہدا ہسپتال کے پاس بھی خیموں کو نشانہ بنایا ، ہسپتال کے مطابق اس حملے میں تین افراد زخمی ہوئے۔

ناصر ہسپتال کا کہنا ہے کہ اسے اتوار کو رات بھر اور پیر کی صبح تک اسرائیلی حملوں میں شہید ہونے والے مزید 15 افراد کی لاشیں ملی ہیں، جن میں چھ خواتین اور چار بچے بھی شامل ہیں۔الاقصی شہدا ہسپتال نے کہا ہے کہ دیر البلاح میں عام گھروں پر دو الگ الگ حملوں میں تین خواتین اور تین بچوں سمیت آٹھ افراد شہید ہوئے۔غزہ میں اٹھارہ ماہ سے جاری جنگ کے دوران ہزاروں افراد نے ہسپتالوں کے احاطوں میں لگائے گئے خیموں میں پناہ لے رکھی ہے، یہ خیال کرتے ہوئے کہ اس نوعیت کی جگہ پر اسرائیل کی جانب سے انہیں نشانہ بنانے کا امکان کم ہوگا۔

اسرائیل نے کئی مواقع پر ہسپتالوں پر حملے کیے اور حماس پر الزام لگایا کہ وہ انہیں فوجی مقاصد کے لیے استعمال کر رہی تھی جبکہ ان ہسپتالوں کا عملہ ان الزامات کی تردید کرتا ہے۔غزہ میں جاری جنگ اس وقت شروع ہوئی جب حماس کے زیر قیادت عسکریت پسندوں نے سات اکتوبر 2023 کو اسرائیل میں داخل ہو کر فوجی اڈوں اور کاشتکار برادریوں پر حملوں میں تقریبا 1,200 افراد کو ہلاک کر دیا تھا، جن میں سے زیادہ تر عام شہری تھے۔تب حماس کے جنگجووں نے 251 افراد کو یرغمال بھی بنا لیا تھا، جن میں سے اب بھی 59 یرغمالی حماس کے قبضے میں ہیں۔ ان میں سے 24 یرغمالیوں کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ وہ ابھی زندہ ہیں جبکہ باقی میں سے بیشتر کو جنگ بندی یا دیگر معاہدوں کے تحت رہا کر دیا گیا تھا۔اسرائیل نے اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ جب تک حماس باقی ماندہ یرغمالیوں کو رہا نہیں کرتی، اپنے ہتھیار نہیں ڈال دیتی اور یہ علاقہ چھوڑ نہیں دیتی، وہ اس عسکری تنظیم پر فوجی دباو میں اضافہ جاری رکھے گا۔

وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو کا کہنا ہے کہ اس کے بعد وہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی غزہ کی زیادہ تر آبادی کو دوسرے ممالک میں آباد کرنے کی تجویز پر عمل درآمد کریں گے، جسے اسرائیلی رہنما نے مستقبل میں فلسطینیوں کی ”رضاکارانہ ہجرت سے تعبیر کیا ہے۔فلسطینیوں کا کہنا ہے کہ وہ اپنا وطن چھوڑنا نہیں چاہتے اور انسانی حقوق کے ماہرین نے متنبہ کیا ہے کہ ٹرمپ کی تجویز پر عمل درآمد بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے بڑے پیمانے پر بے دخلی کے مترادف ہو گا۔نیتن یاہو سات اپریل بروز پیر واشنگٹن میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے ملاقات کریں گے۔ اس سے قبل  اتوار کو درجنوں مظاہرین یروشلم میں نیتن یاہو کی سرکاری رہائش گاہ کے باہر جمع ہوئے اور انہوں نے اسرائیلی یرغمالیوں کی رہائی کے لیے معاہدے کا مطالبہ کیا۔بہت سے لوگوں کو خدشہ ہے کہ نیتن یاہو کے لڑائی کو دوبارہ شروع کرنے کے فیصلے نے بقیہ یرغمالیوں کی زندگیوں کو شدید خطرے میں ڈال دیا ہے اور امید ہے کہ ٹرمپ ایک اور معاہدے میں مدد کر سکتے ہیں۔

اسرائیلی نژاد امریکی یرغمالی ایڈن الیگزینڈر کی دادی وردا بین باروچ نے نیتن یاہو کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ اب سچائی کا لمحہ آ گیا ہے۔ انہوں نے کہا، ”آپ امریکہ  میں ہیں اور آپ کو وہاں صدر ٹرمپ کے ساتھ بیٹھ کر ایک معاہدہ کرنا ہوگا تاکہ سب (یرغمالیوں) کو واپس گھر لایا جا سکے۔غزہ پٹی کی وزارت صحت کے مطابق سات اکتوبر 2023 سے جاری اسرائیلی فوجی کارروائیوں میں اب تک 50,000 سے زیادہ فلسطینی شہید ہو چکے ہیں، جن میں سے زیادہ تر خواتین اور بچے تھے۔ اسرائیل کوئی ثبوت فراہم کیے بغیر کہتا ہے کہ اس نے حماس کے 20,000 کے قریب عسکریت پسندوں کو مار ڈالا ہے۔ غزہ پر اسرائیلی حملوں نے غزہ کے علاقے کو مکمل تباہی سے دو چار کرنے کے علاوہ اس کی تقریبا 90 فیصد آبادی کو بے گھر بھی کر دیا ہے۔۔