سلگتا بلوچستان اور زحمی پاکستان…نعیم قاسم

________________________
بلوچستان کل پاکستان کے 43 فیصد رقبے پر قائم ہے اس لیے وہ آدھا پاکستان ہے پاکستان کو اس وقت بیک وقت خیبر پختون خواہ میں تحریک طالبان اور بلوچستان میں بلوچ لبریشن آرمی کی دہشتگردی کا سامنا ہے دونوں جنگجو تنظیموں کو ہندوستان اور افغانستان کی طرف سے بھرپور سپورٹ حاصل ہے جبکہ سیاسی بحران کی وجہ سے پنجاب اور کراچی میں بھی عوام موجودہ سیاسی بندوبست کو تسلیم نہیں کرتے ہیں اس لیے

بھی عوام دہشت گردی کی اس جنگ میں ریاست کے ساتھ مکمل طور پر ہم آہنگ نہیں ہیں کوئی بھی فوج اس وقت تک دشمن کے خلاف جنگ نہیں جیت سکتی ہے جب تک اسے عوام کی مکمل حمایت حاصل نہ ہو بدقسمتی سے پاکستان کی 62 فیصد نوجوان نسل موجودہ حکومت کو عوام کی حقیقی نمائندہ ہی تسلیم نہیں کرتی ہے تو کیسے وہ جعلی مینڈیٹ والی جہازی سائز کی مصنوعی اور نامانوس سفارشی کابینہ کے بیانیہ کو اہمیت دیں گے جو پاکستان میں ہر طرح کے سیاسی، معاشی اور دہشتگردی کی وجہ تحریک انصاف کو ٹھہرا تے ہیں اور قوم کو تقسیم در تقسیم کرنے کی پالیسی پر گامزن ہیں تاکہ ان کی نا اہلیوں پر پردہ پڑا رہے اور اسٹیبلشمنٹ کسی وسیع البنیاد سیاسی ایجنڈے پر عمران خان کو آن بورڈ نہ کر لے اس حکومتی عدم تحفظ کی وجہ سے ہماری سیکیورٹی فورسز کو دہشتگردوں کے خلاف لڑنے اور جان کی قربانیاں دینے پر پوری قوم کی طرف سے اس طرح حمایت حاصل نہیں ہو رہی ہے جیسی 1965 کی جنگ میں پوری قوم کی طرف سے تھی آج بلوچستان میں جو دہشتگردی ہے پنجابیوں اور سیکیورٹی فورسز کے جوانوں کو جس طرح شہید کیا جا رہا ہے اس کی کہیں مثال نہیں ملتی ہے پنجاب میں تمام صوبوں کے لوگ کام کاج کر رہے ہیں یہاں آباد ہیں مگر کوئی پنجابی ان کے ساتھ تعصب نہیں رکھتا ہے جعفر ایکسپریس ٹرین میں بچنے والی ایک پنجابی خاتون کی آہ و فغاں ہمارے اہل ارباب کے ساتھ ساتھ نفرتوں کے بیج بونے والے چند گمراہ بلوچوں کے منہ پر طمانچہ ہے “آئے روز مارنے سے اچھا ہے کہ تمام پنجابیوں کو ایک ہی بار بم سے اڑا دیں روز روز مرنے سے بہتر ہے کہ ہماری جان چھوٹ جائے ہم بچوں کے روزگار کے لیے گھروں سے نکلے ہیں مگر ہماری حفاظت کرنے والا کوئی نہیں ہے کہاں ہے وزیر اعلیٰ اور وزیر داخلہ”
جب پاکستان قائم ہوا تو بلوچستان کی سیاسی حیثیت باقی صوبوں سے مختلف تھی ایک ریاستی بلوچستان تھا اور دوسرا برٹش بلوچستان _برٹش بلوچستان پاکستان میں شامل ہو گیا جبکہ خان قلات نے آزادی کا اعلان کر دیا اور ایک ریاستی اسمبلی قائم کی جس نے قرارداد منظور کی کہ بلوچستان آزادی اور خودمختاری قائم رکھتے ہوئے پاکستان کے ساتھ دوستانہ تعلقات قائم کرے گا پاکستان کی حکومت نے اس پر شدید ردعمل کا مظاہرہ کیا پہلے خاران، مکران اور لسبیلہ کا پاکستان سے الحق کیا گیا اور پھر 27 مارچ 1948 کو خان قلات کو بھی مجبوراً پاکستان کے ساتھ الحاق کرنا پڑ گیا میر احمد یار خان کے چھوٹے بھائی شہزادہ عبدالکریم نے اس فیصلے کو تسلیم کرنے سے انکار کیا تو انہیں گرفتار کر کے دس سال کے لیے مچھ جیل بھیج دیا گیا 16 اکتوبر 1958 کو فوجی دستوں نے قلات پر حملہ کر دیا سردار نوروز اور ان کے ساتھیوں نے مسلح جدوجہد شروع کر دی اور پہاڑوں پر چلے گئے ان کو پاکستانی حکام نے دھوکے سے صلح کے بہانے بلا کر گرفتار کر لیا نواب نوروز کے دو جوان بیٹوں کو پھانسی دے دی گئی اور سردار نوروز جیل میں مر گیا جس سے بلوچ عوام میں وفاق کے خلاف شدید نفرت پھیل گئی رہتی کسر بھٹو نے پوری کر دی 1970 میں بلوچستان میں نیشنل عوامی پارٹی کی حکومت کو دس ماہ بعد ختم کر دیا اور وزیر اعلیٰ عطاء اللہ مینگل اور گورنر بلوچستان میر غوث بخش بزنجو سمیت تمام سرکردہ بلوچ رہنماؤں پر بغاوت کے مقدمے قائم کر کے حیدرآباد جیل میں قید کر دیا جہنیں بعد میں ضیاء الحق نے رہا کیا تو بلوچستان میں مسلح جدوجہد ختم ہو گئ مگر مشرف دور میں بلوچستان میں بی ایل اے نے دوبارہ سرکاری تنصیبات اور سیکیورٹی فورسز پر حملے شروع کر دیئے اس وقت بلوچ لبریشن آرمی کی قیادت بلاج مری کے پاس تھی جہنیں افغانستان میں ھلاک کر دیا گیا بعد میں 2006 میں اکبر بگتی کی ہلاکت نے بلوچستان میں حالات کو بہت زیادہ خراب کر دیا بی ایل اے کی قیادت استاد اسلم اور بشیر زیب کے پاس آگئی استاد اسلم نے مجید برگیڈ کو خود کش بمبار تیار کرنے کے لیے قائم کیا اور اس میں خواتین بمبارز کو بھی حملوں کے لیے تیار کیا 2022 میں شاری بلوچ نے کراچی یونیورسٹی میں خودکش حملے میں دو چینی پروفیسرز اور ایک پاکستانی ڈرائیور کو شہید کیا 2023 میں تربت میں سمعیہ نامی لڑکی نے ایف سی کی گاڑی کو نشانہ بنایا ماہل بلوچ نے بیلہ میں ایف سی کے کیمپ پر خود کش حملہ کیا بی ایل اے اب تک متعدد حملوں میں سینکڑوں بے گناہ شہریوں اور سیکورٹی فورسز کے جوانوں کو شہید کر چکی ہے اور نومبر میں کوئٹہ ریلوے اسٹیشن پر حملے سے 32 لوگ شہید ہوئے تھے اور اب پھر جعفر ایکسپریس میں مسافروں کو یرغمال بنا کر سینکڑوں نان بلوچوں اور سرکاری اہلکاروں کو شہید کیا گیا ہے بی ایل اے کو انڈیا اور افعانستان کی حکومتوں سے فنڈنگ، لاجسٹک، اسلحہ اور ٹریننگ ملنے کے واضح ثبوت ہیں کلبوشن کی گرفتاری اور تائب ہونے والے جنگجوؤں نے واضح طور پر بتایا ہے کہ پاکستان کے دشمن ممالک بی ایل اے کو سپورٹ کرتے ہیں بی ایل اے بڑے منظم انداز میں دہشت گردی کرتی ہے اس کے کئ ونگز ہیں مجید برگیڈ خود کش بمبارز کی ذہنی اور جسمانی تربیت کرتی فتح سکواڈ ٹارگٹ لوکیشن کے لیے راستہ ہموار کرتی ہے ضریاب ونگ انٹیلیجنس کا کام کرتا ہے جبکہ ٹیکٹیکل ونگ ہائی پروفائل شخصیت کو اغوا کرنے کا کام کرتا ہے اور اس کے علاوہ یہ تنظیم اپنے پیغام کو پھیلانے کے لیے سوشل میڈیا کا استعمال بھی انتہائی مہارت سے کر رہی ہے اگر چہ پاکستان سمیت امریکہ، چین اور یورپی یونین نے اس تنظیم کو دہشت گرد قرار دے کر بین کیا ہوا ہے مگر اسلم بلوچ کے ھلاک ہونے کے باوجود یہ تنظیم منظم انداز میں دہشت گردی کر رہی اب دہشتگردی کرکے مرنے یا فرار ہونے کی بجائے وہ طالبان کی طرح مختلف مقامات پر قبضہ کرنے یا بسوں اور ٹرینوں کے مسافروں کو یرغمال بنانے کا عملی مظاہرہ کر رہے ہیں بلوچستان کا رقبہ وسیع و عریض ہےاور ساتھ ایران اور افغانستان کی طویل سرحدیں ہیں جسکی وجہ سے قانون نافذ کرنے والے اداروں کے لیے ان کا مکمل قلع قمع مشکل دکھائی دے رہا ہے اس بات میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان کے دشمنوں سے کسی صورت میں سمجھوتہ کرنا ممکن نہیں مگر وہ عام بلوچ نوجوان جو بی ایل اے سیے ہمدردی رکھتے ہیں اور پاکستان سے بیگانگی روا رکھتے ہوئے احساس محرومی کا شکار ہیں ان کے ساتھ ریاست کو ہمدردی کرتے ہوئے ان کے مسائل کو حل کرنا چاہیے بلوچستان میں اسلام آباد سے نامزد وزیر اعلی اور جعلی مینڈیٹ والے وزراء میں اتنی اہلیت نہیں ہے کہ وہ عام بلوچوں کو یہ یقین دلا سکیں کہ ریاست ان کے لیے ماں جیسی ہے عام بلوچ یہ سمجھتا ہے کہ وفاق کو صرف اور صرف بلوچستان کے معدنی وسائل سے دلچسپی ہے جبکہ وہاں کے قدرتی وسائل سے بلوچستان کے عوام کو فائدہ نہیں پہنچایا جا رہا ہے ایسی ہی سوچ بنگالیوں کی بھی تھی اہل اقتدار اور دوسرے صوبوں کے عوام کی اس جنگ میں غریب پنجابی خوامخواہ مارا جا رہا ہے نامور پنچابی دانشور پروفیسر سعید احمد کا کہنا ہے کہ پنجاب کے دیہاتوں میں اسی طرح غربت نے ڈھیرے ڈالے ہوئے ہیں جسطرح دوسرے صوبوں کے دیہاتی علاقوں میں ہے پاکستان بننے پر بھی پنجابیوں کا خون بہا اور ان کی خواتین کی آبرو ریزی کی گئی تو اب شناختی کارڈ دیکھ کر پنجابی مزدوروں اور کسانوں کا اس لیے قتل عام کیا جا رہا ہے کہ وہ ان کے لیے اناج پیدا کرتے ہیں ان کے لیے عمارتیں تعمیر کرتے ہیں اگر پنجابیوں نے اسٹیبلشمنٹ کا ساتھ دیا ہے تو آپ کے سرداروں، وڈیروں اور خانوں نے بھی انگریزوں کی غلامی سے لے کر ہمیشہ حکمرانوں کا ساتھ دیا ہے “پروفیسر سعید صاحب کی بات بالکل درست ہے کہ بلوچستان کے سردار ہوں، خیبر پختون خواہ کے خان ہوں، سندھ کے وڈیرے ہوں ان کے جبر و استبداد نے ہی وہاں کے عوام کو پسماندہ رکھا ہوا ہے فیوڈل ازم اور پیر پرستی نے عوام کو جہالت کے اس سمندر میں ڈبو دیا ہے کہ وہ جس مسیحا سے علاج دل بیمار کرانا چاہتے ہیں وہ تو ان کے قاتل ہیں اگر سنٹرل پنجاب میں پنجابیوں کو کسی حد تک معاشی خوشحالی حاصل ہوئی ہے تو اس کی وجہ فیوڈل ازم سے آزادی ہے برداری ازم ضرور ہے مگر لوگ جاگیرداروں اور حکمرانوں کے غلام نہیں ہیں