یہ ’تراویح‘ کا لفظ کہاں سے آگیا؟…تحریر احمد حاطب صدیقی (ابونثر)

گلستانِ جوہرکراچی کی سعد آباد سوسائٹی سے سلمان بیگ صاحب کا سوال بالواسطہ موصول ہوا ہے:
”قرآن و حدیث میں تہجد اور قیام اللیل کا ذکر ہے، یہ ’تراویح‘ کا لفظ کہاں سے آگیا؟“
سوال سُن کر خوشی ہوئی۔ ہم بھی ہر لفظ کے پیچھے پیچھے اسی دُھن میں بھاگے پھرتے ہیں کہ دیکھیں تو سہی، ہمارے دیاروں میں یہ لفظ کہاں سے در آیا؟ بس اسی غرض سے اِن کالموں میں ہم الفاظ کا پیچھا کرتے ہیں۔ لیکن اکثر ایسا ہوتا ہے کہ ہمیں پیچھا کرتے پا کر الفاظ ہم سے آگے آگے اورخوب تیز تیز بھاگ لیتے ہیں۔ہم ہاتھ ملتے رہ جاتے ہیں۔ کچھ ہاتھ نہیں آتا، جز آہِ سحرگاہی۔
فقہی اور مسلکی معاملات مفتیانِ کرام جانیں۔ ہم تو اتنا جانے ہیں کہ حافظ ابن حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ نے لکھا ہے کہ ’تراویح‘ جمع ہے ’ترویحہ‘ کی۔’ترویحہ‘ کے معنی یوں تو مطلقاً بیٹھنے کے ہیں، مگر بعد میں اس لفظ کے اصطلاحی معنی تراویح کی چار رکعتوں کے بعد تازہ دم ہونے کی غرض سے بیٹھنے کے ہو گئے۔’ترویحہ‘ کا مطلب ’ایک دفعہ آرام کرنا‘ بھی لیا گیا ہے،بالکل اُسی طرح جیسے ’تسلیمہ‘ کا مطلب ’ایک دفعہ سلام پھیرنا‘لیا جاتا ہے۔ مثلاًتراویح کی تکمیل پردو رکعتوں کے بجائے وتر کی تین رکعتوں کے بعد ’تسلیمہ‘ کیا جاتا ہے۔
پر، یہاں تو سوال یہ ہے کہ رمضان مین عشا کی نماز کے بعد پڑھی جانے والی نماز کو ’تراویح‘ کیوں کہاگیا؟ تو صاحب! وجہِ تسمیہ ’تراویح‘ کی یہ بتائی گئی ہے کہ صحابۂ کرامؓ، رمضان المبارک میں جب جماعت کے اہتمام کے ساتھ قیام اللیل کرتے تھے تو ہر دو سلام (یعنی چار رکعتوں) کے بعد ’ترویحہ‘ فرماتے تھے۔مطلب یہ کہ کچھ دیر آرام کرنے کے لیے نماز میں وقفہ کرتے۔ یوں یہ نماز ’وقفوں والی نماز‘ یعنی نمازِ ’تراویح‘ کہی جانے لگی۔تراویح کی آٹھ رکعتیں، بیس رکعتیں، حتیٰ کہ چھتیس رکعتیں بھی پڑھی گئی ہیں۔ان پر وتر کی تین رکعتیں مزید۔
آج بھی ماہِ رمضان میں پورے عالمِ اسلام میں ’تراویح‘ بڑی دھوم دھام سے ادا کی جاتی ہے۔ہر مسجد میں حفاظِ قرآن مہینے بھر میں پورے قرآنِ مجید کی تلاوت مکمل کرتے ہیں۔یوں ’تراویح‘ میں پابندی سے شرکت کرنے والے تمام مسلمان سورۂ فاتحہ سے سورۃالناس تک پورا قرآن مجید ایک بار کم از کم سن تو لیتے ہیں۔بعض مساجد میں ایک اہتمام اوربھی ہوتا ہے، وہ یہ کہ ’آج کی تراویح‘ میں پڑھی جانے والی قرآنی سورتوں کا ترجمہ اور تشریح بیان کی جاتی ہے۔ایسی مساجد کی تراویح میں شریک ہونے والے نمازی، تراویح کی برکت سے قرآنِ پاک کے پیغام سے بھی کسی قدر آشنا ہو جاتے ہیں۔ صاحبو!رمضان وہ ماہِ مبارک ہے جس میں جاپان سے کینیڈا تک قومِ رسولِ ہاشمیؐ ایک ہی رنگ میں رنگی نظر آتی ہے۔ایک مخصوص وقت بیدار ہونا اور سحری کھانا۔ایک مخصوص وقت جمع ہو کر افطار کرنا۔نمازِ عشا کے بعد اہتمام سے تراویح پڑھنا۔ اور سب سے اہم بات یہ کہ اس ماہِ مقدس میں امت مسلمہ کے افراد اور ادارے جتنی بڑی مقدار میں دنیا بھر میں دولت کو گردش میں لاتے ہیں اُس کی مثال دنیا کی کسی دوسری قوم کے ہاں نہیں ملے گی۔اُمت کی صرف خامیوں اور خرابیوں کو کھوجتے پھرنے والی نگاہیں اگر شہد کی مکھی کی طرح پھولوں کی تلاش میں نکلیں تو اُن کی آنکھیں یہ دیکھ کر کھلی کی کھلی رہ جائیں کہ کیا کیا مچی ہیں یارو ’رمضان‘ کی بہاریں۔
تراویح کے بعد مسلم محلّوں کی مساجد کے ارد گرد بڑی رونق رہتی ہے۔بالخصوص جن مساجدکی ’تراویح‘ میں خواتین کی شرکت کا خاص اہتمام ہوتا ہے،اُن کے باہر عورتوں اوربچوں کا ہجوم کسی تقریب کاساسماں بنا دیتا ہے، گلیوں اور راستوں میں چہل پہل ہو جاتی ہے۔
لفظ ’تراویح‘ ہے تو اسمِ جمع، لیکن اُردو میں یہ لفظ بطورِ واحد ہی استعمال کیا جاتا ہے مثلاً تراویح شروع ہوگئی، تراویح ہو رہی ہے یا تراویح ختم ہوگئی۔دلی کے کرخنداروں کے ہاں تراویح کی بھی جمع استعمال ہوتے دیکھی اور سُنی۔ کوئی ’تراوِیاں‘ کہتا ہے اور کوئی ’ترابِیاں‘۔
لفظ ’ترویحہ‘ ہمارے لیے اجنبی سہی، مگر اس لفظ کے خاندان کے بہت سے الفاظ سے ہم مانوس ہیں، کیوں کہ ہمارے ہاں بکثرت بولے جاتے ہیں۔ اجنبی ہو جانے والے الفاظ میں سے ایک لفظ ’راح‘ بھی ہے، جس کے معنی خوشی اور نشاط کے ہیں۔ میرانیسؔ مرحوم نے پسر یعنی اولادِ نرینہ کو بھی ’راح‘ قررا دیا ہے۔ انیسؔ اپنی ایک مسدس کے پہلے بند میں کہتے ہیں:
لذت کوئی پاکیزہ ثمر سے نہیں بہتر
نکہت کوئی بوئے گُلِ تر سے نہیں بہتر
راحت کوئی آرامِ جگر سے نہیں بہتر
نعمت کوئی دنیا میں پسر سے نہیں بہتر
صدموں میں علاجِ دلِ مجروح یہی ہے
ریحاں ہے یہی، راح یہی، روح یہی ہے
’راح‘ بھی اسمِ جمع ہے۔اس کا واحد ’راحۃ‘ ہے۔ اُردو میں ’راحت‘ لکھا جاتا ہے۔اس کے معنی ہیں آرام و آسائش، خوش ہونا یا ہشاش بشاش ہو جانا۔مگر اُردوکے شعرائے کرام راحت کی جمع کے طور پر’راح‘ کی جگہ ’راحتیں‘ استعمال کرتے دیکھے گئے ہیں۔فیضؔ کی ایک مشہور نظم ہے”مجھ سے پہلی سی محبت مری محبوب نہ مانگ“۔ اس نظم میں وہ اپنی محبوبہ کو ترکِ محبت کی اطلاع اس طرح دیتے ہیں جیسے کوئی شخٰص اپنے کسی حاسد دوست کو اپنی ملازمت میں تبادلے کی اطلاع دیتا ہے، بالخصوص اُس تبادلے کی جو ترقی کے ساتھ ہوا ہو۔ چناں چہ فیضؔ اپنی محبوبہ کو خوشی خوشی مطلع کرتے ہیں کہ ”راحتیں اور بھی ہیں وصل کی راحت کے سوا“۔
راحت ہی کے قبیلے کا ایک لفظ ہے ’استراحت‘۔ اُردو میں خوب مستعمل ہے۔اس کا مطلب ہے آرام کرنا، تازہ دم ہونایاکہیں آسائش کے ساتھ قیام کرنا وغیرہ۔اختر علی اخترؔجب عشق و عاشقی سے تھک گئے تو تھک کر برسوں سروْ کے پیڑ تلے لیٹے رہے۔ وہیں لیٹے لیٹے دم دے بیٹھے۔ البتہ دم دیتے ہوئے یہ کارِ خیر کرتے گئے کہ لواحقین کو اپنے دم دے بیٹھنے کا سبب بتاتے گئے ورنہ وہ تجسس میں مر جاتے:
عاشقِ شیدا کا دم نکلا ہے قد کی یاد میں
استراحت کی ہے برسوں سایۂ شمشاد میں
ہمارے ہاں شمشاد مردوں کا نام بھی ہوتا ہے اور خواتین کا بھی۔شمشاد نامی بعض خواتین و حضرات کا قد دیکھ کر خیال آتا ہے کہ ان جیسے کوئی بیس شمشاداگر اوپر تلے رکھ دیے جائیں تب جا کر سروْ کے کسی کم سِن درخت کے برابر ہو پائیں گے۔اور تب شاید یہ ممکن ہو سکے کہ ’عاشقِ شیدا‘ صاحب ان کے سائے میں استراحت فرمائیں۔
رمضان کی راتوں میں تراویح کے بعد دیر تک سر پر سوار رہنے والا شاگرد بھی جاتے جاتے اکثر یہ احسان دھر جاتا ہے کہ
”حضرت! مجھے اجازت دیجے اور اب آپ بھی اب استراحت فرما لیجے“۔
لغات میں لفظ ’ترویح‘ بھی ملتا ہے، جس کے لغوی معنی سانس لینے یا ہوا دینے کے ہیں۔’ریح‘ ہوا کو کہتے ہیں، اس کی جمع ریاح ہے۔ مگر اردو والوں کی ہر بات نرالی ہے۔ وہ ریاح بھی بطور واحد نکالتے ہیں۔خوش گوار اور خوشبودار ہوا ’ریحان‘ ہے، ایک خوشبودار پودا (تلسی) بھی ’ریحان‘ کہلاتا ہے۔ خوشبو دینے والی شے یا گُل دستے کو ’ریحانہ‘ کہتے ہیں۔ مگر جاتے جاتے ذرا سرفراز شاہد ؔ صاحب کی بھی سنتے جائیے کہ وہ ’ریحانہ‘ کے متعلق کیا بتاتے ہیں۔چوک پر کھڑے ہو کر ایک سمت اشارہ کرتے ہوئے کہتے ہیں:
یہی کالج ہے وہ ہمدم جہاں ریحانہ پڑھتی تھی
وہ لڑکی تھی، مگر مضمون سب مردانہ پڑھتی تھی
 ☺