کوالالمپور(صباح نیوز)سینٹر فار پاکستان اینڈ گلف اسٹڈیز (سی پی جی ایس) کی سرپرست اعلی و رکن قومی اسمبلی سحر کامران نے کہا ہیکہ پاکستان اور روس کے درمیان سفارتی، سیاسی، اقتصادی، تجارتی اور عسکری تعاون بڑھ رہا ہے اور روس افغانستان میں استحکام لانے کے لیے تعمیری کوششیں بھی کر رہا ہے۔
ان خیالات کا اظہار انہوں نے رواں ہفتے اسٹریٹجک وژن گروپ روس ۔ اسلامی دنیا (جی ایس وی) کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کیا جس کا موضوع ابھرتی ہوئی کثیر قطبیت کے دور میں روس اور اسلامی دنیا کے درمیان تعامل تھا۔اجلاس میں گروپ کے ارکان سمیت تقریبا 200 افراد نے شرکت کی جن میں برکس ممالک کی مسلم برادریوں کے رہنما، ایشیا بحرالکاہل خطے (اے پی آر) اور صنعت کے مختلف ماہرین شامل تھے۔
اجلاس کے ایجنڈے میں برکس سربراہ اجلاس جو اکتوبر میں کازان میں منعقدہ ہوا کے نتائج کا خلاصہ، معیشت، اسلامی بینکاری اور سلامتی میں تعاون کو فروغ دینے کے ساتھ ساتھ سیاسی، تجارت، ثقافتی اور انسانیت اور روحانی اور اخلاقی میدان اور معاشیات میں مشترکہ کام کے امکانات شامل تھے۔سحر کامران نے کہا کہ عالمی سیاسی ڈھانچہ زلزلوں سے گزر رہا ہے جس سے قوموں، ریاستوں اور تہذیبوں کو پیچیدہ چیلنجز درپیش ہیں۔ جغرافیائی سیاسی ماحول میں، سیاسی اور معاشی دونوں میدانوں میں خدشات پیدا ہوتے ہیں، اگر ہمیں قابل عمل حل نہیں ملے تو ان بنیادی تنا میں اضافے کا کافی خدشہ ہے۔یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ موجودہ بین الاقوامی یونی پولر ڈھانچے کا دور ختم ہو چکا ہے اور ہمیں خودمختاری، انصاف، مساوات اور سب سے بڑھ کر انسانیت کے باہمی احترام پر مبنی ایک نیا سیاسی ڈھانچہ تشکیل دینے کی ہر ممکن کوشش کرنی چاہیے۔عالمی سیاسی ڈھانچے میں ٹوٹ پھوٹ عالمی اقتصادی اور تجارتی منظرنامے پر زیادہ دبا ڈال رہی ہے۔ چین، روس اور برازیل جیسی ابھرتی ہوئی اقتصادی طاقتوں کی جانب سے روایتی مغربی غلبے کو چیلنج کرتے ہوئے تجارتی طریقوں کو نئی شکل دینے کے ساتھ بین الاقوامی تجارت میں گہری تبدیلی آ رہی ہے۔
سحر کامران نے کہا کہ یک قطبی فریم ورک سے کثیر قطبی فریم ورک کی طرف منتقلی تجارتی تعلقات میں ایک اہم ارتقا کی نشاندہی کرتی ہے، شنگھائی تعاون تنظیم (ایس سی او)، برکس اور علاقائی جامع اقتصادی شراکت داری (آر سی ای پی) جیسے نئے اتحاد ابھرتے ہوئے ممالک کے درمیان تعاون کو فروغ دے رہے ہیں اور عالمی تجارتی قوانین پر ان کے اثر و رسوخ میں اضافہ کر رہے ہیں۔تاہم، انہوں نے کہا کہ یہ بڑی منتقلی خطرات سے خالی نہیں ہے۔انہوں نے کہا کہ جغرافیائی سیاسی دبا، بڑھتے ہوئے تحفظ پسندی اور معاشی تقسیم کے چیلنجز عالمی تجارت کے استحکام کے بارے میں خدشات کو جنم دیتے ہیں، جس سے کثیر الجہتی تجارتی پالیسیوں کو کافی خطرہ لاحق ہے۔انہوں نے کہا کہ عالمی سیاسی اور اقتصادی ڈھانچے اسٹیٹس کو کی حامی طاقتوں اور اسٹیٹس کو مخالف طاقتوں کے مابین جغرافیائی اور تذویراتی مسابقت کی وجہ سے شدید دبا کا شکار ہیں۔
انہوں نے کہا کہ مجھے یقین ہے کہ یہ روسی فیڈریشن اور اسلامی دنیا دونوں کے لئے اپنے مکالمے اور تعاون کو بڑھانے کا ایک منفرد موقع فراہم کرتا ہے، جس میں تعلقات کے تمام پہلوں کا احاطہ کرنا چاہئے۔ باہمی احترام، مساوات اور ہر تہذیب کی ثقافتی حساسیت کی تفہیم پر تعاون کا نیا نمونہ قائم کیا جانا چاہئے۔یہ بات بہت حوصلہ افزا ہے کہ حالیہ دنوں میں ہم نے روسی فیڈریشن کی قیادت اور اسلامی دنیا کی قیادت کے درمیان گرمجوشی دیکھی ہے۔ حالیہ سولہویں سالانہ برکس سربراہ اجلاس (22-24 اکتوبر، 2024) اس رفتار کی نشاندہی کرتا ہے، کیونکہ تین مسلم ممالک مصر ، ایران اور متحدہ عرب امارات (یو اے ای) نے برکس کے رکن ممالک کی حیثیت سے شمولیت اختیار کی ہے۔مزید برآں شنگھائی تعاون تنظیم (ایس سی او) کے سربراہ مملکت کا حالیہ سربراہ اجلاس (15 تا 16 اکتوبر 2024) پاکستان کی میزبانی میں منعقد ہوا جو اس خصوصی تعلقات کے لیے مثبت سمت کی عکاسی کرتا ہے۔
مزید برآں، 2023 میں، روسی فیڈریشن اور او آئی سی ممالک کے درمیان تجارت میں 30 فیصد اضافہ ہوا، جو بڑھتے ہوئے اقتصادی تعلقات اور تعاون کے باہمی فوائد کو ظاہر کرتا ہے۔انہوں نے کہا کہ روس اور اسلامی دنیا کے درمیان سیاسی اور اقتصادی روابط کو گہرا کرنے کے علاوہ، ہمیں دونوں تہذیبوں کے درمیان مضبوط عوامی روابط کے ساتھ ساتھ بین المذاہب اور بین النسل تعلقات قائم کرنے کی کوشش کرنی چاہئے، اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) کی مجموعی آبادی تقریبا دو ارب ہے اور مجموعی جی ڈی پی تقریبا 27.949 ٹریلین امریکی ڈالر ہے۔روس میں تقریبا 26 ملین مسلمان شہری رہتے ہیں جو ملک کی آبادی کا تقریبا 15 فیصد ہیں۔ سال 2003 میں روسی صدر ولادیمیر پیوٹن کو او آئی سی سربراہ اجلاس سے خطاب کے لیے مدعو کیا گیا تھا اور وہ کسی غیر اکثریتی مسلم ملک کے پہلے سربراہ مملکت تھے جنہوں نے کونسل سے خطاب کیا ۔
انہوں نے کہا کہ اس وقت روس اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) میں مبصر کی حیثیت رکھتا ہے جو مسلم اکثریتی ممالک کے ساتھ تعمیری تعلقات کو فروغ دینے کے عزم کو اجاگر کرتا ہے اور وسیع تر اسلامی دنیا کے ساتھ تعلقات کو مضبوط بنانے میں اس کے تذویراتی مفادات کو اجاگر کرتا ہے۔انہوں نے توانائی کی شراکت داری، تجارتی تعلقات اور انسداد دہشت گردی کے مشترکہ اقدامات سمیت مختلف شعبوں میں تعاون کے امکانات کو تسلیم کرنے کی ضرورت پر زور دیا جو سلامتی اور علاقائی استحکام میں ہمارے مشترکہ مفادات کی عکاسی کرتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ روسی بینکوں کی جانب سے اسلامی فنانس کی تلاش ایک اور امید افزا راستہ ہے جو روسی سرمایہ کاروں اور اسلامی مالیاتی اداروں دونوں کے لئے مواقع فراہم کرتا ہے۔انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ عالمی سیاسی سوچ میں کثیر قطبی عالمی نظام کی طرف منتقلی پہلے ہی جاری ہے اور وہ دن دور نہیں جب موجودہ ڈھانچہ ماضی کی چیز بن جائے گا۔تاہم، مستقبل کے بین الاقوامی سیاسی نظام کو تشکیل دینے کے لئے، ہمیں تعاون اور کثیر الجہتی فریم ورک کے لئے جدید نقطہ نظر کی ضرورت ہے جو کثیر قطبی دنیا کے متنوع مفادات کو ایڈجسٹ کریں۔ مزید برآں، ایک شفاف اور منصفانہ کثیر قطبی عالمی نظام کی تشکیل کے لئے مشترکہ ہم آہنگی اور فیصلہ سازی کے لئے متوازن نقطہ نظر کی ضرورت ہے۔
انہوں نے فلسطین پر اسرائیل کے غیر قانونی قبضے اور غزہ میں انسانی بحران کی مذمت کی۔اکتوبر 2023 سے اب تک غزہ میں 44 ہزار سے زائد افراد شہید ہو چکے ہیں جن میں خواتین اور بچے بھی شامل ہیں۔ ایک لاکھ سے زائد زخمی مزندگی اور موت کی کشمکش میں ہیں کیونکہ وہ طبی سہولیات اور بنیادی صحت کی فراہمی سے محروم ہیں۔ یہ صورت حال فوری توجہ اور کارروائی کی متقاضی ہے۔ اس کے علاوہ لبنان، یمن اور شام کے حالات بھی یکساں طور پر تشویش ناک ہیں۔امن اور استحکام ہی واحد قابل عمل آپشن ہے اور ہمارا اتحاد ہی آگے بڑھنے کا راستہ ہے۔انہوں نے کہا کہ مجھے امید ہے کہ اس طرح کے فورمز ہمیں ان مشکل چیلنجوں سے نمٹنے اور لچکدار حل پیش کرنے کے قابل بنائیں گے۔
سحر کامران نے تاتارستان کے رئیسوں اور ملائیشیا کی حکومت کی مہمان نوازی اور اہم مسائل اور چیلنجز پر غور و خوض کا موقع فراہم کرنے پر ان کا شکریہ ادا کیا۔انہوں نے روس اسلامک ورلڈ اسٹریٹجک وژن گروپ اور چیئرمین رئیس آف تاتارستان رستم منیخانوف کو اس اہم موضوع پر بروقت اجلاس منعقد کرنے پر خراج تحسین پیش کیا۔انہوں نے امید ظاہر کی کہ اس اجلاس کی کارروائی اور اس کے نتائج روس اور اسلامی دنیا کے لئے ایک متبادل مشترکہ نقطہ نظر فراہم کریں گے جس میں سلامتی اور امن، توانائی، ٹیکنالوجی اور سرمایہ کاری شامل ہے