اسلام آباد(صباح نیوز)چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس یحییٰ خان آفریدی نے کہا ہے کہ ایک ہی معاملے پر سپریم کورٹ کے دو، بینچوں کے متضاد فیصلے آرہے ہیں جو کہ درست نہیں،ہم چاہتے ہیں کہ کسی بھی معاملہ پر ایک ہی بینچ فیصلہ کرے۔ اگر کوئی فریق حقائق چھپائے گاتواس کافائدہ مخالف کوہوتا ہے۔عدالت نے بچے والدہ کودینے کاحکم دیا اور والد نے بچے والدہ سے چھین لیئے، والدایسا نہیں کرسکتا۔ عورت کے پاس چیک کیسے چلا گیا، کدھر عورت چیک چوری کرے گی۔ ہرفوجداری کیس کے اپنے حقائق ہوتے ہیں۔جبکہ جسٹس ملک شہزاد احمد خان نے ریمارکس دیئے ہیں کہ ایک دفعہ ایک بندہ ریکارڈ میں آگیا توپھر سارے گمنام کیس اُس پر ڈال دیئے جاتے ہیں۔
چیف جسٹس نے آئی بی افسر کے خلاف ماضی سے دوبارہ انکوائری کامعاملہ سماعت کے لئے جسٹس محمد علی مظہر کی سربراہی میں قائم سروس بینچ کوکراچی بھجوادیا۔جبکہ عدالت نے خاتون کوقتل کرنے والے ملزم محمد ندیم کی درخواست ضمانت بعد ازگرفتاری ناقابل سماعت قراردیتے ہوئے خارج کردی۔جبکہ بینچ نے منشیات برآمدگی کیس میں دوملزمان کی درخواست ضمانت بعد ازگرفتاری خارج کردی۔ جبکہ عدالت نے پیکاقانون کے تحت گرفتار ملزم کی درخواست ضمانت بعد ازگرفتاری واپس لینے کی بنیاد پر خارج کردی۔ جبکہ عدالت نے 5،5لاکھ روپے کے چیک بائونس ہونے کے دومقدمات میں درخواست گزاروں کورقم اداکرنے کاحکم دے دیا۔
جبکہ بینچ نے مبینہ طور پر 26لاکھ روپے کی کمیٹی کھاجانے والے ملز م کی درخواست ضمانت قبل ازگرفتاری منظور کرلی۔چیف جسٹس یحییٰ آفریدی کی سربراہی میں جسٹس ملک شہزاداحمد خان پر مشتمل 2رکنی بینچ نے سوموار کے روز فائنل اور سپلیمنٹری کاز لسٹ میں شامل 51کیسز کی سماعت کی۔ بینچ نے آئی بی افسر شاہد حسین مہیسرکی جانب سے ماضی سے دوبارہ انکوائری کروانے کے معاملہ کوچیلنج کرنے کے فورم کے سوال اور دوبارہ انکوائری اورچارج شیٹ کو چیلنج کرنے کے معاملہ پر دائر 2درخواستوں پر سماعت کی۔ درخواست میں وزیر اعظم آفس اوردیگر کے توسط سے وفاق پاکستان کو فریق بنایا گیا تھا۔ درخواست گزار کی جانب سے شاہد انورباجوہ بطور وکیل پیش ہوئے جبکہ وفاقی حکومت کی جانب سے ایڈیشنل اٹارنی جنرل چوہدری عامر رحمان پیش ہوئے۔
چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ کوئی ترقیوں کے حوالہ سے ڈیپارٹمنٹل پروموشن کمیٹی( ڈی پی سی)کی میٹنگ ہورہی ہے کہ نہیں۔ اس پر وکیل شاہد انورباجوہ کاکہنا تھا کہ 24،25اور26دسمبر کوہورہی ہے۔ چوہدری عامررحمان کاکہنا تھا کہ وزیر اعظم متعلقہ اتھارٹی تھا اور اس کیس میں ماضی سے دوبارہ انکوائری ہوگئی ہے اوروزیر اعظم نے سفارشات پر معمولی سزا بھی دے دی ہے جس کے خلاف درخواست گزار کی صدر مملکت کے پاس اپیل زیرالتواہے۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ جسٹس محمدعلی مظہر کی سربراہی میں بینچ سروس معاملات سن رہا ہے وہ اس وقت کراچی میں کیسز کی سماعت کررہے ہیں ہم معاملہ کراچی بھجوادیتے ہیں۔ شاہد انورباجوہ کاکہنا تھا کہ انہیں کراچی کیس بھجوانے پر کوئی اعتراض نہیں، کیس کی سماعت 23دسمبر سے قبل مقررکروادیں۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ جمعہ کوکراچی میں سماعت کے لئے مقررکروادیں۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ کیا 2رکنی بینچ یہ کیس سن سکتا ہے۔
اس پر شاہد انور باجوہ کاکہنا تھا کہ سن سکتا ہے۔چوہدری عامررحمان کاکہنا تھا کہ دوبارہ انکوائری ہوچکی ہے سزابھی ہوچکی ہے اوراس کے خلاف اپیل زیرالتواہے۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ جمعرات کو ڈی پی سی ہورہی ہے۔ چوہدر ی عامررحمان کاکہنا تھا کہ درخواست گزار کاکیس 26دسمبر کو زیر غورلایا جائے گا۔ چیف جسٹس نے ہدایت کی کہ کیس 23دسمبر کو جسٹس محمد علی مظہر کی سربراہی میں جسٹس سید حسن اظہررضوی پر مشتمل 2رکنی بینچ کے سامنے 23دسمبر کوسماعت کے لئے مقررکیا جائے۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے یقین دہانی کروائی ہے کہ درخواست گزار کاکسی بھی طریقہ سے تعصب کاشکارنہیں ہوگا۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ بینچ کو کیس سننے دیں۔ عدالت نے معاملہ سماعت کے لئے جسٹس محمد علی مظہر کی سربراہی میں کراچی میں کیسز کی سماعت کرنے والے بینچ کوبھجوادیا۔
جبکہ بینچ نے خرام شہزاداور حافظ محمد عمران کی جانب سے رقم کی خردبرد کے معاملہ پر دائرضمانت قبل ازگرفتاری کی درخواستوں پر سماعت کی۔ چیف جسٹس کادرخواست گزارکے وکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ اس بات کی وضاحت کریں کہ آپ کے ذاتی اکائونٹ میں کیسے رقم گی۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ یہ بعدازگرفتاری والا کیس ہے۔چیف جسٹس کادرخواست گزارکے وکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ آپ کے اکائونٹ میں کیوں کوئی 27لاکھ روپے جمع کروائے گااس میں کیا بدنیتی ہے۔ چیف جسٹس کادرخواست گزارکے وکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ آپ کے اکائونٹ میں پیسے گئے اس حوالہ سے تیاری کرکے آئیں۔
عدالت نے ایک، ایک لاکھ روپے کے مچلکوں کے عوض درخواست گزاروں کی عبوری ضمانت منظور کرتے ہوئے مزید سماعت ملتوی کردی۔جبکہ بینچ نے علی لطیف کی جانب سے دائر درخواست ضمانت قبل ازگرفتاری پر سماعت کی۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ کوئی شناخت پریڈہوئی ہے۔ اس پر ایڈیشنل پراسیکیوٹر جنرل پنجاب مرزاعابدمجید کاکہنا تھا کہ تین ملزمان ڈکیٹی کے لئے موٹر سائکل پرسوارہوکرآئے جن میں شاہنوازاورمناگرفتارہوچکے اوران سے برآمدگی بھی ہوئی ہے، درخواست گذار کاسابقہ ریکارڈ بھی اوراس پر 8دیگر مقدمات بھی درج ہیں۔ اس پر جسٹس ملک شہزاد احمد خان کاکہنا تھا کہ ایک دفعہ ایک بندہ ریکارڈ میں آگیا توپھر سارے گمنام کیس اُس پر ڈال دیئے جاتے ہیں۔ عدالت نے درخواست ضمانت منظورکرلی۔ بینچ نے جعلی چیک دینے کے معاملہ پر عمران شریف کی جانب سے دائر درخواست ضمانت قبل ازگرفتاری پرسماعت کی۔ جسٹس ملک شہزاداحمد خان نے درخواست گزار کوہدایت کی کہ 5لاکھ روپے کامعاملہ ہے پیسے دے کرکیس ختم کریں۔
عدالت نے درخواست خارج کردی۔ جبکہ بینچ نے جمیل لطیف کی جانب سے ریاست پاکستان کے خلاف دائر درخواست ضمانت قبل ازگرفتاری پر سماعت کی۔ جسٹس ملک شہزاد احمد خان کاکہنا تھا کہ وکیل خاتون نے اپنے بھائی کے خلاف دارخواست دائر کی ہے۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ گھر جائیں اور بیٹھ کر معاملہ حل کریں۔ جسٹس ملک شہزاداحمد خان کاخاتون وکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ آپ کے بھائی نے آپ کے ساتھ فراڈ کیا اوردرخواست گزارکاکوئی قصورنہیں۔چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ اس کیس کوہم بعد میں سنیں گے۔کیس کی دوبارہ سماعت شروع ہوئی توچیف جسٹس نے خاتون وکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ ابھی آئیں کیا فرماتی ہیں۔ جسٹس ملک شہزاداحمد خان کاکہنا تھا کہ بھائی کی ضمانت منظورہوچکی ہے، خاتون نے درخواست گزار کوگاڑی بیچی ، بھائی کے خلاف کیس چلاتی رہیں۔ چیف جسٹس کاخاتون وکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہناتھا کہ ہم نے کیس سن لیا ہے حکم کاانتظا رکریں۔
بعد ازاں عدالت نے درخواست خارج کردی۔ جبکہ بینچ نے افتخارعلی عرف افتخار خان کی درخواست ضمانت قبل ازگرفتاری کے حوالہ سے دائر درخواست پر سماعت کی۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ 2022سے درخواست گزار ضمانت قبل ازگرفتاری پر ہے جو کہ درست نہیں، اس چیز کی وضاحت کرنا ہوگی۔ چیف جسٹس کاحکم لکھواتے ہوئے کہناتھا کہ درخواست گذارکے خلاف موادموجود ہے۔ عدالت نے درخواست ضمانت قبل ازگرفتاری خارج کردی۔ جبکہ بینچ نے قتل کیس میں گرفتاری ملزم محمد ندیم کی درخواست ضمانت بعد ازگرفتاری پر سماعت کی۔ درخواست گزار کے وکیل انصر نواز مرزا کاکہنا تھا کہ درخواست گزار19جون2022کو گرفتارہواتھا، درخواست گزار پر مقتول کو گولی مارنے کاالزام ہے۔ ایڈیشنل پراسیکیوٹر جنرل مرزاعبادہ مجید کاکہنا تھا کہ قتل کاچشم دید گواہ ایک بچہ عمر فاروق ہے اس کے سامنے قتل ہوا۔
مرزاعابد مجید کاکہنا تھا کہ خاتون کے ساتھ درخواست گزارکاڈی این اے بھی میچ کرگیا تھا۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ ہم ٹرائل جلد مکمل کرنے کی ہدایات دے دیتے ہیں۔ اس پر وکیل کاکہنا تھا کہ ہدایات نہ دیں۔ عدالت نے درخواست ضمانت بعد ازگرفتاری ناقابل سماعت قراردیتے ہوئے خارج کردی۔جبکہ بینچ نے 1600گرام ہیرئون برآمدگی کیس میں گرفتار ملزم نذرحسین شاہ کی درخواست ضمانت بعد ازگرفتاری پر سماعت کی۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ یہ منشیات برآمدگی کاکیس ہے۔ جسٹس ملک شہزاد احمد خان کاکہنا تھا کہ 1600گرام ہیرئون درخواست گزار سے برآمد ہوئی ہے۔ عدالت نے درخواست ضمانت بعد ازگرفتاری ناقابل سماعت قراردیتے ہوئے خارج کردی۔
جبکہ بینچ نے منشیات برآمدگی کیس میں ہی گرفتارخلیل احمد کی درخواست ضمانت بعد ازگرفتاری پر سماعت کی۔ عدالت نے 2ماہ میں ٹرائل مکمل کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے درخواست ضمانت بعد ازگرفتاری خارج کردی۔ جبکہ بینچ نے چیک بائونس ہونے کے معاملہ پر فیضان رشید کی جانب سے دائر درخواست ضمانت قبل ازگرفتاری پرسماعت کی۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ 5لاکھ روپے دے کرختم کریں، کیوں جیل جاتے ہیں اورکیوں بھائی کوملوث کرتے ہیں۔ عدالت نے درخواست گزارکی عبوری ضمانت منظورکرتے ہوئے درخواست گزار کورقم اداکرنے کاحکم دے دیا۔ درخواست گزار کاکہنا تھا کہ بطور احتجاج عدالتی حکم پر عمل کرے گا۔
چیف جسٹس نے کیس کی سماعت 21جنوری تک ملتوی کرتے ہوئے درخواست گزارکوہدایت کہ آئندہ سماعت پر پیسے لے کرآنا۔ جبکہ بینچ نے پیکاقانون کے تحت گرفتار ملزم منیب ریاض کی درخواست ضمانت بعد ازگرفتاری پر سماعت کی۔ وفاقی حکومت کی جانب سے ایڈیشنل اٹارنی جنرل ملک جاوید اقبال وینس پیش ہوئے۔ دوران سماعت بتایا گیا کہ درخواست گزار 29 جولائی2024کوگرفتارہوا۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ درخواست گزارکے موبائل سے شکایت کندہ کی بہن اور ماں کی تصاویر برآمد ہوئیں۔ عدالت نے درخواست ضمانت واپس لینے کی بنیاد پر خارج کردی۔جبکہ بینچ نے محمد یوسف کی جانب سے دائر درخواست ضمانت قبل ازگرفتاری پر سماعت کی۔
چیف جسٹس کادرخواست گزارکے وکیل سے مکالمہ کرتے وہئے کہنا تھا کہ آپ نے کمیٹی کے پیسے اِدھر اُدھر کردیئے۔ جسٹس ملک شہزاداحمد خان کاکہنا تھا کہ26لاکھ روپے کاکوئی اسٹامپ پیپر یارسید دی ہوئی ہے کہ نہیں۔ چیف جسٹس کاحکم لکھواتے ہوئے کہنا تھا کہ اس حوالہ سے کوئی مواد ریکارڈ پر نہیں کہ پیسے درخواست گزارکودیئے۔ عدالت نے ایک لاکھ روپے مچلکوں کے عوض درخواست ضمانت قبل ازگرفتاری منظور کرتے ہوئے کیس کی مزید سماعت 22جنوری تک ملتوی کردی۔