اسرائیل غزہ میں نسل کشی کا مجرم ہے۔ ایمینسٹی انٹر نیشنل
غزہ میں نئی قبضہ بستیاں تعمیر ہونگی؟؟؟
جنگی جرائم مقدمات کا خطرہ، اسرائیلی فوجیوں کو بیرون ملک جانے سے روکدیا گیا
آسٹریلیا نے سابق اسرائیلی وزیر کوویزا دینے سے انکار کردیا
ڈانلڈ ٹرمپ کے حکم پر مزاحمت کار قیادت کو قطر واپس آنے کی دعوت
انسانی حقوق کیلئے کام کرنے والی عالمی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے اسرائیل کو غزہ میں فلسطینیوں کی نسل کشی کا مجرم قراردیدیا۔ پانچ دسمبر کو ادارے کی معتمد عام محترمہ اینس کیلیمرد (Angnes Callamard) کی جانب سے جاری ہونے والی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ غزہ پر حملے کے دوران اسرائیل نے منظم منصوبہ بندی کیساتھ اہم بنیادی ڈھانچے کو تباہ کیا اور خوراک و ادویات کے علاوہ ضرروی انسانی امداد کی فراہمی روک کر فلسطینیوں کو تباہ کرنے کی کوشش کی۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل نے اسرائیل پر 1951 کے نسل کشی کنونشن کی خلاف ورزی کا الزام عائد کرتے ہوئے کہا ہے کہ اسرائیلی عسکری اقدامات کا مقصد غزہ کی فلسطینی آبادی کو “سست اور سوچی سمجھی موت” کے عذاب میں مبتلا کرنا ہے۔ رپورٹ کو اشاعت کیلئے جاری کرتے ہوئے محترمہ کیلیمرد نے کہا ‘ہمارے ان افسوسناک نتائج کو بین الاقوامی برادری کے لیے خطرے کی گھنٹی کے طور پر کام کرنا چاہیے، یہ صریح نسل کشی ہے جسے فوری طور پر بند ہونا ضروری ہے’
حسب توقع اسرائیل اور انکے امریکی و یورپی اتحادیوں نے اس رپورٹ کو مسترد کردیا۔ ایمنسٹی پر الزام لگاتے ہوئے اسرائیلی وزارت خارجہ نے ایک بیان میں کہا ‘قابل مذمت اور جنونی تنظیم، ایمنسٹی انٹرنیشنل نے ایک بار پھر سفید جھوٹ پر مبنی من گھڑت رپورٹ پیش کی ہے۔ایمنسٹی انٹرنییشنل اسرائیل نے بھی رپورٹ کو مبالغہ آمیز قراردیا۔ ایمنسٹی انٹرنشینل کی اسرائیلی شاخ کا کہنا تھا کہ مقامی افراد کو تحقیقات سے علیحدہ رکھ کر معاملے کو مشکوک بنادیا گیا ہے۔
امریکی وزارت خارجہ کے ترجمان ویدانت پٹیل نے واشنگٹن میں صحافیوں سے باتیں کرتے ہوئے فرمایا کہ ایمنسٹی انٹرنیشنل کی رپورٹ میں لگائے گئے الزامات خودساختہ ، بلا ثبوت اور بے بنیاد ہیں چنانچہ امریکہ نے غزہ نسل کشی کے بارے میں ایمنسٹی انٹرنیشنل کی رپورٹ کو یکسر مسترد کردیا ہے۔ جرمن وزارت خارجہ کے ترجمان سبا شین فشر (Sebastian Fischer)بہت دور کی کوڑی لائے۔ صحافیوں سے باتیں کرتے ہوئے بولے ‘جب تک “نیت” کے بارے میں ناقابل تردید ثبوت نہ مل جائے نسل کشی ثابت نہیں ہوتی۔ غزہ میں اسرائیل کے کسی بھی قدم سے ثابت نہیں ہوا کہ یہ سب کچھ نسل کشی کی ‘نیت’ سے کیاجارہاہے’۔ کچھ ایسا ہی موقف اطالوی وزیرخارجہ و نائب وزیراعظم انتونیو تیجانی کاتھا۔ روم میں اپنی جماعت کی پارلیمانی پارٹی سے خطاب کرتے ہوئے ارشاد فرمایا’جو کچھ غزہ میں ہورہا ہے وہ غلط ہے لیکن اسے نسل کشی نہیں کہا جاسکتا’۔
امریکی و یورپی رہنماوں کی ہٹ دھرمی کے باوجود دنیا بھر میں اسرائیلیوں کو مشکلات کا سامنا ہے۔ اسرائیلی فوج نے غزہ نسل کشی کے الزامات میں ملوث اپنے 30 فوجیوں کو غیر ملک سفر سے پرہیز کی ہدائت کی ہے۔ قبرض سلوانیہ اور ہالینڈ جانیوالے والے 8 فوجی افسروں کو فوری طور پر ملک واپس آنے کا حکم دیدیا گیا اسلئے کہ ان لوگوں کے خلاف مقامی وکلا نے جنگی جرائم کے پرچے کٹوادئے تھے۔ دوسرے ممالک کیلئے عازم سفر تمام فوجیوں سے کہا گیا ہے کہ ٹکٹ خریدنے سے پہلے اسرائیلی وزارت قانون سے مشورہ کرلیں۔
بیلجئیم میں اسرائیل کے عسکری اتاشی کیخلاف جنگی جرائم کی شکائت کردی گئی ہے۔انسانی حقوق کیلئے کام کرنے والی تنظیموں نے کرنل موسیٰ تیترو (Moshe Tetro)کیخلاف تحریری شکائت وزارت داخلہ اور وزارت انصاف کو جمع کرائی ہے۔ درخواست میں کہا گیا ہے کہ غزہ تعیناتی کے دوران کرنل صاحب امدادی سامان کی فراہمی میں رکاوٹ ڈال کر جنگی جرائم کے مرتکب ہوئے ہیں۔خط میں کہا گیا ہے کہ اگر اس مکتوب کا تسلی بخش جواب جلد موصول نہ ہوا تو عدالت سے رجوع کیا جائیگا۔ آسٹریلیا نے فلسطینیوں سے بدسلوکی اور قبضہ گردی کی حمایت پر اسرائیل کی سابق وزیرانصاف ایلے شکر (Ayelet Shaked)کو ویزا دینے سے انکار کردیا۔
بیرون ملک اور انسانی حقوق کی تنظیموں کی جانب سے دباو کے باوجود غزہ میں اسرائیلی کاروائیوں میں کمی کے کوئی آثار نہیں بلکہ لبنان سے راکٹ حملے رک جانے کے باعث اسرائیلی فضائیہ نے اپنی پوری طاقت ٖغزہ میں جھونک دی ہے۔ شمال میں بیت لاہیہ سے جنوب میں ر فح تک پوری پٹی شدید بمباری کی لپیٹ میں ہے۔ بار بار جبری نقل مکانی کی بنا پر سارا غزہ عملاً سڑکوں پر ہے۔ غرب اردن ، وادی اردن اور مشرقی بیت المقدس کا بھی یہی حال ہے جہاں فوج کیساتھ قبضہ گردوں نے لوٹ مار و قتلِ عام کا بازار گرم کررکھا ہے۔
وزیراندرونی سلامتی اتامر بن گوئر غزہ سے فلسطینیوں کی بیدخلی اور وہاں نئی قبضہ بستیوں کے قیام پر مُصر ہیں۔ گزشتہ ہفتے وزیرعظم سے ملاقات کے بعد اسرائیلی ریڈیو پر انھوں نےکہا’بن یامین نیتن یاہو نے غزہ سے فلسطینیوں کی ‘نقل مکانی’ پر “کچھ کھلے پن” کا مظاہرہ کیا ہے۔ بن گوئر کا کہنا تھا کہ ‘دشمن کی شکست صرف اسی صورت مکمل ہوگی جب ہم ان سے علاقہ چھین لیں۔انتہا پسند، غزہ میں اسرائیلی بستیاں تعمیر کرنے کیلئے نامزد امریکی سفیر مائک ہکابی کے ذریعے نومنتخب امریکی صدر ڈانلڈ ٹرمپ رابطے میں ہیں۔ جناب ٹرمپ کے داماد جیرڈ کشنر غزہ کے صاف و شفاف ساحل پر سیاحوں کیلئے آراستہ و پیراستہ Beach Frontتعمیر کرنے کا خیال ظاہرکرچکے ہیں بلکہ کہا جارہا ہے کہ خلیجی و عرب شیوخ اس نفع بخش کاروبار میں سرمایہ کاری کیلئے دامادِ اول سے رابطے میں ہیں۔
ڈانلڈ ٹرمپ نے انتخابی مہم کے دوران غزہ میں پائیدار امن کا وعدہ کیا تھا لیکن انکی حالیہ بات چیت سے ایسا لگتا ہے کہ انکی ساری دلچسپسی اسرائیلی قیدیوں کی رہائی سے ہے۔ گزشتہ ہفتے اسرائیل کی خاتون اول محترمہ سارا نیتھن یاہو اپنے بیٹے یائر کیساتھ امریکہ آئیں جہاں جناب ٹرمپ نے اپنے پرتعیش گلف کورس میں انھیں پرتکلف عشائیہ دیا۔ سارہ بی بی کیلئے کوشر (یہودی حلال) ڈشوں کا خصوصی بندوبست کیا گیا تھا۔ ملاقات کی جو تفصیل یروشلم پوسٹ میں شایع ہوئی اسکے مطابق سارہ نیتھن یاہو نے ڈانلڈ ٹرمپ کو اسرائیل کے خلاف اہل غزہ کی “بربریت” سے آگاہ کیا اور قیدی رہا کرانے کیلئے مدد کی درخواست کی۔ دوسرے دن اپنے سوشل چبوترے TRUTHپر جناب ٹرمپ نے فرعونیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے لکھا کہ اسرائیلی قیدیوں کو میرے حلف اٹھانے سے پہلے رہا کردو۔ ورنہ اسکے ذمہ داروں کو نشانِ عبرت بنادیا جائیگا۔اسکا اہل غزہ کی طرف سے بہت ہی شائستہ جواب آیا کہ ‘مستعضعفین، نسل کشی کے آغاز سے ہی مستقل جنگ بندی کیلئے ایک ایسے معاہدے کے خواہشمند ہیں جس میں قیدیوں کا مکمل تبادلہ شامل ہو، لیکن نیتن یاہو نے ان تمام کوششوں کو سبوتاژ کر دیا۔اہل غزہ سلامتی کونسل کی قرارداد 2735 پر فوری عمل درآمد کے لیے پرعزم ہیں جو 2 جولائی 2024 کو طے پایا تھا’۔ حوالہ: نیوزویک
اس ضمن میں ٹائمز آف اسرائیل کے مطابق جناب ڈانلڈ ٹرمپ نے قطر کو حکم دیا ہے کہ مزاحمت کار رہنماوں کو دوحہ واپس بلاکر مذاکرات فوراً شروع کئے جائیں۔کچھ عرصہ پہلے قطر نے صدر بائیڈن کے حکم پر اہل غزہ کی سیاسی قیادت کو ملک سے نکال دیا تھا۔سرکاری اعلان کے مطابق ‘ معزز مہمانوں’ کو نکالا نہیں گیا لیکن چونکہ قطر نے مذاکرات سے ہاتھ اٹھالئے تھے اسلئے یہ لوگ ترکیہ چلے گئے تھے۔معلوم نہیں فلسطینی رہنما کب تک واپس قطر آئینگے۔ لیکن ڈانلڈ ٹرمپ بضد ہیں کہ 20 جنوری کو انکے حلف اٹھانے سے پہلے قیدی رہا کردیے جائیں جبکہ اہل غزہ کہتے ہیں اسرائیلی فوج کی پسپائی سے پہلے قیدی رہا نہیں ہونگے۔ یعنی ایک طرف قصاب، دوسری جناب مضبوط اعصاب۔
امریکہ کی لاممنوعہ ولا مقطوعہ امداد کے باوجود، معصوم فلسطینی بچوں کا لہو اسرائیلی معیشت پر کساد بازاری کی شکل میں اپنا رنگ دکھا رہا ہے۔ شمالی اسرائیل کے اکثر علاقوں میں کاروباری سرگرمیاں 14ماہ سے معطل ہیں اور اب یہی صورتحال باقی اسرائیل کے بازاروں میں بھی نظر آرہی ہے۔ ٹائمز آف اسرائیل کی ایک رپورٹ کے مطابق روزمرہ کے سامان کیساتھ سبزی اور پھلوں کی خریداری میں بھی کمی واقع ہوئی ہے۔ جریدے نے شام چار بجے یروشلم میں واقع ماہان یہودا سبزی بازار کی ایک تصویر اس تبصرے کے ساتھ شایع کی ہے کہ ‘عام حالات میں اس وقت یہ بازار کھچاکھچ بھرا ہوتا ہے جبکہ ویرانی کا منظر بہت واضح ہے’ ۔ بینک آف اسرائیل (اسٹیٹ بینک) کے مطابق غزہ نسل کشی پر اسرائیل کا خرچ 67ارب ڈالر سے تجاوز کرچکا ہے۔ علمائےاقتصادیات کا خیال ہے کہ 2024 کے دوران معیشت کی شرح نمو 0.6فیصد سے کم رہی اور اگلے برس بھی بہتری کی کوئی امید نہیں۔
Load/Hide Comments