اسلام آباد(صباح نیوز)اپوزیشن کے سینیٹرز نے کہاہے کہ ملک سے جمہوریت ختم ہو چکی ہے ملک میں ظالمانہ نظام جاری ہے آج میں پوچھنے آیا ہوں گولی کیوں چلائی ؟ حکومت کو معلوم ہی نہیں چوبیس ، پچیس اور چھبیس نومبر کو کیا ہوا ؟حکومت کا یہ کہنا کچھ نہیں ہوا اس کی مذمت کرتا ہوں ،حکومت ٹروتھ اور ریکنسیلیشن کمیشن تشکیل دے کمیشن کے سامنے سارے حقائق رکھیں گے پوری دنیا اور پاکستان حکومت کے موقف کو تسلیم نہیں کرتے۔حکومتی سینیٹرز نے کہاکہ جو لوگ 26 نومبر کو آئے وہ بھی پاکستان تھے یہاں بھی پاکستانی تھے، دنیا کے 195 ممالک میں سے کوئی ایک نام بتائیں جہاں احتجاج کا حق غیر مشروط ہے۔جمعرات کو سینیٹ کااجلاس چیئرمین سینیٹ یوسف رضا گیلانی کی زیرصدارت پارلیمنٹ ہاوس میں ہوا۔
پی ٹی آئی سینیٹر دوست محمد خان نے سینیٹ میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہاکہ گزشتہ دو ماہ ہمارے لئے قیامت کی طرح گزرے، میں صرف الیکشن کمیشن کو بیس ہزار دیکر سینیٹر بنا، ہم بانی پی ٹی آئی سے کبھی غداری نہیں کریں گے، جب سینیٹر کے گھر پر چھاپہ ماریں تو چیئرمین سینیٹ کو آگاہ کریں، اگر ہمارے عورتوں کے ساتھ کچھ کیا تو یا یہ رہیں گے یا ہم، چیئرمین سینیٹ رولنگ دے کہ سینیٹر کے گھر چھاپے سے متعلق آگاہ کریں، چھبیسویں آئینی ترمیم کے بعد عدلیہ کو قبر میں بند کردیاگیا،انکے اپنے اینکرز بتاتے ہیں کہ 278لوگوں کو شہید کیاگیا، اتنے افراد زخمی ہوئے کہ اسپتالوں میں جگہ کم پڑی، میں نے چار مارشل لا دیکھے مگر ایسے حالات کبھی نہیں دیکھے،
نیشنل پارٹی کے سینیٹر جان محمد نے ایوان میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہاکہ تمام مسائل کا حل بات چیت سے ہی ممکن ہے,مسائل کو سمجھ کر مفاہمتی پالیسی لے کر آگے چلنا چاہیے، تمام سیاسی جماعتوں کو ملکر مسائل پر بات کرنی ہوگا،بلوچستان میں بات چیت کی بجائے طاقت کی پالیسی اپنائی گئی، بلوچستان میں طاقت کی پالیسی سے مسائل بڑھے ۔ مسلم لیگ ن کے سینیٹر عرفان صدیقی نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہاکہ بات چیت مفاہمت اور بیٹھ کر مسائل کا حل ہی طریقہ ہے، افہام و تفہیم کتنا ہی طاقتور جانور ہو اس کو نہیں دی گئی، ہماری تاریخ میں بڑے نشیب و فراز آئے، ہم نے شاید اپنی تاریخ سے سبق نہیں سیکھا گیا، جو لوگ 26 نومبر کو آئے وہ بھی پاکستان تھے یہاں بھی پاکستانی، دنیا کے 195 ممالک میں سے کوئی ایک نام لے دیں جہاں احتجاج کا حق غیر مشروط ہے،
کوئی ملک نہیں جہاںاظہار خیال احتجاج سے متعلق جہاں غیر مشروط اجازت ہو،کوئی احتجاج ایسا ہوتا ہے کیا جہاں الجہاد الجہاد کا نعرے ہوں،کیا کوئی احتجاج کیلئے ڈنڈے کیل غلیلیں لے کر آتا ہے؟ قانون کے تحت ایک درخواست اور جگہ کا تعین کیا جاتا ہے ، یہاں کوئی درخواست نہیں دی گئی اور احتجاج ہوا، ہم آج بھی چاہتے ہیں بات چیت ہو کھلے دل سے ہو،آج بھی کہا گیا بات چیت فلاں تاریخ تک کریں بات چیت ہونی چاہیے ایسے بات چیت کیسے آگے بڑھے گی۔پی ٹی آئی کے پارلیمانی رہنمابیرسٹر علی ظفر نے کہاکہ ملک سے جمہوریت ختم ہو چکی ہے ملک میں ظالمانہ نظام جاری ہے آج میں پوچھنے آیا ہوں گولی کیوں چلائی ؟ایک شخص بھی شہید ہوا ہو یا پھر گرفتار ہوا ہو اس کی مزمت کرنی چاہیے عوام کی عدالت میں انصاف تو ہوگا حکومت کو معلوم ہی نہیں چوبیس ، پچیس اور چھبیس نومبر کو کیا ہوا ؟حکومت کا یہ کہنا کچھ نہیں ہوا اس کی مذمت کرتا ہوں جو لوگ شہید ہوئے اور زخمی ہوئے ان کی قربانیوں کو ضائع نہیں ہونے دیں گے حکومت ٹروتھ اور ریکنسیلیشن کمیشن تشکیل دے کمیشن کے سامنے سارے حقائق رکھیں گے پوری دنیا اور پاکستان حکومت کے موقف کو تسلیم نہیں کرتے۔
ہمیں کہا گیا کہ ہائیڈ پارک کی طرح کسی جگہ احتجاج کرلیا کریںکسی نے کہا ڈی چوک آنے کی کیا ضرورت ہے ؟میں نے لندن میں پڑھاہے اور امریکہ میں بھی رہا ہوں لندن اور امریکہ کی مثال دینے والوں سے کہتا ہوں ہمارا احتجاج مہذب معاشروں کی ہی عکاسی ہے لندن اور امریکہ کی پارلیمنٹ کے سامنے آئے روز احتجاج ہوتے۔انہوں نے کہاکہ ہمارا ڈی چوک میں پرامن احتجاج تھاحکومتی سائیڈ سے کئی لوگوں نے آکر کہا کہ یہ زیادتی ہوئی میں ان کا نام نہیں بتاتا ہر جگہ اچھے لوگ ہوتے ہیںکیا ہوا جاننے کے لیے ایک آزاد کمیشن تشکیل دیا جانا چاہیے لوگوں کی آزادی سے یہ ڈررہے ہیں ان کو معلوم ہے جب لوگ آزاد ہوں گے تو ان کو تسلیم نہیں کریں گے میں ذاتی طور پر سمجھتا ہوں کہ بات چیت کا راستہ بند نہیں ہونا چاہیے باجود اس کے عمران خان پر جھوٹے کیسز بنائے گئے ہیں جو کچھ ہوا اس پر کمیشن بنایا جائے حکومت کا کام ہوتا ہے اعتماد کی فضاء پیدا کی جائے ہم نے مذاکراتی کمیٹی بنائی ہے ہم پر الزام عائد کیا جاتا ہے کہ ہم بات چیت نہیں کرتے کمیٹی بناکر ہم نے اس بات زائل کردیا ہے۔