لاہور(صباح نیوز)نائب امیر جماعتِ اسلامی، صدر مجلسِ قائمہ سیاسی قومی امور لیاقت بلوچ نے کہا ہے کہ پا بندیوں اور طاقت کے اندھے استعمال سے نظریات اور کسی پارٹی کی مقبولیت ختم نہیں کی جاسکتی،صحافی مطیع اللہ جان کی گرفتاری قابل مذمت ہے ، کارکن صحافیوں کیلئے آزاد صحافت کے راستے مسدود کردیئے گئے۔ سیاسی قومی امور کمیٹی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے لیاقت بلوچ نے کہا کہ پاپولر لیڈرز کو منظر سے ہٹانے، سیاسی جمہوری جماعتوں پر پابندیاں، سیاسی جمہوری مزاحمت کو طاقت اور ریاستی اندھے جبر سے پامال کرنے سے حالات خراب ہوئے اور پورا ملک بندگلی میں چلا گیا ہے۔ دہشت گردی، بیرونی مداخلت اور فوج ،عوام کے درمیان اعتماد کی خلیج بڑھتی جارہی ہے۔
وزیراعظم شہباز شریف اسلام آباد میں احتجاج کو تشدد، گولیوں کی بوچھاڑ سے ختم کرنے کے بعد سیاست، جمہوری عمل پر مزید سختیاں مسلط کرنے کا اعلان کررہے ہیں۔ عملًا وہ اسلام آباد میں انسانوں کی جانوں کے ضیاع کے لئے عوام کے سامنے جوابدہ ہیں ،پابندیوں اور طاقت کے اندھے استعمال سے نظریات اور کسی پارٹی کی مقبولیت ختم نہیں کی جاسکتی، جمہوریت برداشت، اختلافِ رائے کا سامنا کرنے اور آئین و قانون کی بالادستی سے پنپ سکتی اور پائیدار ہوسکتی ہے، وفاقی اور صوبائی حکومتیں ملک و مِلت کے مسائل کا ادراک کریں، قومی ڈائیلاگ کا آغاز کریں۔ حکومتیں اپنی نااہلی، ضِد اور اقتدار کی کرسی سے چِمٹے رہنے کی ہوس سے ریاست کو ناکام بنانے کی سازش نہ کریں۔
لیاقت بلوچ نے اسلام آباد میں سینئر صحافی مطیع اللہ جان کی گرفتاری کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ کارکن صحافیوں کے لئے آزاد صحافت کے راستے مسدود کردیئے گئے ہیں۔ گرفتاریاں، تشدد، لاپتہ کرنا اور انٹرنیٹ، سوشل میڈیا پر جدید دور میں ناروا پابندیاں، بندشیں عائد کرنا آمریت کی بدترین مثال ہے، تمام گلیاں سنسان کرکے مقتدر طاقت ور طبقہ ملک کو کس طرف لے جارہا ہے؟ ،سیاسی عدم استحکام برقرار رہے گا تو معاشی ترقی کا خواب کبھی بھی شرمندہ تعبیر نہیں ہوگا۔ سٹاک ایکسچینج میں پیش رفت ہمیشہ مصنوعی و عارضی ہوتی ہے، حکومت یہ چورن بیچ کر کس کو بیوقوف بنارہی ہے؟، پاکستان سٹاک ایکسچینج کے اعداد و شمار کے مطابق پی ایس ایکس میں مجموعی طور پر 7 اعشاریہ 2 ٹریلین سرمایہ کاری کیساتھ کل 522 کمپنیاں لِسٹڈ ہیں، اِن میں سے بھی گِنی چنی کمپنیوں کے شیئرز کا مختصر مدت یا چند دِنوں کے لیے اوپر نیچے ہوجانے یا سرمایہ کاروں/شیئرہولڈرز کے منافع کمالینے سے عام آدمی کی زندگی میں کیا انقلاب آیا ہے؟،
عوام تو اسی طرح کمرتوڑ مہنگائی، بھاری بھرکم یوٹیلٹی بِلز تلے دبی ہوئی ہے، سرکاری وسائل اور ریاستی طاقت کا رخ کسی سیاسی جماعت پر پابندیوں، بندشوں جیسے غیرآئینی، غیرجمہوری اقدامات کی طرف موڑنے کی بجائے حکومت عوام کو ریلیف دینے، دہشت گردی کے ناسور کو ختم کرنے اور تعلیم، روزگار اور صحت جیسے بنیادی عوامی مسائل حل کرنے پر توجہ دے،سرکاری ہسپتا لوں میں صحت سہولیات کی آئوٹ سورسنگ، پنجاب میں 13 ہزار سرکاری سکول پرائیویٹ شعبے کے حوالے جبکہ ماضی کے باکمال لوگ، لاجواب سروس کے سلوگن والی قومی ایئرلائن پی آئی اے کی حالت یہ ہے کہ اب کوئی اسے خریدنے کے لیے تیار نہیں، قومی سیاست میں پولرائزیشن کو مزید گہرا کرنے کی بجائے تمام سٹیک ہولڈرز آئین کے نفاذ، آزاد عدلیہ، پائیدار جمہوریت کے لئے قومی ایشوز پر اتفاقِ رائے کی شاہراہ پر آئیں، قومی مسائل پر قومی قیادت کیساتھ مل بیٹھ کر ڈائیلاگ کریں، تلخی کو کم اور ٹینشن کو ڈی فیوز کریں ، حکمران پورس کے ہاتھی نہ بنیں، ماضی سے سبق سیکھیں۔
لیاقت بلوچ نے کہا کہ امریکہ نے خصوصی مداخلت اور سٹرٹیجک اقدام سے لبنان اور اسرائیل میں جنگ بندی کرادی ہے لیکن فلسطین کو تنہا اور لاوارث کردیا ہے۔ اسرائیل غزہ میں نہتے فلسطینیوں پر مسلسل بم باری سے ان کا قتلِ عام اور نسل کشی کررہا ہے، یہ بڑا المناک پہلو ہے کہ عالمِ اسلام کی قیادت موقف کے اظہار تک تو درست بات کرتے ہیں لیکن عمل کے میدان میں صفر ہیں۔ فلسطینی زبانی جمع خرچ نہیں ،عالمِ اسلام کی قیادت کی طرف سے عملی اقدامات کے منتظر ہیں ،مسلسل تاخیر، مجرمانہ غفلت اور پہلوتہی تمام اسلامی ممالک کے لئے مہلک ثابت ہوگی۔لیاقت بلوچ نے کرم خیبرپختونخوا میں مسلسل بگڑتی صورتِ حال پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ مسئلہ صرف شیعہ سنی کا نہیں بلکہ فرقہ واریت، لِسانیت اور تقسیم و عدم استحکام کا خوفناک کھیل ہے۔
اس دہشت گردی کا اصل ہدف امن و امان کو تہہ و بالا کرنا اور قومی سلامتی و قومی وحدت کو نقصان پہنچانا ہے، کرم ضلع کے مسئلہ پر وفاقی، صوبائی حکومتیں اور سکیورٹی ادارے گرینڈ جرگہ کا اہتمام کریں، فوجی آپریشن کرم میں ہو یا بلوچستان کے ٹارگِٹِڈ علاقوں میں ہو، یہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کی ناکام حکمتِ عملی ہے، آپریشن زخموں پر نمک پاشی اور عوام کو بغاوت کے راستہ پر دھکیلنے کا خوفناک عمل ہے، عوام کے حقیقی مسائل حل کئے جائیں، لاپتہ افراد کی بازیابی کا مسئلہ مستقل بنیادوں پر حل کیا جائے۔