لاہور(صباح نیوز)نائب امیر جماعتِ اسلامی پاکستان، سیکرٹری جنرل ملی یکجہتی کونسل لیاقت بلوچ اور مرکزی قائدین علامہ سید ساجد علی نقوی، پیر ہارون گیلانی، پیر عبدالرحیم نقشبندی، مفتی گلزار نعیمی، مولانا اللہ وسایا، پیر غلام رسول اویسی، خواجہ معین الدین محبوب کوریجہ، سید ناصر شیرازی، پیر صفدر گیلانی، علامہ عارف حسین واحدی، مفتی معرفت شاہ، مولانا عبدالمالک، حافظ عبدالغفار روپڑی، سید ضیا اللہ شاہ بخاری، ڈاکٹر علی عباس اور دیگر رہنمائوں نے قادیانی مبارک ثانی کیس میں ملی یکجہتی کونسل کے صدر ڈاکٹر صاحبزادہ ابوالخیر محمد زبیر کی شاندار اور عشقِ مصطفیۖ سے لبریز جدوجہد پر خراجِ تحسین پیش کیا اور مشترکہ بیان میں دیگر علما دین، اکابرینِ مِلت کی سعی جمیلہ کی تحسین کرتے ہوئے کہا ہے کہ چیف جسٹس آف پاکستان اور بنچ کے دیگر فاضل ججز کی طرف سے قادیانی مبارک ثانی مقدمہ میں نظرثانی اپیل کے دوران گزشتہ دونوں فیصلوں میں اپنی غلطی تسلیم کرنے اور فیصلہ کو آئین، قرآن و سنت اور مِلتِ اسلامیہ کے اجماع کے مطابق درست کردینے کے تازہ فیصلے اور اعلان کا خیرمقدم کرتے ہیں۔ واضح رہے کہ ملی یکجہتی کونسل نے مبارک ثانی کیس میں سپریم کورٹ کے فروری اور جولائی کے متنازع فیصلہ کو مسترد کردیا تھا۔ توقع ہے کہ اب مورخہ 22 اگست 2024 کے تاریخی فیصلہ کے اعلان کے بعد تفصیلی تحریری فیصلہ میں تمام متنازع امور کا خاتمہ کردیا جائے گا۔ یہ بھی عدالتی تاریخ کا روشن اقدام ہے کہ ضِد اور اصرار کی بجائے حکمت و دانش کے ساتھ تمام مکاتبِ فکر کی بات کو سنا گیا۔
ریاست، حکومت اور تمام آئینی اداروں کو اب یہ تسلیم کرلینا چاہیے کہ اسلامیانِ پاکستان عقیدہ ختمِ نبوتۖ، شانِ رسالتۖ اور شعائرِ اسلام کے ساتھ کسی قسم کی چھیڑ چھاڑ کے کسی اقدام کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں۔ اسلامیانِ پاکستان میں ہزار اختلاف ہوسکتے ہیں، لیکن عقیدہ ختمِ نبوت ۖ اور مقامِ مصطفیۖ پر کوئی اختلاف نہیں، عقیدہِ ختمِ نبوت ہر مسلمان کے ایمان کا لازمی حصہ ہے۔ قادیانی غیرمسلم ہیں، قادیانی آئینِ پاکستان کو تسلیم کرلیں اس کے بعد ریاست ان کے عقائد اور عبادت کا تعین کرے گی، پھر ہی وہ آئین کے مطابق تمام حقوق کے حق دار ٹھہریں گے۔ چیف جسٹس آف پاکستان قاضی فائز عیسیٰ کا حکمت و دانش سے اس غیرمعمولی حساس دینی معاملہ پر فیصلہ کی بلاتاخیر ہینڈلنگ پر شکریہ ادا کرتے ہیں۔ قائدین نے وفاقی حکومت، پنجاب حکومت اور ماہرینِ قوانینِ شریعتِ اسلامی، سینئر وکلا، اسلامی نظریاتی کونسل کے کردار کی بھی تحسین کی ہے۔قائدین نے واضح کیا کہ بعض قانون دان سپریم کورٹ کے گزشتہ روز کے فیصلے پر اپنے تحفظات کا اظہار کررہے ہیں، جو ہوسکتا ہے کہ تکنیکی طور پر درست ہوں لیکن اس خاص معاملے کی نزاکت کے پیشِ نظر اگر عدالت نے ماہرینِ قوانینِ اسلامی ، علما کرام و مشائخِ عظام کو اعتماد میں لے کر اپنے گزشتہ فیصلوں میں ترمیم کرکے تصحیح کی ہے ، جس پر اِن ماہرین و اکابرین سمیت تمام مذہبی طبقات اور عوام الناس نے عمومی اطمینان کا اظہار کیا ہے تو یقینا یہ ایک درست پیش رفت ہے چونکہ ابھی تفصیلی تحریری فیصلہ آنا باقی ہے اس لئے سرِدست اس فیصلے کے حوالے سے کسی قسم کی رائے زنی قبل از وقت ہی ہے۔ توقع ہے کہ اب کی بار آنے والا تفصیلی فیصلہ قوم کے اندر پھیلی بے چینی کے خاتمہ اور عمومی اطمینان کا باعث ہوگا۔