لداخ میں وسطی ایشیا ئی بروکپا کمیونٹی کے کلینڈر میں 12 سالوں کا عرصہ صرف ایک سال شمار ہوتا ہے

 نئی دہلی (صباح نیوز) بھارت کے زیر انتظام لداخ کے متنازعہ علاقے میںوسطی ایشیا ئی بروکپا کمیونٹی کی بڑی تعداد آباد ہے ، بروکپا کمیونٹی کی  زیادہ تعدادبروکپا چرواہوں  پر مشتمل ہے ۔بروکپا مردوں میں کثرت ازدواج کا رواج ہے اور ان کا اپنا ایک کیلنڈر بھی ہے۔ اس کمیونٹی میں مقبول ترین لوک گیت “تاریخ کا گیت” کہلاتا ہے، جس میں ہر 12 سال بعد ایک نیا مصرعہ شامل کیا جاتا ہے۔ بروکپا کے کیلنڈر میں ان 12 سالوں کا عرصہ صرف ایک سال کے برابر شمار ہوتا ہے۔ مغربی نشریاتی ادارے  ڈی ڈبلیو کے مطابق  ہمالیہ کے برفانی پہاڑوں میں ایک طویل عرصے سے آباد بروکپا باشندے آج بھی ہزاروں سال قبل اپنی ہجرت کی داستانیں سناتے ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ وہ دور دراز علاقوں سے آ کر ان پہاڑوں میں آباد ہوئے تھے اور وہ آریا ہیں۔ لیکن آج ان کی یہ شناخت بھارت کے زیر انتظام لداخ کے متنازعہ علاقے میں سیاست سے متاثر ہوتی بھی نظر آتی ہے۔بروکپا کمیونٹی کی زبان کا کوئی اپنا رسم الخط نہیں ہے۔ بروکپا باشندوں میں کثرت ازدواج کا رواج ہے اور ان کا اپنا ایک کیلنڈر بھی ہے۔ اس کمیونٹی میں مقبول ترین لوک گیت “تاریخ کا گیت” کہلاتا ہے، جس میں ہر 12 سال بعد ایک نیا مصرعہ شامل کیا جاتا ہے۔ بروکپا کے کیلنڈر میں ان 12 سالوں کا عرصہ صرف ایک سال کے برابر شمار ہوتا ہے۔اس کمیونٹی سے تعلق رکھنے والے 85 سالہ سیرنگ گنگفیل کہتے ہیں کہ اس گیت میں بروکپا باشندوں کے قدیم روم سے ہمالیہ آنے کی داستان بیان کی گئی ہے۔ جب کہ اس کمیونٹی کے دیگر افراد اپنے آبا اجداد کا تعلق سکندر اعظم کی فوج سے ہونے کی داستانیں بھی سناتے ہیں۔ تاہم ایک اسٹڈی کے مطابق بروکپا کمیونٹی کی جڑیں جنوبی بھارت میں ہو سکتی ہیں۔لیکن گنگفیل، جن کا کہنا ہے کہ انہیں بروکپا زبان میں ایک ہزار گیت یاد ہیں، یہ نہیں مانتے۔

انہوں نے بتایا، ” ہم اب بھی اپنی یہاں آمد کا جشن ہر تین سال میں ایک بار ہر گاں میں رقص کر کے اور گیت گا کے مناتے ہیں۔ ہم آریا ہیں۔ناقدین کے مطابق آج آریا کی اصطلاح کو سیاسی مقاصد کے لیے زیادہ اور قدیم زمانے کی افسانوی داستانوں کے حوالے سے کم استعمال کیا جاتا ہے۔جنوبی ایشیا کی قدیم زبان سنسکرت میں آریا کے لغوی معنی “عظیم” یا “ممتاز” ہیں۔ کسی زمانے میں یہ لفظ یورپ سے ایشیا تک ایسے افراد کے لئے بھی استعمال کیا جاتا تھا جن کے آبا  اجداد کا تعلق وسطی ایشیا سے تھا۔ اور اس اصطلاح کا یہ استعمال اس نظریے کے بالکل برعکس تھا، جس کے تحت آریا باشندوں کو  سنہرے بالوں اور نیلی آنکھوں والی نسلی طور پر برتر ‘ماسٹر ریس’ تصور کیا جاتا ہے۔دوسری جانب کچھ دائیں بازو کے ہندوں کا دعوی ہے کہ آریا باشندوں کے آبا اجداد کا تعلق بھارت سے تھا۔ اس لحاظ سے وہ اس اصطلاح کو قومی اور مذہبی طور ہر ہندو شناخت سے جوڑتے ہیں۔

بروکپا باشندوں کی آبادی والے علاقوں میں آریا کی اصطلاح کا استعمال سیاحت کے فروغ اور بھارتی مقاصد کو آگے بڑھانے کے لیے بھی کیا گیا ہے۔سن 1999 میں ایک بروکپا چرواہے تاشی نامگیال نے ہندوستان کے زیر انتظام متنازعہ  علاقے میں پاکستانی فوجیوں کو دیکھنے پر وہاں ان کی موجودگی کی اطلاع بھارتی افواج کو دے دی تھی۔ یہیں سے پاکستان اور بھارت کے درمیان 10 ہفتوں پر مشتمل کارگل جنگ کی شروعات ہوئی، ۔نیویارک کی سراکیوز یونیورسٹی سے وابستہ مونا بھان کہتی ہیں کہ یہ کمیونٹی اپنے سماجی و ثقافتی طریقوں اور تاریخ کو نمایاں کرنے کے لیے “آریا” کی اصطلاح کا استعمال کرتی ہے اور ہندو قوم پرست اس اصطلاح کو “بھارت کے متنازعہ علاقے پر اپنی ملکیت کا جواز پیش کرنے کے لیے” استعمال کرتے ہیں۔