کسی قوم کو اپاہج کرنا ہو تو اس کو جسمانی طور پر ختم کرنے کے بجائے اس کی معیشت کو رسی بنا کے اس کا گلا گھونٹ دو اور پھر بتدریج مرنے کے لیے چھوڑ دو۔ طاقتور ریاستوں کی سپاہ تب سے یہ کام کرتی آ رہی ہیں جب سے ریاست وجود میں آئی ہے۔ آج کے نام نہاد مہذب زمانے میں یہی کام کھردرے طریقے کے بجائے نسبتا زیادہ صفائی اور سفاکی سے ہو رہا ہے۔ غزہ اس کی تازہ ترین مثال ہے۔
جب سات اکتوبر کا خونی باب شروع ہوا تو غزہ کے کھیت لہلہا رہے تھے۔ زیتون کے درخت پھلوں سے لد چکے تھے اور اتارے جانے کے منتظر تھے۔ باغات میں اپنے ہی بوجھ سے جھکے ہوئے پھل دار درخت مالکوں کے منتظر تھے۔ قدرت نے مناسب موسم اور بحیرہ روم کی قربت کے سبب غزہ کو ہر ضروری زرعی نعمت سے نواز رکھا تھا۔ شائد اسی کے سہارے وہ دو ہزار سات سے سات اکتوبر دو ہزار تئیس تک جاری مسلسل اسرائیلی ناکہ بندی جھیل گئے۔ مگر اگلے نو ماہ میں سب کچھ بدل گیا۔
اقوامِ متحدہ کا کہنا ہے کہ غزہ کی چوبیس لاکھ میں سے چھیانوے فیصد آبادی گزشتہ نو ماہ سے غذائی عدم تحفظ کا سامنا کر رہی ہے اور لگ بھگ پانچ لاکھ شہری باقاعدہ فاقہ کشی جھیل رہے ہیں۔ سیٹلائیٹ تصاویر سے اندازہ ہوتا ہے کہ اسرائیل کی مسلسل جارحیت کے سبب غزہ کی ساٹھ فیصد قابلِ زراعت زمین ناکارہ یا برباد ہو چکی ہے۔ بہت سے زرعی مالکان پورے پورے خاندانوں سمیت ختم کر دیے گئے اور اب ان کی ملکیت کا دنیا میں کوئی والی وارث نہیں بچا۔
شمالی غزہ میں بیت لحایہ کا علاقہ سات اکتوبر سے پہلے اپنے رسیلے آڑووں اور اسٹرابیریز کے سبب جانا جاتا تھا۔ ان اسٹرابیریز کا معیار اتنا اعلی تھا کہ انھیں سرخ سونے کے نام سے پکارا جاتا تھا۔ اسرائیلی بلڈوزروں نے یہ پھل پیدا کرنے والی پوری زمین اندر تک اجاڑ کے رکھ دی۔ اسٹرا بیری جوس کی صنعت سے وابستہ ہزاروں کارکن بے روزگار ہو گئے۔ جانے ان میں سے کتنے اس وقت زندہ ہیں۔ اور جو زندہ ہیں وہ منہدم عمارات کے ملبے کے درمیان کی زمین صاف کر کے یا پھر ٹوٹے ہوئے کنستروں اور کنٹینرز میں جتنا کچھ اگا سکتے ہیں اگا رہے ہیں۔ ظلم کے خلاف مزاحمت کی اس سے بہتر مثال اور کیا ہو گی۔
غزہ شہر میں اس بدقسمت پٹی کی ایک تہائی آبادی رہتی تھی۔ ہر مکان میں ایک دو پھل دار درخت ضرور تھے۔ گلیوں میں بھی ایسا ہی تھا۔ غزہ شہر کے ایک حصے کا نام ہی زیتون ہے۔ مگر یہاں سات اکتوبر کے بعد حملہ آوروں کی دستبرد سے ایک درخت بھی نہیں بچا۔ زیتون روائیتی طور پر فلسطینیوں کو بہت پیارا ہے اور مزاحمت کا استعارہ بھی۔ لہذا یہ درخت بھی اسرائیلیوں کی آنکھ کا کانٹا بن گیا۔
شمالی غزہ میں دیر البلا کا قصبہ بھی ہے۔ اس کا مطلب ہے کھجور کا مرکز۔ دیر البلا بنیادی طور پر زرعی علاقہ ہے اور کھجوروں کے علاوہ اس کے مالٹے اور زیتون بھی اعلی معیار کے ہیں۔
جنوب میں خان یونس کا علاقہ مالٹوں اور گریپ فروٹ کی پیداوار کے لیے جانا جاتا ہے۔ یہ غزہ پٹی کا سب سے بڑا ضلع ہے اور پٹی کا تیس فیصد رقبہ اس کی حدود میں شامل ہے۔ خان یونس میں اب ایک بھی باغ یا کھیت سلامت نہیں بچا۔
غزہ کے انتہائی جنوبی ضلع رفاہ کی آبادی سات اکتوبر تک پونے تین لاکھ تھی۔ پھر راتوں رات پندرہ لاکھ تک پہنچ گئی اور اب ایک لاکھ سے بھی کم ہے۔ اس مقام سے مصر کے علاقے میں رسد اور انسانوں کی ٹرانسپورٹ ہوتی ہے۔غزہ کی زرعی اجناس بھی اسی راستے سے باقی دنیا کو برآمد کی جاتی تھیں۔ اب وہ گذرگاہ بھی تباہ ہو گئی۔ یہ الگ بات کہ جنگ سے پہلے بھی اسرائیل غزہ میں آنے اور جانے والی ایک ایک شے پر نگاہ رکھتا تھا۔ مگر اب انسانوں کے ساتھ ساتھ رفاہ کے کھیت اور باغات بھی اسرائیلی بلڈوزروں کے ہاتھوں قتل ہو چکے ہیں۔
دو ہزار بائیس میں غزہ کی چھوٹی سی پٹی کے کسانوں نے ساڑھے چار کروڑ ڈالر کی زرعی مصنوعات برآمد کیں۔ آج ان ہی کسانوں کے بچوں کو دانے دانے کے لالے پڑے ہوئے ہیں۔ چونکہ اسرائیلی پابندیوں کے سبب غزہ کی زرعی پیداوار صرف چند ممالک کو بھیجنے کی اجازت تھی ( اسرائیل، اردن، خلیج تعاون کونسل وغیرہ)۔ برآمدات میں زیادہ تر اسٹربیریز، ٹماٹر اور کھیرے شامل تھے۔ جب کہ محدود پیمانے پر بینگن، شملہ مرچ، ترئی، ہری مرچ، آلو اور شکرقندی بھی بیرونی گاہکوں کو بھیجی جاتی تھی۔ مگر پابندیوں کے نتیجے میں اس پٹی کی اسی فیصد پیداوار مقبوضہ مغربی کنارے پر رہنے والے ہم وطن فلسطینیوں کو فروخت کی جاتی رہی۔ اس کا مطلب ہے کہ سات اکتوبر سے پہلے بھی غزہ کے کسانوں کی آمدنی بین الاقوامی منڈی تک مکمل رسائی نہ ہونے کے سبب آدھی قیمت رکھتی تھی اور اب تو نہ کھیت رہا نہ کھلیان اور نہ ہی کسان۔
سات اکتوبر سے پہلے غزہ کے چار ہزار مچھیرے بحیرہ روم سے سالانہ پانچ ہزار ٹن کے لگ بھگ مچھلیاں حاصل کرتے تھے۔ مگر پچھلے نو ماہ میں اسرائیلی فضائیہ اور بحریہ نے ان کی آدھی کشتیاں تباہ کر دیں۔ اور باقی غزہ کی واحد تباہ شدہ بندرگاہ کی ساحلی ریت میں دھنسی پڑی ہیں۔ جو مچھیرے آبادی کو پروٹین فراہم کرتے تھے اب خود پینے کے صاف پانی کے لیے ترس رہے ہیں۔
عالمی ادارہِ خوراک کے مطابق نو ماہ کے دوران غزہ کے کھیتوں کے علاوہ ستائیس فیصد گرین ہاوسز، چھ سو چھبیس کنوئیں، تین سو سات کھلیان، دو سو پینتیس مرغی فارمز، دو سو تین بھیڑیں پالنے کے فارم اور جانوروں کی ایک سو انیس پناہ گاہیں بھی تباہ کر دی گئیں۔
غزہ کا زرعی رقبہ اور آبی ذرائع نو ماہ میں زمین، فضا اور سمندر سے مسلسل برسایا جانے والا اتنا بارود پی چکے ہیں کہ اب ان کی بحالی کے لیے بھاری امداد اور کئی برس کی منصوبہ بند محنت درکار ہے۔
مگر اس موقع پر فلسطینی آرچ بشپ جوزف نعمان کا گزشتہ کرسمس وعظ یاد آتا ہے۔ جس میں انھوں نے فرمایا کہ ہم فلسطینی گر کر کھڑے ہونے اور پھر گر کے کھڑے ہونے کے نسل در نسل عادی ہیں۔ موجودہ ابتلا بھی گذر جائے گی اور ہم پھر سے کھڑے ہو کے اس دنیا کو حیران کر دیں گے۔ جسے ہمارے مصائب پر حیران ہونے کے سوا کچھ نہیں آتا۔
بشکریہ روزنامہ ایکسپریس