برطانیہ ،لیبر پارٹی کی جیت کیئر سٹامر وزیر اعظم نامزد


لندن(صباح نیوز) برطانیہ کے عام انتخابات میں لیبر پارٹی کی کامیابی کے بعد اس کے سربراہ کیئر سٹامر ملک کے متوقع نئے وزیراعظم ہیں۔ سٹامر نے چار سال قبل سٹامر نے انتہائی بائیں بازو کے خیالات کے حامی جیریمی کوربن کی جگہ لیبر پارٹی کی قیادت سنبھالی تھی۔لیبر پارٹی موجودہ انتخابات میں فتح کے نتیجے میں 14 برس بعد اقتدار میں آئی ہے اور اس سیاسی جماعت کو بائیں بازو سے مرکز کی جانب لانے کے لیے سٹامر نے کافی کوشش کی تاکہ وہ الیکشن میں بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کر سکے۔ پہلی بار برطانوی دارالعوام کا رکن بننے سے پہلے سٹامر نے وکالت کے شعبے میں اپنا نام بنایا تھا تاہم انہیں  ہمیشہ سے سیاست میں دلچسپی تھی اور اپنی جوانی میں وہ بائیں بازو کی سخت گیرسیاست کے حامی تھے۔ وہ 1962 میں لندن میں پیدا ہوئے اور ان کا بچپن جنوب مشرقی انگلینڈ میں سری کاؤنٹی میں گزرا۔ ان کی دو بہنیں اور ایک بھائی ہیں۔سٹامر نے 2007 میں شادی کی۔ ان کی بیوی وکٹوریہ الیگزینڈ ر این ایچ ایس کے لئے  کام کرتی ہیں جبکہ ان کے دو بچے ہیں۔

سٹامر اکثر کہتے ہیں کہ وہ مزدور طبقے سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان کے والد ایک کارخانے میں اوزار بناتے تھے اور ان کی والدہ ایک نرس تھیں۔ان کے گھر والے لیبر پارٹی کے پرانے حامی تھے بلکہ سٹامر کا نام بھی پارٹی کے پہلے سربراہ، جو ایک کان کن تھے، کیئر ہارڈی کے نام پر رکھا گیا تھا۔سٹامر کے گھر میں سکون نہیں تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ ان کے والد سرد مہر تھے اور زیادہ بات نہیں کرتے تھے۔ ان کی والدہ کی زیادہ تر زندگی سٹل ڈزیز نامی آٹو امیون بیماری سے لڑتے ہوئے گزری۔ بیماری سے لڑتے لڑتے بالآخر وہ چلنے اور بولنے سے قاصر ہو گئیں اور اسی بیماری کی وجہ سے ان کی ایک ٹانگ بھی کاٹنی پڑی۔  سٹامر نے 16 سال کی عمر میں لیبر پارٹی کی مقامی یوتھ برانچ میں شمولیت اختیار کی۔ کچھ عرصے کے لیے انھوں نے ایک انتہا پسند بائیں بازو کے میگزین سوشلسٹ الٹرنیٹیوز کے مدیر کے طور پر بھی کام کیا۔سٹامر اپنے خاندان میں یونیورسٹی جانے والے پہلے فرد تھے۔ انہوں نے لیڈز اور آکسفورڈ سے قانون کی تعلیم حاصل کی اور پھر انسانی حقوق کے ماہر وکیل کی حیثیت سے کام کیا۔ اس دوران انہوں نے کیریبین اور براعظم افریقہ کے ممالک میں سزائے موت ختم کرنے کے لئے  کام کیا۔نوے کی دہائی میں انہوں نے ایک مشہور کیس میں دو ماحولیاتی کارکنوں کی نمائندگی کی تھی جن پر ملٹی نیشنل ریستوران میکڈونلڈز نے ہتک عزت کا مقدمہ دائر کیا تھا۔ 2008 میں سٹامر کو پبلک پراسیکیوشن کا ڈائریکٹر اور کران پراسیکیوشن سروس کا سربراہ بنایا گیا جس کے بعد وہ برطانیہ اور ویلز میں سب سے سینیئر پراسیکیوٹر بن گئے تھے۔ 2013 میں انہوں نے یہ ملازمت ترک کی جبکہ 2014 میں انہیں  سر کا خطاب دیا گیا۔  سٹامر 2015 میں لندن کے حلقے ہولبرن اور سینٹ پینکریاز سے رکن پارلیمنٹ کے طور پر دارالعوام کا حصہ بنے۔اس وقت لیبر پارٹی بائیں بازو کے سیاست دان جیریمی کوربن کی قیادت میں اپوزیشن میں تھی۔

ترک وطن جیسے شعبوں میں حکومت کی کارکردگی کا جائزہ لیتے ہوئے کوربن نے سٹامر کو ہوم آفس کا شیڈو منسٹر بنایا۔برطانیہ کے یورپی یونین سے نکلنے کے حق میں ووٹ دینے کے بعد سٹامر کو بریگزٹ کا شیڈو سیکرٹری بنا دیا گیا۔ اپنے عہدے کا استعمال کرتے ہوئے انہوں نے دوسرا ریفرنڈم کروانے کی کوشش کی۔ سٹامر کو  2019 میں عام انتخابات کے بعد لیبر پارٹی کا سربراہ بننے کا موقع ملا جب عام انتخابات میں 1935 کے بعد پارٹی کو اب تک کی بدترین شکست ملی۔ اسی شکست نے جیریمی کوربن کو استعفی دینے پر مجبور کیا۔سٹامر نے بھی لیبر پارٹی کی قیادت بائیں بازو کے پلیٹ فارم سے ہی حاصل کی۔ انہوں نے توانائی اور پانی کی کمپنیوں کو قومیانے اور یونیورسٹی کے طلبا کے لئے  مفت تعلیم کی وکالت کی تھی جبکہ کوربن نے لیبر کو بائیں بازو اور اعتدال پسندوں کے درمیان تقسیم کر دیا تھا۔

سٹامر کہتے تھے کہ وہ پارٹی کو متحد کرنا چاہتے ہیں لیکن وہ کوربن کے سخت گیر موقف کو بھی برقرار رکھنا چاہتے ہیں۔ انہوں نے مرکز کی طرف زیادہ جھکنے کے رجحان کے بارے میں خبردار کیا تھاتاہم بعد میں سٹامر نے کوربن کو لیبر پارٹی کی پارلیمانی پارٹی سے معطل کر دیا تھا کیونکہ کوربن کی قیادت کے دور میں ایک یہود مخالف تنازع سامنے آیا تھا۔لیبر پارٹی میں بائیں بازو کے خیالات کے حامی بہت سے لوگوں کا کہنا ہے کہ سٹامر پارٹی کے اندر ایک طویل عرصے سے اس بات کی کوشش کر رہے تھے کہ صرف اعتدال پسند اراکین انتخابات میں بطور امیدوار کھڑے ہوں۔ اپنی انتخابی مہم میں انہوں نے جو بھی کہا ہو، سٹامر پارٹی کو قابل انتخاب بنانے کے لئے  مرکز کی طرف لے کر آئے ہیں۔سوائے چند سخت گیر موقف والی سکیموں کے سٹامر نے برطانیہ کے خراب معاشی حالات کا حوالہ دیتے ہوئے بہت سی مہنگی پالیسیوں کو ترک کر دیا۔

سٹامر نے توانائی اور پانی کی کمپنیوں کے قومیانے کی اپنی سابقہ تجاویز کو مسترد کر دیا۔تاہم انہوں نے گریٹ برٹش ریلویز نامی ایک نئی کمپنی کے تحت تقریبا تمام مسافر ریل خدمات کو پانچ سال کے اندر دوبارہ پبلک سیکٹر میں لے جانے کا وعدہ کیا ہے۔سٹامر نے کالج کے طلبا کے لئے  ٹیوشن فیس ختم کرنے کے اپنے سابقہ وعدے کو بھی ترک کر دیا۔ وضاحت دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ حکومت اسے برداشت نہیں کر سکے گی۔مئی میں انہوں نے بی بی سی کو بتایا تھا کہ یہ کافی حد تک ممکن ہے کہ ہمیں اپنے اس ارادے کو ترک کرنا پڑے کیوںکہ ہماری مالی صورتحال اب بہت مختلف ہے۔تاہم سٹامر کا کہنا ہے کہ لیبر برطانیہ کے نجی سکولوں کی فیسوں پر ویلیو ایڈڈ ٹیکس وصول کرنا شروع کر دے گی۔لیبر پارٹی نے 2021 میں ماحول دوست توانائی کے منصوبوں پر سالانہ 35 ارب ڈالر خرچ کرنے کے وعدے کو بھی واپس لے لیا تاہم پارٹی کا الیکٹرک کاروں کی بیٹریز کے کارخانے اور ہوا سے بجلی پیدا کرنے والے بجلی گھر بنانے کا منصوبہ اپنی جگہ قائم ہے۔مخالف کنزرویٹو پارٹی نے سٹامر کی اس بات پر تنقید کی کہ یہ ایک کلیدی پالیسی سے کسی طرح اپنی جان چھڑانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ حال ہی میں سٹامر نے جی بی انرجی نامی ایک نئی کمپنی کے ذریعے ماحول دوست توانائی میں آٹھ ارب پاونڈز کی سرمایہ کاری کرنے کا وعدہ کیا ہے۔انہوں نے یہ وعدہ بھی کیا ہے کہ وہ 2030 تک برطانیہ کی بجلی کی پیداوار کے لئے استعمال ہونے والے ایندھن میں فوسل فیول کا استعمال تقریباً مکمل طور پر ختم کروا دے  گا، بہت سے ماہرین کا خیال ہے کہ ایسا کرنا ناممکن ہے۔اکتوبر 2023 میں اسرائیل پر حماس کے حملے کے بعد سٹامر نے غزہ میں اسرائیل کی کارروائیوں کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ اسے اپنے دفاع کا حق حاصل ہے۔ان کے موقف پر فلسطینی حامی ووٹرز کی طرف سے سخت رد عمل آیا اور لیبر پارٹی کے درجنوں ارکانِ پارلیمان نے ان سے اختلاف کیا اور فوری جنگ بندی کا مطالبہ کیا۔تاہم اس سال فروری میں انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ جنگ بندی ایسی ہو جو دیرپا رہے۔ اب یہی ہونا چاہیے۔

عوامی رائے جاننے کے لئے  مارچ میں یو گو نامی ادارے کی جانب سے کروائے گئے ایک پول میں سامنے آیا کہ برطانیہ میں 52 فیصد لوگوں کا خیال ہے کہ سٹامر اس معاملے سے صحیح طرح نہیں نمٹ رہے۔سٹامر نے حکومت کی اس وقت بھی حمایت کی جب یمن کے حوثی جنگجوں کی جانب سے اسرائیل سے جڑے بحری جہازوں کی سروس پر حملے کے جواب میں برطانیہ نے حوثی اڈوں پر بمباری کی تھی۔ 2019 میں سٹامر نے بریگزٹ کے معاملے پر دوسرے ریفرینڈم کے لئے  زور دیا تھا کہ آیا برطانیہ کو یورپی یونین سے نکل جانا چاہیے یا نہیں۔اب وہ کہتے ہیں کہ بریگزٹ پر واپس جانے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا لیکن وہ یورپی یونین کے ساتھ خوراک، ماحولیاتی اور مزدوری کے معیارات جیسی چیزوں پر تعاون کے نئے معاہدوں پر بات کریں گے۔